جب امیر پھپھو گھر آئے

خالہ کہاں تھیں آپ اتنے دنوں سے۔ ایسا نہیں کرنا چاہئے آپ کو، قسم سے ہم سب اداس ہوگئے تھے۔ خالہ کے گلے لگتے ہوئے بینا نے پیار بھرا شکوہ کیا۔ تم تو ایسے مل رہی ہو جیسے برسوں بعد آئی ہوں۔ بینا کی محبت پہ خالہ نہال ہوگئیں۔
آج بھی نہیں آتیں تو میں ذاکر کو بھیجنے والی تھی آپ کو لینے، آپ تو بھول ہی گئیں بہن کو۔ پورے تیرہ دن بعد آئی ہیں۔ امی کا بھی خالہ کے بغیر کہاں گذارہ ہوتا۔
دلہن چائے بنا لاؤ میرے اور خالہ کے لئے۔ امی بھابھی کو چائے کا کہہ کر کمرے میں چلی گئیں۔ آج ہم آپ کو نہیں جانے دیں گے۔ آج کیا پورا ایک ہفتہ نہیں جانے دینا۔ شام چار بجے خالہ گھر جانے لگیں تو سب نے زبردستی روک لیا۔ خالہ کے آنے پہ چھوٹے بڑے سب خوش ہوتے۔ خالہ تھیں ہی بہت محبت کرنے والی۔ ہاں میرا تو جیسے گھر بار ہی نہیں ہے۔ چلو آج رک جاتی ہوں لیکن صرف آج۔ کل کوئی ضد نہیں کرے گا سمجھ آئی۔ سب کی مان کے خالہ دوبارہ بیٹھ گئیں۔
امی گڈی پھپھو کی لاہور سے کال آئی ہے وہ رات آٹھ بجے تک آئیں گی۔ ہیں گڈی آرہی، کیوں آرہی، کون کون آرہا؟ بھابھی بتانے آئیں تو امی بھابھی کو وہیں چھوڑ کر حیرت کا اظہار کرتی کمرے سے باہر آگئیں۔ یقینا میرا رشتہ لینے آرہی ہوں گی، میں نے دل میں سوچا۔
مجھے لگتا اپنی بینا کا رشتہ مانگنے آرہی ہے، پیاری بھی تو بہت ہے میری بینا۔ میرے دل کی بات امی کی زبان پر تھی۔ دیکھا نہیں تھا شمو کی شادی میں دونوں ماں بیٹا کیسے قربان ہوئے جا رہے تھے۔ میں تو تب ہی سمجھ گئی تھی کہ بیٹا ماں کو مجبور کرے ہی کرے۔ ورنہ یہ تو سالوں شکل نہیں دکھاتی۔ اچھا خیر سے آئے تو مٹھائی کی ٹوکری دے کر بھیجوں گی۔ خود کلامی کرتے ہوئے امی اپنی طرف سے بات پکی کر بیٹھیں۔ امی یہ خالہ کو تو گھر بھیجیں کسی طریقے سے ان کا کیا کام بھلا اس وقت۔ تمھیں پتہ ہو تم نے ہی زبردستی روکا تھا گلے لگ لگ کے۔ مجھے خالہ پہ غصہ آنے لگا اور امی کو مجھ پہ۔ جا آذر کسی بہانے خالہ کو تو گھر بھیج۔ امی نے دوسرے کمرے میں با آواز بلند سرگوشی کی۔ جو تین مرلے کے گھر میں ہر جگہ باآسانی سنی جا سکتی تھی۔ لیکن خالہ بھی اپنے نام کی ڈھیٹ تھیں سن کر بھی انجان بنی رہیں، ایلفی کی طرح جمی رہیں۔
افف،افف اتنا گندا گھر اتنی جلدی کیسے صاف ہو گا۔ امی نے سارے گھر کو کام پہ لگا دیا گھر کی صفائیاں شروع ہوگئیں۔ مہینوں سے لٹکتے جالے اتارے گئے۔ پانی نہ ہونے کی وجہ سے فلٹر سے پانی منگوا کر پورا گھر دھویا۔ جلدی کرو دلہن پھر کھانا بھی بنانا ہے۔ اچھا بنانا، ان کے گھر تو خانساماں کھانا پکاتا۔ امی زردہ، بریانی اور چھوٹا گوشت بنالیں۔ اب اتنی امیر پھپھو ہیں مرغی تھوڑی کھاتی ہوں گی۔ ہائے بکرے کا گوشت پکاؤ گی، نصرت تیری مت تو نہیں ماری گئی۔ خالہ نے سنتے ہی مداخلت کی۔ مجھے بے حد غصہ آیا خالہ پہ۔ بھلا بیٹی کی سسرال کو کون مرغی کھلاتا۔ ویسے بھی پہلے پہلے تو چاؤ ہوتے شادی کے بعد کون آتا جاتا۔ میں نے دل میں سوچا اور خالہ سے کہا آپ تو چپ رہیں یہ ہمارے گھر کا معاملہ ہے۔
جا پپو کمیٹی والی خالہ صغریٰ سے ادھار پیسے لے کے آ۔ بول امی کہتی بڑی سخت ضرورت آن پڑی، ابو کی تنخواہ ملتے ہی واپس کردوں گی۔ بہو وہ جو تیرا بھائی اس دن تمھیں دو ہزار دے کے گیا تھا وہ تو لاکے دے مجھے۔ بھابھی غصے سے بھائی کا منہ دیکھنے لگی۔ آذر کی طرف کیا دیکھتی ہو میں نے مانگے ہیں۔ مرے کیوں جارہی، گڈی جاتے ہوئے جو پیسے بینا کو دے کے جائے گی ان میں سے دے دوں گی۔ جا شاباش جلدی کر ٹیم تھوڑا ہے۔ اور ہاں اپنے بچوں کو سمجھا لینا۔ انھوں نے کوئی چیز اٹھائی میز سے آکے تو یہ رکھ کے چمانٹ ماروں گی۔ امی نے چنٹو منٹو کو دیکھتے ہوئے آنکھیں اور ہاتھ ایک ساتھ دکھائے۔
میں پلاسٹک کے ٹوٹے سٹول جس کے ٹوٹے حصے پہ گدی رکھ کے چٹکی کاٹنے سے بچایا گیا تھا پر بیٹھ کے چہرے کے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھوں اور پیروں پہ ہلدی ملا بیسن ملنے لگی۔ پورے گھر میں ہڑبونگ مچی تھی۔ سدا کی سست بھابھی کی بھی دوڑیں لگ گئیں۔ آذر جلدی سے مجھے گوشت وغیرہ لا دیں میں پکا لوں وہ نہ ہو گیس چلی جائے۔ اچھا پکا کے کھلاؤں گی تو یہ بلا ٹلے گی سر سے۔ منہ پہ بیسن ملتے ہوئے بھابھی کی بات سن تو لی لیکن جواب نہیں دیا۔ کچھ بول کر بد شگونی نہیں کرناچاہتی تھی۔
ہماری تو کبھی ایسی آؤ بھگت نہ کی۔ اتنی دور سے پیدل چل کر آتی ہوں تم لوگوں کی محبت میں۔ لیکن تمھیں تو کبھی ٹھنڈا پانی نصیب نہ ہوا میرے لیئے۔ حالانکہ میں تو اپنے موسیٰ کے لیئے بینا کا رشتہ بھی مانگ رہی۔ مجھے تو کبھی اس طرح پروٹوکول نہ دیا تم نے۔ نند کے آنے پہ تو باؤلی ہوگئی ہو۔ خالہ یہ دکھڑے رونے کا وقت نہیں ہے۔ کہنا تو بہت کچھ چاہ رہی تھی لیکن پھر وہی بات بد شگونی نہ ہوجائے اس لئے صرف اتنا کہہ کر تیار ہونے چلی گئی۔ اپنا سب سے پیارا جوڑا پہنوں گی۔
پھپھو اپنے ڈرائیور کے ساتھ آئی تھیں جس نے دو کلو مٹھائی کا ڈبہ گاڑی سے نکالا تو سب الرٹ ہوگئے۔ میرا دل تو لڈیاں ڈالنے لگا کہاں خالہ کا فیکٹری میں کام کرنے والا موسیٰ اور کہاں فیکٹری کا مالک ارحم بھائی۔ نہیں اب اسے بھائی تو نہیں کہنا۔ میں دل ہی دل میں خود کو ڈانٹا۔ سب پھپھو کے آگے بچھے جارہے تھے۔ دھلے ہوئے گلاسوں کو پھر سے دوپٹے سے صاف کر کے بوتل ڈالی۔ امی پھپھو کی پلیٹ میں بوٹیاں ڈال رہی تھیں۔بھابھی اتنا نہیں کھاتی میں۔ پھپھونے بوٹیاں واپس ڈونگے میں ڈالتے ہوئے کہا۔ اکیلے کیوں آئی ہو بھائی صاحب کو بھی لے آتی۔ وہ تو ملک سے باہر گئے ہیں ان کی میٹنگز تھیں۔ آئی ہو تو اب میں جانے نہیں دوں گی رکھوں گی اپنے پاس۔ امی نے لگاوٹ سے کہا۔ رہنا کیا، جتنے بھی ملازم ہوں گھر کا نظام تو نہیں چلتا میرے بغیر۔ میں تو بھائی کو مبارک دینے آئی ہوں ان کے بھانجے کا رشتہ جو طے کر دیا۔ اب بھائی کو مٹھائی دینے تو خود ہی آنا تھا۔ اگلے مہینے شادی ہے اور آپ سب نے ہفتہ پہلے آنا ہے۔ یہ سنتے ہی سب کے ارمانوں پہ اوس گر گئی۔ بھابھی کے جہیز کی پلیٹ جس میں چاول ڈالے ہوئے تھے میرے ہاتھ سے گر کے ٹوٹ چکی تھی۔ بھابھی نے مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔ ابو خوش دلی سے مبارک دے رہے تھے جبکہ امی اٹھ کر باہر آگئی۔ اتنی دور سے یہ بتانے آئی ہے فون پر نہیں بتا سکتی تھی۔ اتنا خرچہ کروادیا ہمارا، ہے ہی سدا کی ایسی گھنی مطلبی۔ جب تک رہی اس گھر میں جینا حرام کیئے رکھا میرا اس نے۔ چار پیسے کیا آئے منہ ہی سیدھا نہیں ہوتا۔ پھپھو نہ سن لیں اس سے بے نیاز امی خالہ کے سامنے دل کی بھڑاس نکال رہی تھیں۔