2نومبر کو کیا ہوگا؟

2نومبر کو کیا ہوگا؟
 2نومبر کو کیا ہوگا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


2نومبر کو احتجاج ضرور ہوگا، تحریک انصاف کے حامی اسلام آباد ضرور پہنچیں گے اور دھرنا دینے کی کوشش بھی کریں گے ، اس دوران انہیں جہاں روکا جائے گا و ہیں دھرنا ہوگا ۔ عمران خان اگر واقعی دس لاکھ افراد اسلام آباد جمع کرنے میں کامیاب ہو گئے تو 2نومبر بلاشبہ ان کی سیاسی جدوجہد میں 30اکتوبر 2011ء جیسا ہی شاندار دن ہوگااورحکومت کو پانامہ بل کو من و عن قبول کرنا ہوگا۔ اس سیاسی صورت حال کا شیخ رشید اور علامہ طاہرالقادری کو بھی بھرپور فائدہ ہوگا ۔ بنیادی فرق یہ ہے کہ 2014ء کے برعکس 2016ء میں میڈیا کا ایک بڑا حصہ آزاد اور خودمختار کوریج کر رہا ہے اور کسی صورت بھی دس ہزار افراد کو دس لاکھ افراد بنا کر پیش نہیں کرے گا ۔ محض پچاس ساٹھ ہزار لوگ اسلام آباد میں جمع کرکے عمران خان کامیابی کا سرٹیفکیٹ نہیں لے سکیں گے ۔ اگر عمران خان واقعی لاکھوں کا مجمع دکھا گئے تو وہ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں اپنے آپ کو وزیر اعظم نوا ز شریف کا متبادل ڈکلیئر کروالیں گے اور یوں پیپلز پارٹی کا سفر مزید کھوٹا ہو جائے گا۔ بلاشبہ کسی بھی سیاسی قائدکی زندگی میں ایسے مواقع کم کم آتے ہیں ، چنانچہ عمران خان کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ ان سے قبل شیخ رشید اپنے دعوے کے مطابق 28اکتوبر کولال حویلی میں جلسہ نہیں کر سکے اور وہ ایک مرتبہ پھر قومی سطح کے لیڈر بننے سے رہ گئے ہیں ۔ پنڈی والوں نے ان کی آواز پر کان نہیں دھرے ا ورشیخ رشید عوامی لیڈر کی بجائے محض سیاسی لیڈر کے طور پر ہی نظر آئے ہیں، ان سے قبل پرویز الٰہی اور طاہرا لقادری کا بھی یہی حال ہو چکا ہے ۔ اسی تناظر میں 2نومبر کا دن اب عمران خان کے لئے ایک بڑا امتحان ہے، اس دن عمران خان دوبارہ ایک بڑے عوامی لیڈر کے طور پر اپنا آپ منوا سکتے ہیں ۔ تبھی تو یہ دن ان کی سیاست میں زندگی اور موت کا دن ہے !


اس خطرے کو بھانپتے ہوئے پیپلز پارٹی کی جانب سے دباؤ بڑھ رہا ہے کہ عمران خان بلاول بھٹو کا راستہ چھوڑیں اور حکومت کے خلاف انہیں تحریک چلانے کا موقع فراہم کریں ۔رائے ونڈ جلسے تک عمومی تاثر یہ تھا اس کے بعد عمران خان آرام سے بیٹھ جائیں گے اور بلاول بھٹو کو سیاسی تماشہ لگانے کا موقع دیں گے لیکن میڈیا کی جانب سے کامیابی کا سرٹیفکیٹ ملتے ہی عمران خان شیر ہو گئے ہیں اور اپنی سیاسی زندگی کا بہت بڑا جوا کھیلنے جا رہے ہیں ، 2نومبر ان کا سوئمبر ثابت ہو سکتاہے۔اگر عمران خان کا دھرنا طوالت اختیار کرگیا تو پیپلز پارٹی بھی حکومت کے خلاف اپنا کنٹینر اسلام آباد لے جاکر اپنے پانامہ بل کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کر سکتی ہے! 2نومبر سے قبل عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوکر ایک واضح موقف دینا ہوگا کہ ان کے اصل عزائم کیا ہیں۔ یقینی طور پر عدالت عالیہ کے سامنے کرائی جانے والی یقین دہانی ان پر ایک بہت بڑی اخلاقی اور قانونی قدغن ثابت ہوگی اور ان کے کارکنوں کو مایوسی کا دورہ بھی پڑ سکتا ہے کیونکہ عمران خان عدالت عالیہ میں وہ بڑھکیں نہیں لگا سکیں گے جو ٹی وی کیمروں کے سامنے لگاتے رہتے ہیں اور جھوٹ موٹ کا عوامی تاثر قائم کئے ہوئے ہیں کہ وہ قوم کو کرپشن سے نجات دلا سکتے ہیں۔ انہیں عدالت میں یہ یقین دہانی بھی کرانا پڑے گی کہ وہ لاک ڈاؤن کرتے ہوئے سرکاری دفاتر پر قبضہ نہیں کریں گے اور اپنے احتجاج کومحض ایک تقریر سے آگے نہیں جانے دیں گے ۔ ایسی کوئی بھی یقین دہانی تحریک انصاف کے حامیوں کے لئے سوہان روح ہوگی جو پہلے ہی گزشتہ دنوں کے حکومتی اقدامات کی وجہ سے دل کھٹا کئے ہوئے ہیں اور ان میں انقلاب کی حدت کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ چنانچہ 2نومبر سے قبل عدالت عالیہ میں عمران خان کی پیشی ان کے لئے ایک بڑا چیلنج ہوگی ، اس مرحلے پر انہیں جس قدر پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے وہ شائد ہی کسی اور مرحلے پر ہو۔


عوام کا خیال ہے کہ 2014ء کی طرح عمران خان اس مرتبہ بھی لمبے عرصے کے لئے اسلا م آباد کے ڈی چوک میں بیٹھے رہیں گے ، 27 اکتوبر تک لگ بھی رہا تھا لیکن پھر اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے آنے والے ایک فیصلے نے صورت حال کو یکسر تبدیل کردیا جس میں کہا گیاکہ تحریک انصاف اسلام آباد کسی ایک مقام پر جلسہ کرے گی اور حکومت کنٹینروں سے شہر بند نہیں کرے گی ۔ اس فیصلے نے عمران خان کو جھنجھلا کر رکھ دیا اور پریس کانفرنس میں انہوں نے سخت زبان استعمال کرتے ہوئے کڑی تنقید کی تواس کی آڑ میں حکومت نے بنی گالہ پر چڑھائی کردی ۔ دوسری جانب شیخ رشید کی جانب سے دفعہ 144کے 144ٹکڑے کرنے کی بڑھک نے بھی الٹا اثر دکھایا اور راولپنڈی اس وقت ان کی حمائت میں باہر نہیں نکلا جب حکومت لال حویلی کی اینٹیں گن رہی تھی ۔ ان خیالات میں عمران خان کو 2نومبر کا احتجاج غیر ضروری حد تک متاثر کن بنانا ہوگا تاکہ وہ دنیا کوباور کراسکیں کہ ان کے پاس وہ مطلوبہ عوامی قوت موجود ہے جس کی مدد سے وہ کسی بھی وقت حکومتی ایوانوں میں ہلچل مچا سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے حلقوں کاکہنا ہے کہ انہوں نے اپنی عوامی طاقت کو 2نومبر کیلئے چھپا رکھا ہے اور سونامی اپنے وقت پر آئے گی ۔اگر ایسا ہے تو انہیں طاہرالقادری یا حافظ سعید اور مولانا سمیع الحق کے لوگوں کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے،لیکن عمران خان کے حامی حلقے یہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ طاہرالقادری اپنے مریدوں کی موجودگی کو یقینی بنا کر عمران خان کا شو کامیاب بنائیں گے جس کا ایک مطلب یہ ہے کہ عمران خان کی عوامی حمائت بھی فرزند راولپنڈی کی طرح سینکڑوں میں ہی ہے ، ہزاروں یا لاکھوں میں نہیں ہے!


دوسری جانب اگر عمران خان ایک بھرپور اجتماع نہ دکھا سکے تو پی ٹی آئی کو دیر تک اس زخم کو چاٹنا ہوگا جو وہ خود اپنے ہاتھ سے خود پر لگانے جا رہی ہے۔ حکومت کی کوشش یہی ہے کہ عمران خان عوامی طاقت کا مظاہرہ نہ کر سکیں، پیپلز پارٹی ، مولانا فضل الرحمٰن، اسفند یار ولی، جماعت اسلامی اور دیگر سیاسی و علاقائی جماعتیں بھی اس حق میں نہیں ہیں۔ ان کے بیانات آرہے ہیں کہ انہیں عمران خان کے طرز سیاست سے اختلاف ہے ، اس اختلافی ماحول میں عمران خان کے لئے مشکل ہوگاکہ وہ عوام کی بڑی تعداد کومتاثر کرسکیں۔ خاص طور پر جب ان کی جانب سے 27اکتوبر کے حکومتی اقدام کے خلاف ملک بھر میں اجتماعی مظاہروں کی دھمکی دی گئی تو ایسا لگاجیسے اگلے ایک گھنٹے میں پورا پاکستان جام ہو جائے گا، ہر طرف ہنگامے شروع ہو جائیں گے اور ہر سڑک پر گوریلا کاروائیاں ہو رہی ہوں گی لیکن عوام کی بڑی تعداد نے اب تک عمران خان اور شیخ رشید کی کال کو’’جواب ‘‘دے کر اس بات کا اظہار کیا ہے کہ وہ ان کی طرز سیاست سے نالاں ہے۔ اگر اس لاتعلقی کا سلسلہ دراز کرکے جائزہ لیا جائے تو ممکن ہے کہ عوام کا جم غفیر اسلام آباد نہ آئے ۔ ایسی صورت حال عمران خان کی سیاست کے لئے بڑا دھچکا ہوگی ۔


2نومبر کی ناکامی کا اندیشہ اس لئے بھی ہے کہ اپوزیشن کی کوئی اور جماعت پی ٹی آئی کے ساتھ نہیں کھڑی ہے ، اس لئے جب عمران خان یا شیخ رشید جلاؤ، گھیراؤ کی بات کرتے ہیں تو حکومت کے ساتھ ساتھ دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی جمہوریت کی لٹھ لے کر ان کے پیچھے پڑ جاتی ہیں کہ وہ ملک میں آمریت کو دعوت دینے جا رہے ہیں۔ چنانچہ عمران خان کا مقابلہ خالی حکومت سے نہیں بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی ہے اور اگر اس بار بھی علامہ طاہرالقادری اور دیگر کالعدم تنظیموں کے سوا عمران خان کے ساتھ نہیں ہے تو 2014ء کی طرح اس بار بھی نتیجہ وہی ہوگا، جو ان دنوں تھا۔
یہ صورت حال ملک کی مجموعی سیاسی صورت حال کو آشکار کرتی بھی نظر آتی ہے۔ اس وقت حکومت کے خلاف اپوزیشن کی جماعتیں اس لئے اکٹھی نہیں ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے وجود اور حیثیت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ خاص طورپر پیپلز پارٹی اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی حقیقت بن چکی ہے بلکہ وہ چاہتی ہے کہ عمران خان عوام کو اکٹھا کرکے بلاول بھٹو کی قیادت میں کھڑے ہو جائیں، پی ٹی آئی کو ایسی کوئی بھی صورت قابل قبول نہیں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں اپوزیشن ہی اپوزیشن سے لڑرہی ہے اور حکومت سے بھی، جبکہ حکومت پی ٹی آئی سے تو لڑ رہی ہے لیکن پیپلز پارٹی کی طرف اتنا سخت رویہ نہیں ہے ، جتنا ہونا چاہئے۔ عمران خان اور ان کے پیچھے کارفرما قوتیں اس کا فائدہ اٹھا کر عوام کو باور کرانا چاہتی ہیں کہ حکومت اور پیپلز پارٹی کرپشن گٹھ جوڑ کی وجہ سے نورا کشتی کر رہی ہیں اور عوام کی اکثریت اس بات کو تسلیم بھی کر رہی ہے ۔ لیکن یہ بات یہیں تک اہم ہے کیونکہ ابھی تک پیپلز پارٹی کا جیالاگومگو کی کیفیت سے دوچار ہے اور سیاسی طور پر غیر متحرک ہے جبکہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کا حال اس خاتون کی طرح ہے جو اس وقت تک کامیاب طریقے سے ڈرائیو کرتی ہے جب تک گاڑی چلتی رہتی ہے ، جونہی گاڑی خراب ہوتی ہے وہ بیچ سڑک روک کر کھڑی ہو جاتی ہے اور شوہر کو فون کرنے کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ یعنی پی ٹی آئی بحیثیت جماعت ایک صورت حال تو بناتی ہے لیکن جونہی وہ کشیدگی اختیار کرتی ہے تو اس کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں اور پی ٹی آئی پس پردہ قوتوں کی طرف دیکھنا شروع کردیتی ہے کہ وہ آکر ان کی مدد کریں جو عملی سیاست میں ہردفعہ ممکن نہیں ہوتا!


دوسری جانب پی ٹی آئی کا دماغ ان نیم حکیم صحافیوں نے بھی خراب کیا ہوا ہے جو فزیشن ہوتے ہوئے سرجن کا کام کرتے دکھائی دے رہے ہیں، ان صحافتی جغادریوں نے ہر سیاسی صورت حال پر وہ جو تجزیے اختراع کئے ہوئے ہیں کہ وہ عدالت میں جاتے ہی بودے دکھائی دینے لگتے ہیں اور قانون کی کتاب سے ان کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ایک پانامہ پیپرز کوہی لے لیجئے ، اخباری اور ٹی وی بیانات کی بنا پر شریف فیملی کو جو جو سزائیں ہمارے نیم حکیم صحافی دلوا چکے ہیں ان کے کل دلائل جمع کرکے جب نعیم بخاری نے عدالت میں جمع کروائے تو رجسٹرار سپریم کورٹ نے Frivilousلکھ کر مسترد کردیئے۔ چونکہ عوام کی اکثریت کی عدالتی کاروائیوں تک رسائی ہوتی ہے، نہ اس سے خاص لینا دینا ہوتا ہے جب تک کہ انہیں کوئی قانونی مشکل پیش نہ آجائے اس لئے عوام کی اکثریت نے پانامہ پیپرز کی تحقیقات کے حوالے سے وہی صحافتی رائے اپنائی ہوئی ہے جو عمران خان اپنے جلسوں میں سکرین پر پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ چنانچہ 2نومبر کے بعد اگر عمران خان اپنا دھرنا سجا کر بیٹھ بھی جائیں اور یہ سمجھیں کہ اس سے عدالت پر پریشر ڈال کر جلد فیصلہ لے لیں گے تو بظاہر تو یہ بات اتنی ہی پریکٹیکل لگتی ہے جتنی عدالتی زبان میں نان پریکیٹیکل ہے کیونکہ سپریم کورٹ کسی صورت بھی انوسٹی گیشن ایجنسی کا کردار ادا نہیں کر سکتی اور محض اخبار ی اور ٹی وی بیانات کی بنا پر کوئی فیصلہ نہیں سنا سکتی ہے ۔ اس لئے 2نومبر کو جو مجمع اکٹھا ہوگا وہ عدالت عظمیٰ سے جو توقع باندھے گا اس توقع کی رسی سے ہی کچھ عرصے بعد جھول جائے گا بشرطیکہ اس دوران غیر مرئی قوتیں حالات کو خراب کرنے کے لئے گولی نہ چلادیں !

مزید :

کالم -