عمران خان پھٹیچر نہ بنیں

اپنے عمران جی کا المیہ یہ ہے کہ وہ گیند پھینکنے کے انداز اوررفتار سے بیان داغ دیتا ہے ۔وہ بھول جاتا ہے کہ وہ اب کھلاڈی نہں رہا، سیاستدان بن چکا ہے ۔پی ایس ایل کا فائنل کرانے کی مخالفت کرتے ہوئے موصوف نے ’’پھٹیچر‘‘اور ’’ریلو کٹوں‘‘ کا ذکر کیا تھا۔ یاروں نے بہت سمجھایا‘ لکھنے والوں نے کالم لکھے‘تنبیہ کرنے والوں نے تنبیہ کی اور احساس دلانے والوں نے احساس دلایا کہ حضور آپ نے جو کچھ فرمایا وہ ٹھیک نہیں ہے‘ دہشت گردی کے خطرات کے باوجود لاہور میں پی ایس ایل کا فائنل کرانے والے پھٹیچر نہیں‘ نہ ہی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کے پاکستان میں کرکٹ کے احیا کے لئے لاہور آنے والے ریلو کٹے ہیں‘حتیٰ کہ پھٹیچر اور ریلو کٹے کے الفاظ غیر پارلیمانی قرار دے دئے گئے‘ لیکن کپتان مانے نہ دیا۔ اپنے تازہ بیان میں انہوں نے نجم سیٹھی کو پھٹیچر قرار دیا اور ساتھ یہ دعویٰ بھی ٹھوک دیا کہ وہ اپنا پی ایس ایل الگ سے کرائیں گے اور اس میں ریلو کٹوں کو ہرگز نہیں بلائیں گے۔ مطلب یہ کہ وہ جو کچھ کہتا پھرے‘ ٹھیک‘ لیکن اپنا پرنالا وہیں رہے گا۔ عوام کی جانب سے تنقید کے باوجود وہ اپنے موقف پر قائم ہے کہ پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کرانے والی انتظامیہ پھٹیچر ہے اور اس میں حصے لینے کے لئے آنے والے غیر ملکی مہمان ریلو کٹےَ کپتان کو سوچنا چاہئے کہ کیا یہ ایک سیاست دان کا طرز عمل ہے؟ وہ خود اگر اپنے پی ایس ایل میں دوسرے ممالک کے کھلاڑی شامل نہیں کریں گے تو غیر ملکی کھلاڑیوں اور ٹیموں کے پاکستان آنے کا بند راستہ کیسے کھلے گا؟کلب لیول اور قومی سطح پر فرسٹ کلاس کرکٹ تو پہلے ہی ہمارے ملک میں ہو رہی ہے بلکہ مقامی سطح پر فرسٹ کلاس کرکٹ میں پاکستان دنیا بھر میں نویں نمبر پر آتا ہے اور ہر سال فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے والی ٹیموں کے درمیان ٹورنامنٹ بھی کرائے جاتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک اور ٹی ٹونٹی ٹورنامنٹ کراکے کپتان ملک کی کیا خدمت کریں گا؟ اس کے بعد یہ کیسے کہا جا سکے گا کہ انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے پاکستان پر کھل گئے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ پونے چار سالوں میں عمران خان نے اپنا سیاسی قد بڑھایا ہے اور بہت سی باتوں اور معاملات میں اپنی بات منوائی ہے‘ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے کچھ بھی کرنے اور کچھ بھی کہنے کا اختیار حاصل ہو گیا ہے۔ ابھی تین چار دن پہلے ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس کے خلاف اور اس کی جماعت کے ایک اہم عہدے دار جہانگیر ترین کو نااہلی قرار دلوانے کے لئے دائر کرائے گئے ریفرنس کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کر دیاہے۔ یاد رہے کہ یہ ریفرنس گزشتہ ماہ مسلم لیگ ن کے کچھ قانون سازوں نے سپیکر قومی اسمبلی کو جمع کرایا تھا۔ یہ دراصل گزشتہ سال تحریک انصاف کی جانب سے قومی اسمبلی میں وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کا ریفرنس جمع کرانے کا جواب تھا۔ بہرحال اس ریفرنس کا ناقابل سماعت قرار پانا عمران خان اور تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری کی بڑی کامیابی ہے۔
اس سے زیادہ بڑی اور اہم کامیابی پانامہ لیکس کے حوالے سے ہے۔ پانامہ کیس کا فیصلہ جو بھی آئے یہ بات ماننا پڑے گی کہ پی ٹی آئی نے اس کے ذریعے نہ صرف پاکستانیوں کی رائے عامہ ہموار کی بلکہ عام آدمی کو شعور بھی ملا ہے۔ عمران خان کی یہ بہت بڑی کامیابی ہے کہ اس نے حکمرانوں کو اس قدر دفاعی پوزیشن پہ لا کھڑا کیا‘ انہیں قطری خط اور فلیٹی دستاویزات تک سب کچھ عوام کے سامنے لانا پڑا۔
اب عمران خان کو خیر پختونخوا کے معاملات پر توجہ مبذول کرنا ہو گی۔ ٹھیک ہے وہاں پولیس کا نظام پہلے سے بہتر بنا دیا گیا ہے‘ لیکن گڈ گورننس کی کسوٹی پر پورا اترنے کے لئے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے‘ جیسے کرپشن کا خاتمہ‘ شرح خواندگی میں اضافہ اور دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے ٹھوس اقدامات۔
عمران خان کو اپنی جماعت کی تنظیم سازی پر بھی توجہ دینا ہو گی۔ بجائے اس کے کہ ماضی کی طرح عام انتخابات سے چند ماہ پہلے پارٹی کے الیکشن کرائے جائیں‘ یہ کام ابھی کر لیا جائے تو بہتر اثرات سامنے آ سکتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کو تحمل اور برداشت سکھائیں۔ یہ تحمل اور برداشت پارٹی کی تنظیم سازی میں ان کے بڑے کام آئے گی۔عمران کو یاد ہو گا کہ 2013کے عام انتخابات سے پہلے انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پارٹی ورکرز ہر پولنگ سٹیشن کی نگرانی کریں گے‘ لیکن ایسا ہو نہیں سکا تھا ۔ اگلے انتخابات سے پہلے وہ اگر پارٹی کی تنظیم سازی کا ڈول ڈالیں تو اپنی وہ خواہش اب پوری کر سکتے ہیں۔ انہیں یہ تہیہ بھی کرنا ہو گا کہ اب ہر بال پر چوکا اور چھکا ہی نہیں مارنا ‘ بلکہ اب کریز پر جم کر کھیلنا ہے۔ وہ اگر جچے تُلے انداز میں آگے بڑھیں تو اگلے عام انتخابات‘ جن کے انعقاد میں ا ب تقریباً دوسال باقی ہیں‘ ان کے لئے وفاق میں کامیابی حاصل کرنا ناممکن نہیں رہے گا‘ تاہم یہ پارٹی کی تنظیم کے علاوہ ممکن نہ ہو گا۔شاید عمران خان کو یہ معلوم نہیں کہ اگلا الیکشن وزیر اعظم نوازکے بہت زیادہ حق میں جانے والا ہے‘ کیونکہ اس وقت تک سی پیک پر بہت سارا کام ہو چکا ہو گا۔اس وقت ملک بھر میں پانچ مختلف جگہوں پر موٹر ویز منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ اگلے الیکشن سے پہلے وہ پایہ تکمیل کو پہنچ چکی ہوں گے۔ لاہور کے علاوہ راولپنڈی‘اسلام آباد اور ملتان میں میٹرو بس سروس شروع ہو چکی ہے اور جیسا کہ وزیراعظم بار بار دعویٰ کرتے ہیں‘ ملک بھر میں توانائی کے بحران کا اگر مکمل خاتمہ نہ بھی ہوا تو لوڈ شیڈنگ کی شدت اور دورانیہ ہی کم کر لیا گیا تو ‘ اس سے مسلم لیگ ن کے لیے عوام کی حمایت بڑھ چکی ہو گی۔ اگلا ڈیڑھ سال اگر عمران خان نے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحمل اور رداشت نہ دکھائی تو پھر پڑھی لکھی ورکنگ کلاس کی نمائندگی کا انہیں جو شرف حاصل ہوا ہے‘وہ کھو دے گا،اسکا طرز عمل اسکی سیاست کوخدانخواستہ پھٹیچر نہ بناڈالے اور نواز شریف ایک بار پھر ایوان وزیراعظم میں براجمان ہوں گے جبکہ ہمارا کپتان ٹی وی پروگرام میں بیٹھ کر یہ فرما رہا ہوگا ’’ دیکھو حامدمیں تو انیس سال کی عمر میں کرکٹ کھیلنے انگلینڈ گیا تھا‘‘۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔