اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 45

حکماء اور طبیب ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے مگر ملکہ کے جسم سے زہر خارج نہ کر سکے تھے اور اس کا نچلا دھڑ بدستور بے حس تھا۔ اب وقت آگیا تھاکہ میں میدان میں کود پڑوں۔ چنانچہ نے مجھے سبز رنگ کا چھوٹا سا سانپ کا ایک مہرہ نکال کر دیا اور کہا۔
’’ یہ میر ااپنا مہرہ ہے۔ اس کو جب تم ملکہ کے جسم پر زخم کے نشان کے قریب لے جاؤ گے تو یہ اڑکر خود بخود زخم کے ساتھ جا کر چپک جائے گا اور اس کے جسم کا سارا زہر چوس لے گا لیکن اس مہرے کو جیب سے نکلانے سے پہلے تمہیں بادشاہ سے جو شرط منوانی ہوگی اس کو تم پوری طرح جانتے ہو۔‘‘
میں نے کہا’’ اس شرط کیلئے تو ہم نے یہ سارا بکھیڑا شروع کیا تھا۔ میرے دوست ! میں جانتا ہوں اور خدا نے چاہا تو کامیاب لوٹوں گا۔‘‘
اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 44 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں اپنا سفرنامہ قلمبند کرتے ہوئے ہر بار خد اکا ذکر کرتا ہوں۔ آپ ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ آج سے ساڑھے چار ہزار برس پہلے میرے ذہن میں خدا کا تصور کیسے آگیا۔ جب کہ وہ بت پرستی کا اور مظاہر قدرت کی پوجا کا عہد تھا تو میں وضاحت کر دینا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ مجھ پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے افکار و عقائد کا گہرا اثر ہوا تھا۔ میں بھی پہلے مظاہر قدرت کی پرستش کرتا تھا اور خود ہمارے محل میں میرے چچا فرعون مصر اور شاہی خاندان کے تمام افراد سورج ، بلی ، سانپ اور دوسرے دیوتاؤں کی پوجا کرتے تھے۔ لیکن ارشہر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تمام مظاہر قدرت کی پرستش چھوڑ کر ایک خدا کی تبلیغ فرمائی اور بیت المقدس کی بنیاد رکھی تو مجھ پر ان کی تبلیغ اور دین کا گہرا اثر ہوا اور میں نے تمام بتوں اور مظاہر کی پرستش چھوڑ دی اور توحید پرست ہوگیا۔ پھر خلفائے عباسیہ کے دور میں جب مجھ پر قرآن کی الہامی حکمت کا انکشاف ہوا تو میں نے بغداد کی ایک مسجد میں اسلام قبول کرلیا۔ اپنی زندگی کے اس خوش آئند انقلاب کے واقعے کو میں آگے چل کر بیان کروں گا جب میں عباسی خلفائے عہد میں داخل ہوں گا۔
ابھی میں یہ لکھ رہاہوں کہ میں نے قنطور کے ساتھ مل کر اپنا حلیہ ایک حکیم جیسا بنا لیا۔ لمبی عباپہنی، بغل میں جڑی بوٹیوں کا تھیلا لٹکایا اور گھوڑے پرسوار ہو کر شاہ بابل کے محل کی طرف روانہ ہوگیا۔ جڑی بوٹیوں کا علم مجھے اپنے والد صاحب کی طر سے ورثے میں ملا تھا اور میں ان کے خواص اور تاثیر سے خوب واقف تھا مگر یہاں قنطور کے سانپ والے مہرے کو اپنی کرامت دکھانی تھی جو میری جیب میں پڑا تھا۔ میں صبح کے وقت قنطور سے الگ ہو کر اپنے گاؤں سے نکلا تھا اور دوپہر کے وقت بابل پہنچا۔ میں سیدھا شاہی محل کی طرف آگیا جہاں معلق باغات پر ایک اداسی چھائی ہوئی تھی۔ محل کے دروازے پر پہرہ لگا تھا۔ میں گھوڑی سے اتر آیا۔ تین حبشی دربان تلواریں سونتے میری طرف بڑھے۔ انہوں نے مجھے سے پوچھا کہ میں کوں ہوں اور کس غرض سے وہاں آیا ہوں۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں ملک مصر کا ایک طبیب ہوں۔ ملک عالیہ کی بیماری کا سن کر اس کا علاج کرنے کی غرض سے یہاں آیا ہوں۔ بادشاہ سلامت کو اطلاع پہنچا دی جائے۔ اسی وقت بادشاہ کو خبر دی گئی کہ فرعونوں کے مصر سے ایک طبیب آیا ہے اور ملکہ کا علاج کرکے انہیں صحت یاب کرنے کا دعویٰ دار ہے۔
بادشاہ بخت نصر نے فوراً مجھے بلوالیا۔ مجھے ملکہ نوبیہ کی خواب گاہ میں پہنچا دیا گیا۔ میں نے دیکھا کہ بادشاہ ایک منقش کرسی پر سرجھاکئے اداس بیٹھا ہے۔ آس پاس کچھ وزیر اور امیر ادب سے کھڑے ہیں۔ سامنے طاؤسی پلنگ پر ملکہ نوبیہ بے ہوش پڑی ہے۔ اس کا رنگ زرد ہے اور چہرہ اترا ہوا ہے۔ آنکھوں میں سبز حلقے پڑ چکے ہیں۔ شاہی حکیم ملکہ کے پلنگ کی پٹی کے پاس بیٹھا طب کی ایک قدیم کتاب کا مطالعہ کر رہا ہے۔ ذرا فاصلے پر ایک غلام کھرل میں آہستہ آہستہ کوئی بوٹی پیس رہا ہے۔ پلنگ کے سرہانے نجور سلگ رہے ہیں۔ بادشاہ نے ایک نگاہ بے نیازی سے مجھے دیکھا اور ایک خالی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اس کا انداز صاف طور پر اس بات کی غمازی کر رہا تھا کہ میری نوجوان شکل و صورت دیکھ کر اسے مایوس ہوئی ہے اور اسے یقین نہیں آیا کہ جہاں اتنے لائق اور تجربہ کار حکیم اور طبیب علاج کر کے نامید ہوچکے ہیں۔ وہاں میں کیا کر سکوں گا۔ میں کرسی پر بیٹھ گیا۔ شاہی حکیم کی نگاہیں ابھی تک طب کی کتاب پر لگی تھیں۔ اس نے مجھے اہمیت نہیں دی تھی۔ وہ سب لوگ یہی سمجھ رہے تھے کہ میں ایک ناتجربہ کار نوجوان حکیم ہوں اور محض دولت کے لالچ کی غرض سے وہاں آگیا ہوں۔ بادشاہ نے میری طرف دیکھ کر کہا۔ ’’ تم کون ہو؟‘‘
میں نے بڑے ادب سے کہا۔ ’’ میں ملک مصر کا رہنے والا ہوں اور ملکہ عالیہ کی علالت کی خبر سن کر ان کا علاج کرنے آیا ہوں۔‘‘
بادشاہ نے کہا۔ ’’ ہماری ملکہ کو پر اسرار سانپ نے ڈس لیا ہے جس کے زہرنے اسے زندہ درگور کر دیا ہے۔ وہ بے ہوش ہے اور اس کا نچلا دھڑسن ہوچکا ہے۔ ملکہ کے بڑے بڑے طبیب مریض مایوس ہو چکے ہیں تم کیسے علاج کرو گے؟ تم ابھی نوجوان ہو۔‘‘
میں نے کہا۔ ’’ بادشاہ سلامت ! میں ملکہ عالیہ کی بیماری سے پوری طرح باخبر ہوں اور مجھے یقین ہے کہ ان کا نہ صرف کر سکوں گا بلکہ انہیں ابھی ایک پل میں صحت مند کر دوں گا مگر میری ایک شرط ہے۔‘‘
اس پر سب میری طرف تکنے لگے۔ شاہی حکیم نے بھی کتاب پر سے نظریں ہٹا کر میری طرف گھور کر دیکھا۔ بادشاہ نے اپنی نظریں میرے چہرے پر گاڑ دیں اور پوچھا کہ میری شرط کیا ہے ؟ میں نے بادشاہ کو بتایا کہ میری شرط یہ ہے کہ شاہی مشیر خاص کشان کی جان بخشی کی جائے اور اسے شاہی قید خانے سے نکال کر اس کے گھر پہنچا دیا جائے اور اس نے تانبے کا جو بیل ایجاد کیا ہے اسے تباہ کر دیا جائے۔ اگر میری یہ شرط حضور تسلیم کرتے ہیں تو میں ابھی ملکہ عالیہ کو صحت مند کئے دیتا ہوں۔‘‘ خواب گاہ میں ایک گہرا سناٹا چھا گیا۔
شاہی حکیم نے کتاب بند کر دی اور مجھ سے پوچھا کہ میں کس دوائی سے ملکہ عالی کا علاج کروں گا؟ میں نے کہا کہ میں یہ کسی کو نہیں بتا سکتا۔ بہرحال اگر میں ملکہ کو صحت مند نہ کر سکا تو بے شکل میری گردن مار دی جائے۔ یہ اس قدر جرات مندانہ پیش کش تھی کہ بادشاہ بخت نصر پر اس کا گہرا اثر ہوا۔ اس نے ہاتھ اٹھا کر جلدی سے کہا۔
’’ میں تمہاری دونوں شرطیں تسلیم کرتا ہوں۔ میں ابھی مشیر خاص کی رہائی اور تانبے کے بیل کو تباہ کرنے کا حکم صادر کرتا ہوں۔ یہ ہماری ملکہ کا علاج شروع کرو۔ اگر تم چاہو تو ہم تمہیں اس فرمان کو تحریری طور پر بھی لکھ کر دے سکتے ہیں۔‘‘
میں نے کہا۔ ’’ اس کی ضرورت نہیں ہے بادشاہ سلامت ! مجھے آپ کے قول پر پورا پورا بھروسہ ہے۔ میں جانتا ہوں آپ ایک عظیم بادشاہ ہیں اور اپنے قول سے کبھی نہیں پھریں گے۔ ‘‘
بادشاہ نے فرمائش کی کہ ملکہ کا علاج شروع کیا جائے۔ سب کی نگاہیں مجھ پر لگی تھیں۔ شاہی حکیم تو ٹکٹکی باندھے میری ایک ایک حرکت کا جائزہ لے رہا تھا۔ میں نے گزارش کی کہ ملکہ عالیہ کے جسم کو وہ حصہ سامنے کر دیا جائے جہاں سانپ کے کاٹنے کا زخم ہے۔ دو کنیزوں نے آگے بڑھ کر اسی وقت بے ہوش ملکہ عالیہ کے جسم کے اس حصے پر سے لباس کھسکا دیا۔ جہاں میرے دوست قنطور نے سانپ بن کر کاٹا تھا۔ یہاں قرمزی رنگ کے دو نشان پڑے ہوئے تھے جن پر آبلے بن گئے تھے۔ میں نے جیب سے سانپ کا سبز مہرہ نکالا تو شاہی حکیم کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی اور وہ بولا۔
’’ بادشاہ سلامت یہ نوجوان ہم سے مذاق کرنے کا گستاخانہ ارادہ لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا ہے۔ یہ سانپ کا مہرہ ہے اور اس سے پہلے ہم ایک سو ایک سانپ کے مہرے آزما چکے ہیں۔ کسی بڑے سے بڑے اور کارگر سے کارگر مہرے نے بھی ملکہ عالیہ کے جسم میں پھیلے ہوئے زہر کو نہیں چوسا۔ ‘‘
بادشاہ نے استفسار طلب نظروں سے میری طرف دیکھا۔ قنطور کا مہرہ میرے ہاتھ میں تھا۔ میں ادب سے تعظیم کی بادشاہ سے کہا۔
’’ شاہ عالی مقام ! اگر میری علاج کے راستے میں رکاوٹ ڈالی گئی تو میں اپنے علاج میں کامیاب نہ ہوسکوں گا۔ اس لئے شاہی حکیم کو ہدایت فرمائی جائے کہ وہ میرے طریقہ علاج میں دخل اندازی سے گریز کریں‘‘
بادشاہ نے ہاتھ کے اشارے سے شاہی حکیم کو خاموش رہنے کا حکم دیا اور میری طرف دیکھ کر کہا۔ ’’ کیا تمہیں یقین ہے کہ یہ مہرہ ہماری ملکہ کے جسم سے خطرناک سانپ کا زہر چوس لے گا؟‘‘
میں نے ادب سے جواب دیا۔ ’’ شاہ عالی مقام! اس کا جواب میرا یہ مہرہ دے گا۔‘‘
ایک گہری خاموشی چھا گئی۔ میں نے سانپ کا مہرہ اپنی ہتھیلی پر رکھ لیا اور ہتھیلی کا رخ ملکہ نوبیہ کے جسم کے عریاں حصے کی طرف کر دیا۔ میرا اپنا دل بھی اس وقت بری طرح دھڑک رہا تھا اور میں خدا سے دعا کر رہا تھا کہ میری لاج رکھ لینا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کم بخت قنطور کا مہرہ دھوکہ دے جائے۔
(جاری ہے ۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)