نوجوان نسل اور خوف
خوف ہی خوف۔ ہر طرف خوف۔ کس بات کا خوف۔ یقینا کسی بات کا تو ہے۔بسا اوقات بندہ ویسے ہی خوفزدہ ہو جاتا ہے اور اس کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا ہر شخص اس کا دشمن ہے اور لوگ اس کو مار دیں گے،خیر یہ تو خوف کی آخری شکل ہے اور یوں خوفزدہ ہو کر بندہ مرنے مارنے پر اُتر آتا ہے،خوف کا دریا جلدی اُتر جائے تو سکوت کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ کیفیت ہی تو اصل چیز ہے، جس کا تعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ احساسات سے ہے۔ محسوس کرنے سے ہی تحریک پیدا ہوتی ہے اور تحریک سے ہی آگے بڑھنے کے لئے راستے ہموار ہوتے ہیں، کسی نے کیا بات کہی ہے کہ آگے بڑھنے کی سب سے بڑی رکاوٹ خوف ہے۔ عبدالقادر جیلانی ؒ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ خوف کسی بھی شخص کے علم کو محدود کردیتا ہے۔قدم اٹھانا مشکل ہو جاتا ہے۔ قدم پھونک پھونک کر رکھنا دانائی ہے، لیکن قدم کو اٹھانے سے پہلے غیر ضروری سوچنا خوف ہے لہذا منزل دور ہوتی چلی جاتی ہے اور پھر پریشانی، مایوسی، ناامیدی اور یاس۔ کاش ہم آس اور امید کی اہمیت و افادیت سے آگاہ ہو جاتے تو خوف اُمید میں بدل جاتا اور خوف کو ختم کرنے کا ہمیں ڈھنگ آجاتا۔ بے ڈھنگی چال چلنے والے اپنا مذاق آپ اڑاتے ہیں اور دوش غیروں کو دیا جاتا ہے ایسے لوگوں کو اپنے بھی بیگانے لگتے ہیں اور ان پر بیگانگی کا بھوت اس قدر سوار ہو جاتا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ وہ اپنے آپ سے بھی بیگانہ ہو جاتے ہیں۔ عقل نہیں تاں موجاں ای موجاں۔ تاہم موجوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے اعصاب پر کنٹرول کرنا پڑتا ہے۔ زندگی ویسے بھی اعصابی جنگ ہے اور یہ جنگ ہوش سے لڑی جاتی ہے۔ جوش اور خوف دونوں اس جنگ میں بہت بڑے نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔اندریں حالات سکتے میں آنے کی ضرورت نہیں ہے،بلکہ آنکھیں اور کان کھول کر رکھنے کی ضرورت ہے اور اردگرد کے ماحول سے متاثر ہونے سے پہلے آنکھوں اور کانوں کی شہادت پر حلف لینا ہو گا تب جا کر عملی زندگی میں انصاف کے تقاضے پورے ہوتے ہیں۔ بیچارہ انصاف۔ شاید یہ بھی خوف کا شکار ہے۔ویسے تو ہم سارے خوف کا شکار ہیں۔اندر کا خوف اور پھر باہر کا خوف۔ تاہم اس خوف کی نشاندہی کرنا بہت ضروری ہے۔
ہمارے ہاں بیٹے کی پیدائش پر شادیانے بجائے جاتے ہیں اور بیٹی کے پیدا ہونے پر اتھرو بہائے جاتے ہیں۔ کوئی پوچھے اتھرو کس بات کے کیا ہم پاگل ہو گئے ہیں۔ نہیں نہیں ہم ٹھیک ٹھاک ہیں بس ایسی صورتحال میں رونا دھونا رسم پرانی ہے،بلکہ ایک وقت تھا بچیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ خوف اور اس بات کا خوف کہ ان کا کیا بنے گا۔ ان کو پالنے پوسنے کی ذمہ داری نہ پوری ہونے کا خوف۔پڑھا لکھا کر منہ زور نہ بن جائے اس بات کا خوف۔ دروازے سے باہر جھانک کر باپو کی دستار داغدار کر دے گی یہ بھی خوف تھا۔ اپنی مرضی سے شادی نہ کر لے، بلکہ اپنا جسم اپنی مرضی کا نعرہ لگا کر کسی کو بھی منہ دکھانے کے قابل نہیں رہنے دے گی۔جہیز پر کروڑوں روپے لگیں گے۔ جائیداد سے دھی نمانی کہیں حصہ نہ مانگ لے۔یہ کتنے سارے تو خوف تھے اور اتنے سارے خوفوں سے بچنے کا واحد حل”مار مکاؤ“ یوں ہر چیز بچ جائیگی۔ یہ تھی اماں حوا کی بیٹی کا کل۔ تنگ آمد بجنگ آمد اس نے تو خیر کمر کس لی اور جس جس سے اس کو خوف آتا تھا ان ساروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس نے آگے بڑھنے کی تدبیر ڈھونڈھ لی(ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں) اب آدم کا پتر خوف کا شکار ہو گیا ہے۔ سوچے جا رہا ہے۔ پیٹھ پر لادی گئی کتابوں کا بوجھ کیسے اٹھاؤں گا، جبکہ میں نے تو کتاب سے تعلق ختم کر لیا ہے۔ سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کی فیسیں کس طرح ادا کروں گا،جبکہ میری ماں نے تو ہم سب بہن بھائیوں کی تعلیم و تربیت کے لئے اپنے سارے زیور بیچ دیئے ہیں اور ہمارا باپ کام کرکر کے مکمل طور پر تھک چکا ہے۔اول تو میں پڑھنے نہیں لگا اور اگر پڑھ گیا تو میری ملازمت کا کیا بنے گا، جبکہ مجھ سے پہلے قطار میں لگے لوگوں کی تعداد لا محدود ہے اور میری ڈگریاں کہیں ٹھیکریاں نہ بن جائیں۔ ہاں تو اچھے رشتے ملنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے اور اچھے رشتے کی تعریف رشتہ کروانے والے ہی بتا سکتے ہیں اور ان کو بتانے کی کیا ضرورت ہے ان کو تو غرض اپنے کمیشن سے ہے، بلکہ ان کو بھی یہ خوف ہے کہ کہیں کمیشن نہ مارا جائے۔ جلدی جلدی کرو اگاں تیرے بھاگ لچھیے۔ ساس بہو کی لڑائی اور درمیان والے کا سینڈ وچ بننا۔ سوشل میڈیا اور اس پر ملکی مسائل کا ہر وقت رونا دھونا اور نوجوان نسل کے آنے والے کل کا خوف۔اُف اللہ اتنے سارے خوف۔ نوجوان نسل پینک تو ہو گی اور آہستہ آہستہ بے چینی، خوف اور بالآخر ڈپریشن کا شکار ہو جائے گی۔ پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ خانہ جنگی اور خود کشی۔ اس کو کہتے ہیں تباہی اور خوف کھانے کے تباہ کن اثرات۔ نفسیاتی تجزیہ کرنے کی بہت ہی ضرورت ہے، لیکن سوال تو یہ ہے ماہر نفسیات خود خوف کاشکار ہو گئے ہیں اور ان کا مشورہ ہے کہ ایسے ماحول میں خاموشی ہی بہتر ہے۔ سمندر کا سکوت بسا اوقات بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ ان حالات میں آج کے نوجوان کو باعث صد افتخار کے مطالب و معانی سے آگاہ کرنا ہوگا۔(افلاس نے بچوں کو بھی تہذیب سکھادی۔۔ سہمے ہوئے رہتے ہیں شکایت نہیں کرتے)
خوف خوف کا راگ الاپنا بند کرنا ہو گا۔ منصوبہ بندی اور منصوبہ سازی کی اہمیت سے بچوں کو آگاہ کرنا ہو گا۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم کر کے نونہالان میں آس اور امید پیدا کرنا ہو گی۔ محنت سے کیا کچھ نہیں ہو سکتا جیسے بیانیے ترتیب دینا ہوں گے۔ خوف کھانے کے نقصانات کے بارے میں آگاہی پروگرامز کو وسیع پیمانے پر متعارف کروانا ہو گا۔ علامہ اقبالؒ جیسے مفکرین کی بچوں کے بارے شاعری سے ان کو متعارف کروانا ہو گا۔ سلیبس میں امید کی افادیت سے متعلق مضامین شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈرامے اور فلمیں بناتے وقت مایوسی پھیلانے کے نقصانات کو پیش نظر رکھنا ہو گا۔ بچوں، والدین اور اساتذہ کے آپس کے تعلقات کو مضبوط بنانا ہو گا۔ تقدیر اور تدبیر میں بھی فرق ان پر واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ ہوش اور جوش کی حدود و قیود کا تعین اور پھر اس کے بارے میں مکمل آگاہی۔ تابناک مستقبل کا خواب اور اس خواب کی تعبیر کے لئے کیا کچھ کرنا ہے اور ان پر اس حقیقت کا واضح کیا جانا کہ دنیا میں ہر چیز کا امکان ہے۔ غم اور خوشی زندگی کا دوسرا نام ہے،لہٰذا رویوں کو ترتیب دیتے ہوئے اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا چاہئے اور پھر نظر میں وسائل اور مسائل کے تناسب کو رکھنا۔ بچوں کے سامنے مایوسی کی گفتگو سے پرہیز کرنا ہو گا اور اُمید اُمید اور اُمید اور کام کام اور بس کام۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔