پاک ایران تعلقات بہتری کی طرف
ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے تہران میں پاکستان کے سفیر محمد مدثر ٹیپو سے سفارتی اسناد قبول کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی کو تہران اور اسلام آباد کے تعلقات خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کی مشترکہ سرحدیں معاشی اور سلامتی فروغ کا بہترین موقع ہیں جنہیں ہر طرح کی بدامنی سے محفوظ رکھنا چاہیے،ایران اور پاکستان کے تعلقات گہرے اور مضبوط ہیں جس کی بنیاد مشترکہ، دین، فرہنگ اور تمدن پر استوار ہے۔ صدر مملکت نے کہا کہ ایران کی پالیسی ہمسایہ ممالک کے ساتھ اتحاد پر مبنی ہے اور وہ پاکستان کی سلامتی کو اپنی سلامتی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے امریکی حمایت یافتہ دہشت گردوں کو علاقے کے لئے انتہائی خطرناک قرار دیا۔اس موقع پر پاکستان کے سفیر محمد مدثر ٹیپو نے بھی تہران اور اسلام آباد کے گہرے تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان دشمنوں کو مشترکہ سرحدوں کا غلط استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دے گا، پاکستان، ایران کے ساتھ برادرانہ تعلقات کا نیا باب کھولنے کے لئے تیار ہے۔ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے ایرانی حدود کے اندر 9 پاکستانیوں کے قتل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے زور دیا کہ پاکستان کے ساتھ ”تناؤ بھڑکانے“کی کوششوں کا مقابلہ کیا جائے۔اتوار کو ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان بھی ایک روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے، پاکستانی ہم منصب جلیل عباس جیلانی نے ان کے ساتھ اسلام آباد میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پاک ایران تعلقات کئی صدیوں پر محیط ہیں اور اگر دونوں ممالک کے برادرانہ تعلقات کو کسی نے بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو اسے ناکام بنا دیا جائے گا۔ اْنہوں نے کہا کہ تمام چیلنجوں سے نبٹنے کے لئے سفارتی اور عسکری سطح سمیت ہر طرح کے رابطے بحال ہیں۔ دونوں وزرائے خارجہ کا موقف تھا کہ پاک ایران سرحد پر موجود دہشت گرد دونوں ممالک کی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں اور اْن کا قلع قمع کیا جانا ضروری ہے۔
پاک ایران تعلقات میں حالیہ کشیدگی اْس وقت پیدا ہوئی جب ایران کی سکیورٹی فورسز نے کسی پیشگی اطلاع کے بغیر پاکستانی حدود کے خلاف ورزی کرتے ہوئے صوبہ بلوچستان کے ایک دور درازسرحدی گاؤں ”سبزہ کوہ“ میں رہائشی علاقے کو میزائل حملوں سے نشانہ بنایا۔ پاکستانی حکام کے مطابق ایران کی جانب سے کئے گئے حملے میں دو بچے ہلاک جبکہ کئی زخمی ہوئے۔پاکستان نے اِس واقعے پر شدید احتجاج کیا اور 24گھنٹوں میں اِس خلاف ورزی کا جواب بھی دے دیا، اس جوابی کاروائی کو پاکستان نے ”آپریشن برگ برسرمچار“ کا نام دیا۔ ایرانی سرحد پر موجود دہشت گردوں کو نشانہ بنایا، اس حملے میں 9دہشت گرد مارے گئے لیکن کسی ایرانی شہری کو نقصان نہیں پہنچا۔ پاکستان نے ایران کے حملے کو سرحد کی شدید خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے وہاں سے اپنا سفیر واپس بلا لیااور ایرانی سفیر جو کہ ان دنوں اپنے ملک میں موجود تھے انہیں واپس آنے سے منع کر دیا۔دونوں مسلم ممالک میں حالات کی کشیدگی کو پوری دنیا نے انتہائی سنجیدگی سے لیا تاہم چین اور دیگر ممالک نے بروقت مداخلت کی،دونوں ممالک کی سیاسی اور عسکری قیادت نے بھی فہم و فراست اور دانشمندی سے کام لیا اور معاملات بہت زیادہ بگڑنے سے پہلے ہی سنبھل گئے۔ ایران نے کسی بھی قسم کی پیش رفت روکنے کی درخواست کی،قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں سفارتی تعلقات فوری بحال کرنے کی منظوری دے دی، کابینہ نے بھی توثیق کر دی اور مکمل سفارتی رابطے بحال ہوگئے۔پاکستانی وزیر خارجہ نے ایرانی ہم منصب کو پاکستان آنے کی دعوت دی تھی۔سب کچھ ٹھیک ٹھیک چل رہا تھا کہ ہفتے کوایرانی علاقے میں 9پاکستانیوں کو قتل کر دیا گیا، پاکستان نے اس سانحے پر شدید احتجاج کیا جس پرسیستان کے گورنر نے یقن دلایا ہے کہ پولیس واقعہ کی تحقیقات کررہی ہے اور وہ دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کریں گے۔ جاں بحق ہونے والے افراد ایران میں مزدوری کرتے تھے۔ ایرانی وزیر خارجہ کی پاکستان آمد اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
پاکستان اور ایران برادر اسلامی ممالک ہیں، ہمسائے ہیں،ایک دوسرے کے ساتھ مذہب، تمدن اور ثقافت کی بنیاد پر جڑے ہوئے ہیں۔ ایران نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا،1965ء کی جنگ میں کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا یہاں تک کہ پاکستانی طیارے ایران سے ایندھن بھرواتے اور پھر جنگ میں حصہ لیتے رہے۔ سفارتی سطح پر بھی دونوں ممالک میں ہم آہنگی رہی ہے، امام خمینی کے انقلاب کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں نئی جہت دیکھنے میں آئی۔ دونوں ممالک کے درمیان کبھی کبھار کشیدگی دیکھنے میں آئی لیکن مسائل کبھی اتنے نہیں بڑھے کہ ملک دشمن قوتیں خوشی منائیں۔ سعودی عرب سے گہرے برادرانہ تعلقات کے باوجود پاکستان ایران کا رشتہ کبھی کمزور نہیں ہوا اور اب تو سعودی عرب اور ایران کے درمیان بھی سفارتی تعلقات بہت بہتر ہو گئے ہیں۔ کشمیر سے لے کر فلسطین تک پاکستان اور ایران نے ہر پلیٹ فارم پر مشترکہ موقف اپنائے رکھا۔ اسلامی بلاک میں عراق، شام، لیبیا،عراق کی شکست و ریخت کے بعد پاکستان اور ایران ہی دو ایسے ممالک ہیں جو بھرپور فوجی صلاحیت رکھتے ہیں، پاکستان ایٹمی ملک ہے جبکہ ایران کے بارے میں گمان ہے کہ وہ ایٹمی صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔ بہت سے عناصر ایسے ہیں جنہیں پاک ایران تعلقات ایک آنکھ نہیں بھاتے، اسی لئے ایسی کاروائیاں کی جاتی ہیں جس سے دونوں کے تعلقات میں کشیدگی آ جائے۔
حالیہ واقعات کے بعد یہ ڈر تھا کہ کہیں خطے میں حالات خراب نہ ہو جائیں، پہلے ہی فلسطین اسرائیل جنگ جاری ہے ایسے میں اگر مسلم ممالک آپس میں بھڑ جاتے تو بہت نقصان ہوتا۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ دونوں اطراف کی قیادت نے دانشمندی کا مظاہرہ کیا اور ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہونے کی بجائے ساتھ دینے کو ترجیح دی۔ پاکستان اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی واقف ہے، یہی وجہ ہے کہ اِس نے ایران مخالف گروپوں کو کبھی اپنی سرحد استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی لیکن پاکستان میں دہشت گردی کے لئے ہمسایہ ممالک کی زمین استعمال ہوتی ہے۔ پاکستان مخالف بلوچ علیحدگی پسند بھی ایران میں ڈیرہ ڈال لیتے ہیں۔ پاکستان کو پہلے ہی سرحدی علاقوں میں در اندازی اور دہشت گردی کا سامنا ہے۔خطے میں امن قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مل کر دہشت گردوں کے خاتمے کے لئے مشترکہ لائحہ عمل تیار کیا جائے،ملک دشمن عناصر کا مقابلہ کرنے کے لئے جوش نہیں بلکہ ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے۔