وبا کے دنوں میں ڈپریشن کا حل

وبا کے دنوں میں ڈپریشن کا حل
وبا کے دنوں میں ڈپریشن کا حل

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ایک طویل عرصہ سے لکھنے لکھانے کا سلسلہ متروک ہوا پڑا ہے جس کی بنیادی وجوہات ایک تو نہیں کہ بیان کی جائے مگر ایک وجہ ایسی ہے کہ جس نے لفظوں کے ہیر پھیر سے دور کر دیا اور وہ وجہ ہے ہمارے ہاں علم و تحقیق سے وہ وراثتی غفلت جس کا گراف پچھلے دس سالوں میں قریباً بالکل زمیں بوس ہو چکا، ہمارے ہاں علم کی جستجو، حکمت کی تلاش اور سائنسی رویہ کبھی پنپ ہی نہیں پایا جس کا تذکرہ اکثر و بیشتر میری نگارشات میں جاری رہتا ہے چنانچہ اس موضوع کو کسی خاص وقت کیلئے محفوظ رکھتے ہوئے میں آج ایک عالمی مہلک وبا کے نفسیاتی پہلو پر بات کروں گا، میرا تعلق چونکہ براہ راست اطلاقی و طبی نفسیات سے رہا ہے اس لئے آجکل مجھ سے صرف ایک ہی سوال طلبہ و رفقاء کی جانب سے پوچھا جا رہا ہے کہ اس عجیب و غریب وبا نے تو ہمیں جسمانی اور ذہنی طور پر مفلوج کرکے رکھ دیا ہے اور اس سے بچنے کی جو طبی احتیاط بتائی جاتی ہے اس کی طبی افادیت تو ایک طرف لیکن اس سے متعدد ذہنی انتشار جنم لینے لگے ہیں یعنی ڈپریشن اور سٹریس وغیرہ چنانچہ ایسی صورتحال میں ڈپریشن سے کیسے بچا جائے؟ ایک شخص جو روزانہ لوگوں میں گھلنے ملنے کا عادی ہے اور اس کے بغیر اس کی زندگی بے رنگ سی ہے وہ کیونکر دو یا تین ہفتے اکیلے کمرے میں خود کو بند کرکے ذہنی طور پر معذور کر سکتا ہے مگر افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اس مہلک وبا سے بچنے کا اب یہی ایک ہی طریقہ ہے چنانچہ جب آپشن کی گنجائش ہی موجود نہ ہو تو وہاں مجبوری ہی کو افادیت کے دھارے میں لانا ہی حقیقی دانشمندی ہے،

مجھے یہ بات کہنے میں ذرا سا بھی تردد نہیں ہے کہ جہاں علم و دانش انسان کیلئے ایک حتمی ضابطہِ حیات ہے تو وہاں اسی دانش کے کچھ سائیڈ ایفیکٹس بھی ہیں جنہیں دور کرنے کیلئے جذبات کو کام میں لایا جاتا ہے پس جذبہ ایک ایسی طاقت ہے جو حکمتِ انسانی کو جِلا بخشتا ہے اگر حکمت سے جذبات کو دور کر دیا جائے تو پیچھے جو کچھ بچتا ہے اْسے ڈپریشن، سٹریس اور انگزائٹی کہا جا سکتا ہے، ذہنی صحت کا راز جذبات کی رنگا رنگ دنیا میں موجود ہے جیسے جسم کیلئے بہترین خوراک کی ضرورت پڑتی ہے بالکل ایسے ہی ذہن کو بھی مناسب خوراک کی ضرورت ہوتی ہے یہ ذہن جسے آپ مذہبی اصطلاح میں روح، منطق میں شعور اور سائنس میں لائف انرجی کہہ سکتے ہیں دراصل جسم کا ڈرائیور ہے آپ نے کبھی غور کیا ہو کہ جب انسان اْداس ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس کا اثر اْس کے معدہ پر پڑتا ہے اور وہ کھانا پینا ترک کر دیتا ہے چنانچہ جب تک سٹور کی ہوئی خوراک سے معدہ سروائیو کر سکتا ہے کرتا رہتا ہے، ڈپریشن ایک خالص نفسیاتی اصطلاح ہے جس میں ایک مریض مستقبل کی فکر کو ایک دباؤ کی صورت میں ذہن پر لاد لیتا ہے پس یہی بوجھ ڈپریشن کہلاتا ہے، کل کیا ہو گا اس کیلئے ضروری ہے کہ کل ہو اور جب کل ہو گا تو وہ آج ہی ہو گا، دنیا میں آج تک کسی کی زندگی میں آنے والا کل نہیں آیا کیونکہ جو کچھ موجود ہوتا ہے وہ بہرصورت آج ہی ہوتا ہے، وہ لوگ کبھی خوش نہیں رہ سکتے جو یا تو ماضی میں جی رہے ہیں یا جنہیں مستقبل کی فکر نے نڈھال کر رکھا ہے طبی نفسیات میں ڈپریشن اور سٹریس کی سب سے بنیادی وجہ انسان کا حال سے غافل ہو جانا ہے علاوہ ازیں تنہائی ذہنی رجحانات میں مختلف منفی اور مثبت تبدیلیاں لاتی ہے مگر زیادہ تر انسان منفی رجحانات کی جانب ہی لڑھکتا رہتا ہے اس لئے تنہائی کو علمائے نفسیات جہاں تخلیق کا سرچشمہ قرار دیتے ہیں تو وہاں کچی ذہانت کے حامل افراد کیلئے تنہائی کسی ذہنی سانحہ سے کم بھی نہیں پس وبائی علامات ظاہر ہونے کے بعد اگر کسی کو تنہائی اختیار کرنا پڑے تو ضروری ہے کہ وہ اس دوران اپنی قوتِ مدافعت پر خصوصی دھیان دے، خاص کر خوراک پر یعنی اْبلے ہوئے انڈے، ملائی، مکھن، مختلف دالیں،

تازہ سبزیاں اور تازہ پھل کا بھرپور استعمال کرے، ذہنی صحت کیلئے ضروری ہے کہ پسندیدہ کتب کا مطالعہ کیا جائے، نعت و نشید یا کلاسیکل موسیقی جس میں ردھم کا خوب استعمال ہو سنی جائے کیونکہ ردھم کا تعلق براہ راست نیورانز سے ہوتا ہے، مذہبی ذہنیت کے حامل افراد ایسے وقت کو غنیمت جان کر کوئی مذہبی علمی سرگرمی اختیار کر لیں جیسا کہ میرے ایک متشرع دوست تنہائی کے سبب آجکل آن لائن عربی زبان سیکھ رہے ہیں تاکہ وہ قرآن کو براہ راست سمجھ سکیں، اس طرح کی دیگر علمی و تفریحی سرگرمیاں اختیار کی جا سکتی ہیں، اگر دیکھا جائے تو ڈپریشن کرونا کی وبا سے بھی زیادہ خطرناک اور مہلک نفسیاتی بیماری ہے جو پہلے سے ہی عام تھی اور اب تو قریباً ہر تیسرا شخص اس مرض کا شکار نظر آتا ہے، اس ضمن میں ایک انتہائی ضروری نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جب تک آپ اپنے خیالات کو مثبت دھارے میں نہیں ڈالیں گے تب تک ڈپریشن سے پیچھا چھڑانا ممکن نہیں، زندگی جیسی ہے اس کو بالکل ویسا ہی دیکھنے کی عادت ڈالیں اور ہر حال میں مثبت رہنے کی کوشش کریں کیونکہ دنیا کی بڑی سے بڑی مصیبت صرف اْس وقت تک مصیبت ہوتی ہے جب تک آپ اس کی ذہنی طور پر تصدیق نہیں کر لیتے چنانچہ کوئی بھی مسئلہ صرف اتنا بڑا ہوتا ہے جتنا کہ آپ اسے بنا لیتے ہیں ورنہ مسائل اس قدر طاقتور نہیں ہوتے کہ وہ انسانی زندگی کی لگام اپنے ہاتھ میں لے لیں، مجھے اکثر و بیشتر احباب یہ کہہ دیتے ہیں کہ جب تکلیف آتی ہے تو پھر سوائے ڈپریشن کے ہمارے پاس کوئی چارہ کار نہیں ہوتا اور میرا جواب ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ جو بھی تکلیف آتی ہے تھوڑا سا غور کریں تو وہ تکلیف اپنے ساتھ راحت پر مبنی ایک دانش بھی لاتی ہے بات صرف اتنی سی ہے کہ تکلیف کے دورانیہ میں اس دانش یا حکمت کو ڈھونڈا جائے جس کے بعد تکلیف کا احساس رفع ہو جاتا ہے چنانچہ ایسی کوئی تکلیف نہیں ہوتی جس کا مستقل یا عارضی دافع موجود نہ ہو پس تکلیف کو بڑھا چڑھا کر اس پر دھیان دینے سے بہتر ہے کہ دفعیات پر توجہ دی جائے تاکہ جلد از جلد تکلیف سے نجات حاصل ہو۔

مزید :

رائے -کالم -