مال و دنیا اور دل
’’جناب! جب گھر میں نت نیا سامان آتا ہے تو اس سے بہت خوشی ہوتی ہے۔ کیا یہ دنیا کی محبت کی علامت ہے ؟‘‘، اس پہلے سوال کی گونج ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ حاضرین میں سے ایک صاحب نے دوسرا سوال کرڈالا۔ ’’کیا مال جمع کرنا کوئی بری بات ہے۔ عام لوگوں کو تو شاید اس سے فرق نہیں پڑتا لیکن ہم لوگ جو آخرت کو مقصد بنا کر جیتے ہیں ، ان کا دل اس احساس سے کچھ بوجھل رہتا ہے ، مگر کیا کیجیے کہ مستقبل کی ضروریات کے لیے کچھ پس انداز کرنا بھی مجبوری ہے۔‘‘
یہ دو سوال دو افراد نے کیے تھے ، مگر یہ مسئلہ ہر شخص کا تھا۔ اس لیے ہر سماعت عارف کا بصیرت افروز جواب سننے کی منتظر تھی۔ دیر تک جواب نہ آیا۔ جب خاموشی کا بوجھ کانوں میں گرانی پیدا کرنے لگا تو عارف نے سر اٹھا کر خود ایک سوال کر دیا۔
’’کشتی کس لیے بنائی جاتی ہے ؟‘‘، پہلے سائل نے جواب دیا۔ ’’پانی میں سفر کرنے کے لیے۔‘‘، ’’اور اگر پانی کشتی میں آجائے تو۔۔۔ ؟‘‘۔ عارف نے دوسرا سوال کیا تو فوراً جواب آیا: ’’کشتی ڈوب جائے گی۔‘‘
’’بس یہی تمثیل مؤمن اور مال و دنیا کا صحیح تعلق بیان کرتی ہے۔ مال و دنیا سے متعلق ہزار سوال پیدا ہو سکتے ہیں ، مگر یہ تمثیل یاد رہے تو ہر سوال کا جواب خود مل جاتا ہے۔ مؤمن کا وجود کشتی کی طرح ہوتا ہے۔ اسے ترک دنیا کی اجازت نہیں۔ اسے دنیا میں جینا ہے کہ یہی امتحان ہے مگر مال کے بغیر جیا نہیں جا سکتا۔ جیسے کشتی پانی کے بغیر نہیں چل سکتی۔ کشتی کے ہر طرف پانی ہوتا ہے ، مگر اس کے اندر نہیں ہوتا۔ ہونا بھی نہیں چاہیے۔ اسی طرح مؤمن کے ہر طرف دنیا ہوتی ہے۔ مگر اس کے دل میں نہیں ہوتی۔ چیزیں اس کے گھر میں آتی ہیں ، دل میں نہیں۔ مال بینک اسٹیٹمنٹ میں نظر آتا ہے ، دل کے بینک میں صرف آخرت کا حساب ہورہا ہوتا ہے۔ اگر یہ ہے تو بہت دولت بھی نقصان نہیں پہنچاتی۔ یہ نہیں تو بہت کم دولت بھی انسان کو سانپ کی
طرح ڈس لیتی ہے۔‘‘
یہ بلاگرز کا ذاتی نقطہ نظرہے جس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔