جو اماں ملی ، تو زباں ملی

ڈاکٹر شاہد صدیق
وقت بدلا ، حالات بدلے۔ موسم بدلا ، چہرے نکھرے۔ ملک میں دہشت گردی نے دم توڑا تو اس امن کی فضاؤں میں چین کا سانس نصیب ہوا۔ وہ امن جو ہمارے دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا اور ہمارے سینوں پہ کاری زخم لگانے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے 150 کبھی وہ لاہور جم خانہ میں چائے پینے کی تمنا لئے ہم پہ چڑھ دوڑتا ہے تو کبھی وہ مکتی باہنی کی سرپرستی میں نفرتوں کے ساتھ یوں شانہ بشانہ کھڑا ہو جاتا ہے کہ دولخت ہی کر دیتا ہے۔ ہاں وہی دشمن جس کے گھاؤ آج بھی سانحہ پشاور اور مستونگ بن کے رِستے ہیں اور آنکھوں کو اشکبار کر دیتے ہیں ۔ کبھی ہماری سفارتی تنہائی میں مصروف تو کبھی ہم پہ پابندیاں لگوا دینے کا واویلہ کرتے ہمیں زک پہچانے میں مشغول۔ ہم مصلحتوں کے مارے کبھی ذاتی مفادات کے تحفظ میں تو کبھی دنیا کی طاقتوں کے ڈر سے اپنا موقف پیش کرنے میں پس و پیش کرتے آئے تھے لیکن شاید اب برداشت جواب دے گئی تھی 150 ہم نے ستر ہزار سے زائد جنازوں کو کندھا دیا تو ہم نے اپنے حالات خود بدلنے کا فیصلہ کیا 150 دہشت گردی کا شکار ہم مردانہ وار اٹھے اور ان آگ کے شعلوں میں سے امن کا رستہ بنایا جن میں جلتے ہماری نسلیں تباہ ہوئیں 150 اب گھر میں امن نصیب ہوا تو ہم بھی اپنے آپ پہ گذری تکلیفوں اور دکھوں کی بپتا دنیا کو سنا رہے ہیں یعنی اماں ملی تو زباں ملی کے مصداق ہم اپنے دشمن کا مکروہ چہرہ دنیا کو دکھاتے اپنے زخموں سے پردہ اٹھاتے اپنی سفارت کاری کو بہتر بناتے اپنی ترقی کے راستے تلاش کرتے پھر نئی جہتوں کا سفر شروع کرنے کو پر عزم دکھائی دیتے ہیں۔
بھارتی وزیر خارجہ وہی پرانا راگ الاپتے 150 وہی گھسا پٹا رونا روتے جس میں نہ الفاظ بدلے نہ الزام بدلے 150 نہ لہجہ بدلا اور نہ ہی اس رام لیلا میں چھپا مقصد بدلا رخصت ہوئیں تو اب باری تھی ہمارے وزیرخارجہ جناب شاہ محمود قریشی کی جن کا انگریزی پر عبور اور جوشِ خطابت کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے 150 انہوں نے نہایت تحمل سے اپنی زبان اردو کو اقوامِ متحدہ کے ایوانوں میں عزت و توقیر بخشی اور ہر اس نقطہء نظر پہ خیالات کا اظہار کیا جو ہم دنیا کو کب سے کہنا تو چاہتے تھے لیکن اپنی مجبوریوں کی وجہ سے لبوں کو مقفل کئے بیٹھے تھے۔ ہمارا مخاطب امریکہ تھا 150 ہم نے یورپ سے بات کی اور پیغمبرِ آخر الزماں حضرت محمدﷺ جن پہ لاکھوں جانیں قربان ،کی حرمتوں پہ بات کی 150 ہم نے دنیا کے امن میں اپنے کردار کو روشناس کروایا 150ہم نے اقوام متحدہ کو مخاطب کرکے اس کی بہتری کے لئے تجاویز دیں 150 ہم نے فلسطین کے متعلق اپنے پرانے بیانئے کو از سرِ نو تقویت دی 150 ہم نے کشمیری بھائیوں کی آواز کو موثر طریقے سے دنیا کے گوش گذار کیا 150 ہم نے ڈاک ٹکٹ پہ موجود تصویر کی شہادت پہ اسے خراج تحسین پیش کیا 150 ہم نے اقوامِ متحدہ کے نمائندگان کی رپورٹ پہ انہیں سراہا اور مستقبل میں اس رپورٹ پہ کمیشن بنانے کی تجویز پیش کی جس سے دنیا کو ہماری امن کی کوششوں کا پیغام ملا150 ہم نے جہاں نہایت حوصلے اور سکون سے اپنا آپ منوایا وہاں پہ دشمن کی بغل میں چھری اور منہ پہ رام رام کی پالیسی کا بھی خوب مدلل اور جرات سے جواب دیا 150 ہماری سرحدوں پہ اٹھنے والی میلی نگاہوں پہ خوب ضرب لگائی 150 ہم نے دشمن کو بتایا کہ ہمارے صبر کا امتحان نہ لیا جائے 150 بھارت اور افغانستان میں طاقت کے زور پر ہمیں نہ دبایا جائے ہر چیز کا حل میز پہ موجود ہے لیکن ہمارے ہمسائے کی ہٹ دھرمی سے سارک اجلاس کا غیر موثر ہونا اور مذاکرات کی ہر نشست سے بھاگ جانا ہی خطے میں پائیدار امن کی راہ میں وہ رکاوٹ ہے جس نے جنوبی ایشیا ء کے استحکام کو متزلزل کیا ہوا ہے۔ پاکستان ، خاص کر شمالی محاذ اور بلوچستان میں دہشت گردی کے پیچھے بھارت کے شیطانی ہاتھ ہیں جو بیگناہ انسانی خون میں رنگے ہوئے ہیں۔
امن خون سے نہیں بلکہ خلوص سے لکھا جاتا ہے 150 ہم نے اقوام عالم کو باور کروایا کہ کلبھوشن نے بھارتی حکومت کی ایماء پر پاکستان میں دہشتگردی کی منصوبہ بندی کی،مودی حکومت نے تیسری مرتبہ مذاکرات سے انکار کرکے اہم موقع گنوا دیا۔ اب اگر پاکستان کی سرحدوں پہ اودھم مچایا گیا اور انسانی جانوں سے کھیلا گیا تو منہ توڑ جواب ملے گا 150 قریشی صاحب کے لہجے میں بولتے ایک سچے پاکستانی نے جب بھارتی بنیے کی محدود جنگ کی دھمکی پہ اسے للکارا تو ہم پاکستانیوں کے دلوں میں اس جذبے نے بھی لبیک کہا جس کے دم پہ ایک مسلمان بے تیغ بھی شجاعت و بہادری کے کارنامے دکھاتا اپنے ایمان پہ جان سے گذر جانے کو بھی باعثِ افتخار سمجھتا ہے۔ ہم نے دشمن کو بتایا کہ ہماری قوتِ برداشت کو کمزوری نہ گردانا جائے 150 ہم پہ دہشت گردی کی انگلیاں اٹھانے سے پہلے سمجھوتہ ایکسپریس میں جلے پاکستانیوں کا حساب بھی دنیا کو دیا جائے 150 پشاور میں شہید بچوں کی ماؤں کو بھی جواب دیا جائے 150 ہمارے افغانستان میں امن کے لئے کئے گئے اقدامات اور قربانیوں کو بھی مانا جائے ۔
ایک پاکستانی کے طور پرمیں نے پہلی دفعہ محسوس کیا کہ جناب شاہ محمود قریشی صاحب کی زبان میں ہر درد مند پاکستانی بول رہا ہے 150 ہر وہ پاکستانی بول رہا ہے جو امن کا داعی ہے جو جینا چاہتا ہے اور دنیا کی ترقی میں اپنا آپ منوانا چاہتا ہے 150 جو بتانا چاہتا ہے کہ خطے میں پاکستان کی ممتاز حثییت کو تسلیم کئے بغیر ترقی و امن کا وہ رستہ وہ در نہیں کھولا جاسکتا جس کے ہم سب متمنی ہیں اور کب سے راہیں تک رہی ہیں 150 ہم پہ مسلط کی گئی یہ دہشت گردی اور اس کے پیچھے ہاتھ اگر نہ کاٹے گئے تو شاید یہ خطہ یونہی امن کو ترسے گا 150 مذاکرات ہی اصل حل ہیں اور امن کی زبان ہی ہماری زبان ہے۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔