سنتِ ابراہیمی کا مقصدِ اصلی
سنتِ ابراہیمی جسے ہم مقامی اصطلاح میں قربانی کہتے ہیں کا بالکل سادہ مفہوم یہ ہے کہ خدا اور انسان کے بیچ ہر اْس والہانہ سپردگی کا فی نفسہ قلع قمع کر دیا جائے جو خدا اور انسان کے درمیان کسی بھی قسم کا فاصلہ پیدا کر دے، قربانی کا حقیقی فلسفہ بیان کرنے سے پہلے لابدی ہے کہ اس کی شرعی حیثیت پر طائرانہ نظر ڈال لی جائے، قرآن میں الاضحیہ یعنی عید الاضحٰی کے دن جانور ذبح کرنے کا کوئی خصوصی حکم موجود نہیں چنانچہ اس ضمن میں جتنی بھی نصوص ہیں وہ عمومی احکام سے استنباطی نوعیت کی ہیں جیسا کہ ارشاد ہے فصل لربک ونحر، ذخیرہِ احادیث پر نظر دوڑائیں تو وہاں پر قربانی کی فضیلت کے متعلق جتنی بھی روایات ملتی ہیں وہ یا تو بالکل غریب ہیں یا زیادہ سے زیادہ درجہِ حسن کو پہنچتی ہیں صحیحین کی ایک روایت ہے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سیاہ اور سفید مینڈھوں کی قربانی دی انہوں اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور (ذبح کرتے ہوئے) بسم اللہ اللہ اکبر کہا اور اپنا پاؤں ان کی گردن پر رکھا، علاوہ ازیں مسند امام احمد کی ایک روایت عموماً بیان کی جاتی ہے اور جو معروف شامی محدث علامہ البانی کی تنقیح کے مطابق حسن درجہ کی ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ شریف میں دس برس قیام کیا اور آپ ہر برس قربانی کیا کرتے تھے، قرآن و حدیث کے اس اجمالی بیان کے بعد اب ہم رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل کو بھی بیان کر لیتے ہیں، چنانچہ امام بیہقی سنن کبرٰی میں ایک روایت اصحابِ صفہ کے صحابی حضرت حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا کہ میں نے خود دیکھا حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما قربانی ترک کر دیتے تھے صرف اس سبب کے پیشِ نظر کہ لوگ ہماری اتباع میں اس عمل کو لازم و واجب قرار نہ دے دیں، اسی روایت میں حضرت عقبہ بن عامر انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں قربانی ترک کر دیتا ہوں کسی سال تاکہ لوگ یہ نہ سمجھ لیں کہ یہ واجب ہے، امام ابن حزم لکھتے ہیں کہ سید التابعین حضرت سعید ابن مسیب کا یہ عمل انتہائی معروف تھا کہ ایک سال آپ اْونٹ ذبح کرتے دوسرے سال گائے، تیسرے سال بکری اور چوتھے سال یہ عمل ترک کر دیتے تاکہ لوگ اس کو لازم نہ سمجھ لیں، آئمہ ثلاثہ حضرت امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک اضحیہ سنت جبکہ امام ابو حنیفہ علیہ الرحمہ اس کے وجوب کے قائل تھے، یہ تو خیر قربانی کی شرعی حیثیت واضح کرنے کی ایک غیر جانبدارانہ کوشش تھی میرا مدعا تو قربانی کا مقصدِ اصلی بیان کرنا ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام سلسلہِ نبوت کے مبتدی ہیں آپ کا خدا سے غیر معمولی ربط بعد کے تمام انبیاء کیلئے مشعلِ راہ بن گیا چنانچہ بت تراش آزر کے گھر پیدا ہونے والے حضرت ابراہیم عین جوانی میں خدا کی قربت کے اس قدر اہل ہو گئے کہ آپ کو خلیل اللہ یعنی اللہ کے دوست کا اعزاز مل گیا، پس یہ عملِ اضحیہ حضرت ابراہیم کی خدا سے غیر معمولی قربت ہی کی ایک یادگار ہے، کہانی کچھ یوں ہے کہ حضرت ابراہیم نے خدا سے آخری عمر میں اولاد کی التجا کی اور خدا نے آپ کو اخیر عمر میں ایک بیٹے سے نوازا، بیٹا جوں جوں بڑھتا گیا باپ سے بیٹے کی محبت بھی اپنے عروج کی جانب گامزن ہوتی گئی حتیٰ کہ اس قربت نے حضرت ابراہیم کو خدا کی جانب سے ایک زبردست آزمائش سے ہمکنار کر دیا پس ارشاد ہوا اے ابراہیم! میری راہ میں اپنی سب سے پیاری چیز قربان کیجئے، پہلے تو آپ اپنے سالوں کی محنت سے پروردہ اْونٹ، گائے اور بکریاں ذبح کرتے رہے لیکن بعد میں جب اپنے بیٹے کی جانب اشارہ ملا تو بغیر کسی تامل کے آپ اپنے بیٹے کو خدا کی راہ میں قربان کیلئے روانہ ہو گئے خدا نے حضرت ابراہیم کی اس والہانہ سپردگی کو قبول کیا اور حضرت ابراہیم کی اس والہانہ سپردگی کو آنے والی نسلوں کیلئے ایک مشعلِ راہ بنا دیا، پس قربانی کا سادہ مطلب یہ ہے کہ خدا کی راہ میں پیارے سے پیارا رشتہ بھی کوئی معنی نہ رکھے چنانچہ اضحیہ ایک درسِ عشق ہے اور عشق راہِ ایثار ہے، کسی مخصوص دن کوئی مخصوص جانور ذبح کرنے سے رسمِ شرعی تو پوری ہو جاتی ہے لیکن سنتِ ابراہیمی کی کماحقہ تکمیل کیلئے ضروری ہے کہ آپ والہانہ سپردگی اور دائرہِ عشق سے حتمی طور پر واقف ہوں ورنہ کسی ذبیحہ کا گوشت یا ہڈیاں بانٹنے سے آپ مرادِ ابراہیمی تک نہیں پہنچ سکتے جیسا کہ سورہ الحج میں ارشاد ہے "لن ینال و لحومھا ولا دمائھا ولکن ینالہ التقوی منکم”اللہ کے پاس نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون لیکن اس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے، یہاں یہ اَمر واضح ہو گیا کہ محض جانور ذبح کر لینے سے معاملہ صاف نہیں ہو جاتا، تقویٰ کا عمومی مفہوم تو خدا کا خوف بیان کیا جاتا ہے لیکن یہاں پھر ایک منطقی سوال یہ ابھرتا کہ جہاں معاملہ عشق و ایثار کا ہو وہاں خوف کیا معنی رکھتا ہے؟ یقیناً خوف تعلق کیلئے سمِ قاتل ہے بلکہ خوف تو ایک نقصان دہ نفسیاتی کیفیت ہے جس میں مبتلا انسان آج کے زمانے میں ایک نفسیاتی مریض کے طور پر جانا جاتا ہے، پس یہ ضروری ہو گیا ہے کہ تقویٰ کا مفہوم خدا کیلئے خالص ہونا قرار دے دیا جائے جیسا کہ ہمارے صوفیاء کے ہاں یہی معنی و مفہوم لئے جاتے رہے، جب تقویٰ کے معانی عشق و ایثارِ خداوندی قرار پائیں گے تو پھر سنتِ ابراہیمی کی کوئی اضافی منطق وضع کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی، جانور ذبح کرنا فی نفسہ مقصود نہیں اور نہ ہی یہ عمل خدا کی کسی اسکیم کا حصہ تھا خدا جو حضرت ابراہیم سے ایک حتمی درجے کا ایثار طلب کر رہا تھا اگر کسی جانور کو ذبح کرنے پر اکتفا کر لیتا تو یہ عمل حضرت ابراہیم بارہا سرانجام دے چکے تھے لیکن خدا کو جو مطلوب تھا وہ دراصل خدا اور حضرت ابراہیم کے بیچ عشق و ایثار کا وہ غیر معمولی بہاؤ تھا جس میں اولادِ ابراہیم نے ٹھہراؤ پیدا کر دیا تھا پس خدا کو جانچنا تھا کہ اب میرا دوست اپنی اولاد اور میرے معاملے میں کس جانب رخ کرتا ہے چنانچہ دوست نے دوستی کی لاج رکھی اور اپنی سگی اولاد کو محبتِ خدا کی راہ میں پیش کر دیا جبکہ اسی طرح دوست اعلیٰ نے بھی اپنے دوست کو اس آزمائش میں سرخرو کرتے ہوئے اْنہیں اپنا بچہ ثابت سلامت واپس لوٹا دیا، پس سنتِ ابراہیمی خدا اور اْس کے سچے بندے کے درمیان عشق و ایثار کی داستان ہے جسے رہتی دنیا تک کروڑوں انسانوں کیلئے ایک نمونہ بنا دیا گیا، سنتِ ابراہیمی کا مقصدِ اصلی قافلہِ عشّاق ہی کماحقہ سمجھتا اور سمجھاتا رہا ہے ورنہ عقل و تدبر کی تو یہ حالت ہے کہ کسی بھی مخصوص دن کوئی مخصوص جانور ذبح کرنے کی نہ تو منطق سمجھ آ سکتی ہے اور نہ ہی اس ضمن میں کسی قسم کی کوئی دلیل کارگر ثابت ہو سکتی ہے جیسا کہ حضرت اقبال فرماتے ہیں:
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی