سول اداروں میں تعینات فوجی افسر!

8 ذی الحج کو منیٰ پہنچے ہی تھے کہ ایک لڑکے نے حکم صادر کیا: "حضرات,کل میدان عرفات کو ہماری روانگی نظم و ضبط سے ہوگی۔ کچھ چیزیں میں نے طے کی ہیں، سنیے". لیکن قارئین ہم شرکا کو ذہن میں رکھ لیں تاکہ بات سمجھی جا سکے: ڈاکٹر طاہر منصوری نائب صدر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی, ڈاکٹر الطاف شیخ وی سی اسرا یونیورسٹی، ڈاکٹر مختار احمد چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن، تحریک انصاف کے وزیر شہریار آفریدی، ایک سینیئر بینک آفیسر وغیرہ۔ لڑکا میرے بیٹے سے بھی چھوٹا اور ہم پختہ عمر، کئی سفید ریش جنہیں وہ تختہ مشق بنا رہا تھا۔ اس نے ایک عربی نقشہ پھیلا کر جناتی بولی بولنا شروع کر دی۔
"لک جنٹلمین, وی آر ہیر ناؤ۔۔۔۔۔کل صبح ہم اکٹھے ول موو ان دس ڈائریکشن". منظر اتنا مضحکہ خیز تھا کہ لوگ زیر لب مسکرائے. پتا چلا انہیں نئی نئی کپتانی ملی ہے لہذا وہ اپنے قائدانہ جوہر دکھا رہے تھے۔ ڈاکٹر طاہر نے مجھے اشارہ کیا کہ تمہی نمٹو۔ میں نے نقشہ دیکھ کر کہا: "جناب، یہ نقشہ ناقص ہے، اس میں اسکیل تو ہے ہی نہیں ".یہ جانتے ہوئے کہ سامنے والا اپنی سے دگنی عمر کا ہے، موصوف نے مجھے گھورا لیکن میری سفاک سنجیدگی دیکھ کر طنزاً بولے: "تو جناب آپ ہی بتائیں کیا کریں "۔
عرض کیا: "جناب, میں کیا کیا بتاؤں؟ اگلا نقص یہ کہ نقشے میں سمت متعین کرنے کا پیمانہ نہیں ہے". اب انہیں بے چارگی کا احساس ہوا, بولے: "اچھا آپ نے اسٹینڈرڈ میپ ریڈنگ کورس کیا ہوا ہے". پوچھا: "وہ کیا ہوتا ہے". بولے:" تو آپ فوج سے نہیں ہیں؟" عرض کیا: "میں پروفیسر ہوں. لیکن پہلے سمت کا تعین پھر دیگر باتیں ". اب میں نے نقشہ اپنی گود میں رکھ کر اپنی طرف اشارہ کیا: "جناب, یہ رہا جنوب، دائیں ہاتھ مشرق، بائیں کو مغرب اور میرے بالمقابل آپ کی طرف شمال۔ کپتان صاحب اب آگے چلیے". بھنا کر بولے: "اگر آپ فوجی نہیں تو آپ کو یہ چیزیں کس نے بتائیں "؟ عرض کیا: ""چھٹی جماعت میں جغرافیہ پڑھاتے وقت چچا صدیق متعلم بی ایس سی نے".
وطن واپسی پر ایئرپورٹ لاؤنج میں ایک جنرل صاحب ملے۔ تعارف کراتے ہوئے بولے: میں ایسی جگہ ہوں جو آپ نے نہیں سنی ہوگی". ہمارے ضد کرنے پر اپنے اس اسٹیشن کو نامانوس جگہ کہتے ہوئے انہیں بتانا پڑا کہ وہ سندھ کے قصبے پٹارو میں ہیں. عرض کیا: "جناب، والد صاحب نے وہاں نیوی کے کیڈٹ کالج میں داخلے کے لیے ساتویں جماعت میں مجھ سے ٹیسٹ ڈلوایا تھا". بولے: "اوہ، اچھا، آپ کی بات اور ہے ویسے کسی کو پتا نہیں ہے"۔ اب طاہر نے پھلجھڑی چھوڑی: "شہزاد صاحب! وہی کیڈٹ کالج پٹارو جہاں سے صدر زرداری پڑھے ہوئے ہیں؟". سٹپٹا کر بولے: اچھا تو آپ کو اس وجہ سے پتا ہے ورنہ لوگوں کو پتا نہیں "ڈاکٹر الطاف شیخ مسکرا کر بولے: اپنے آبائی شہر جاتے وقت میں پٹارو سے گزرتا ہوں ".
نتیجہ نکالنے سے پہلے سکے کا دوسرا رخ دیکھ لیجئے۔ اپنا یہ خیال کبھی پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ افواج کے نظم و ضبط، رکھ رکھاؤ، اعلیٰ تربیتی نظام، ادارے سے بے پناہ لگاؤ، جونیئر پر شفقت اور سینیئر کے احترام کا صرف 10-20 فیصد ہی سول اور سیاسی اداروں میں آ جائے تو ہماری کایا پلٹ جائے. 45 امریکی صدور میں سے 31 مسلح افواج سے آئے تھے,11 جنرل اور 20 اعلیٰ کمیشنڈ آفیسر. یوں دو تہائی سے زیادہ امریکی صدر باقاعدہ فوجی رہے۔ برطانوی وزرائے اعظم کا حال بھی یہی کچھ ہے لیکن بات اس سے آگے کی ہے۔ ملکی معاملات میں برطانوی شاہی خاندان کا کردار بمنزلہ صفر ہے۔ لیکن حال یہ کہ شاہی افراد سیاسی وزرا ء ا عظم سے زیادہ جفا کش فوجی زندگی گزارتے ہیں۔ آج کے آٹھ شہزادے وہ ہیں جنہوں نے کٹھن فوجی ملازمت کے بعد عملی زندگی شروع کی۔ہیری "ناز و نعم میں پلا" وہ شہزادہ ہے جو حالیہ افغان جنگ میں بحیثیت پائلٹ جان ہتھیلی پر رکھ کر جنگ لڑتا رہا۔ اور تو اور شاہ چارلس رائل نیوی اور رائل ایئر فورس میں رہ چکے ہیں۔
چنانچہ دنیا کے سردار ممالک میں اگر افواج کا اتنا زیادہ عمل دخل ہے تو ہمارے ریاستی امور میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ بالکل ہو سکتا ہے بشرطیکہ ترتیب الٹ دی جائے۔ فوجی خوبیوں سے مزین اور فارغ ہو کر یہ لوگ مستقلاً سیاست میں داخل ہوں تو اسے دنیا بھر میں سراہا جاتا ہے۔ لیکن غیر فوجی ماحول سے مطلقا ناواقف فوجی ذہن اگر زرخیز سول اداروں میں فیصلہ ساز مناصب سنبھال لے تو نتیجہ پاکستان شپنگ کارپوریشن، نیشنل شپنگ کارپوریشن اور پی آئی اے کی صورت میں ظاہر ہو چکا ہے۔ نادرا اور موٹر وے پولیس دو نئے قابل فخر ادارے بنائے گئے۔ موٹر وے پولیس تو ابھی محفوظ ہے، نادرا کے کئی قابل ماہرین بددل ہو کر بہتر شرائط پر بین الاقوامی اداروں میں جا چکے ہیں۔
مسلح افواج کے لوگ ہمارے بھائی بیٹے ہیں، غیر ملکی نہیں۔ دہرا دیتا ہوں کہ افواج کے نظم و ضبط، رکھ رکھاؤ اور اعلیٰ تربیت، کا صرف 10- 20 فیصد امور سیاست میں آ جائے تو ہماری قسمت بدل جائے. لیکن مرحوم نواب زادہ نصر اللہ خان نے کہا تھا کہ ہماری فوج کی جو پیشہ ورانہ صلاحیتیں تقسیم کے وقت تھیں, سول میں رہ کر آج 90 کی دہائی میں وہ پولیس کے برابر رہ گئی ہیں۔ ایک جنرل نے مجھ سے کہا: "جناب، جونئیر فوجی افسر اپنے افسر اعلیٰ سے ڈٹ کر اختلاف کر سکتا ہے اور کرتا ہے۔ یہاں آرمی چیف بھی ڈویژن یا کور کے کام میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ لیکن سول میں متعین افسر واپسی پر خوشامد، بدعنوانی اور کام چوری ساتھ لا تے ہیں، لہذا افواج کا پیشہ ورانہ معیار روبہ انحطاط ہے"۔
نوابزادہ نصر اللہ خان اور جنرل صاحبان کی باتوں پر توجہ کیجیے۔ میرے بیان کردہ دونوں واقعات بھی ذہن میں رکھیے۔ فوج ہماری ہے تو سول ادارے بھی ہمارے ہی ہیں،اگر سول میں وہ ذہن بھیجا جائے گا جس کے خیال میں نقشہ صرف فوجی پڑھ سکتا ہے یا جس کے خیال میں پٹارو نام کے شہر سے سول میں کوئی واقف نہیں ہے تو جان لیجئے کہ پی آئی اے اور شپنگ کارپوریشن بلا وجہ تباہ نہیں ہوئے۔ لہذا ترتیب الٹ دیجئے۔حاضر سروس فوجی کا سول اداروں میں کوئی کام نہیں۔ امریکہ یورپ کی طرح ریٹائر ہو کر امور سیاست میں مستقل زندگی گزاریے, پہلے نہیں ورنہ آپ کی واپسی پر خود گھر کے چراغ سے فوج جھلسنا شروع ہو جائے گی۔