امام مسجد کی تنخواہ مزور سے بھی کم؟یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟

بچپن ہی سے میرا اٹھنا بیٹھنا علمائے کرام، امام مسجد اور قاری حضرات کے ساتھ رہا ہے اور جب مسجد سے نماز کے لئے اذان کی آواز سنائی دیتی ہے تو میرے قدم خود بخود مسجد کی جانب چل پڑتے ہیں،جس طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا کہ میں اذان کی آواز سن کر سہم جاتا ہوں کہ بڑے گھر سے بلاوا آیا ہے۔کچھ یہی عالم میرا بھی ہے۔میں سمجھتا ہوں یہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل وکرم ہے۔ایک دن ممتاز عالم دین،حافظ قرآن اور ایک معروف مفتی صاحب سے ملاقات ہو گئی۔و ہ ایک جامع مسجد کے خطیب بھی ہیں بلکہ ایک بڑی تعلیمی درسگاہ کے سینئر استاد بھی ہیں، جہاں دور و نزدیک سے آئمہ کرام اور علمائے کرام مختلف مسئلوں کی تشریح کے لئے اکثر وبیشتر رجوع کرتے ہیں۔ جب بات علمائے کرام اور آئمہ کرام کے معاوضوں کی ہوئی تو انہوں نے مجھ سے سوال کیاکہ دور حاضر میں ہمارے معاشرے میں شادی، نکاح اور ولیمہ کی تقریب کے لئے شادی ہال کرائے پر لئے جاتے ہیں، اس کے باوجود کہ نکاح ایک شرعی حکم ہے، مگر شادی ہال کا مالک پھر بھی شادی ہال کا کرایہ اور کھانے کے پیسے لیتا ہے۔ اس کے باوجود کہ حج اور عمرہ ایک عبادت اور شرعی حکم ہے، مگر ایئر لائن کمپنیز اور ٹریول ایجنٹس اپنی خدمات کے عوض پیسے مانگنا نہیں بھولتے۔ختنے کروانا ایک فطری و شرعی عمل ہے، مگر ڈاکٹرز اور جراح اس کے بھی پیسے لیتے ہیں۔ قربانی ایک شرعی فریضہ ہے مگر قصائی منہ مانگے دام وصول کرتا ہے۔تعلیم ایک شرعی حکم ہے، مگر ٹیچرز بھاری تنخواہ اور پنشن بھی وصول کرتے ہیں۔مسجد بنانا نیکی کا کام ہے، مگر مستری و مزدور اپنی محنت کا معاوضہ وصول کرنا نہیں بھولتے۔ قرآن و حدیث کی اشاعت ایک اہم فریضہ ہے، مگر پبلشرزاس کی بھی قیمت ضرور مانگتے ہیں۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ نہ کسی کو ان افراد کی نیت پر شک ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی انہیں دنیا دار اورلالچی کہہ کر پکارتا ہے۔نہ وہ دین فروش بنتے ہیں نہ ہی ریٹ فکس کرنے کو حرام قرار دیاجاتا ہے۔ نماز پڑھنا،خطبہ جمعہ، عیدین،تراویح،درس وتدریس یہ سب بھی شرعی احکام ہیں،مگر جب امام، خطیب، مدرس ہر طرف سے مجبور ہو کر، اپنے دِل و ضمیر پر پتھر رکھتے ہوئے اپنی تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ کر تا ہے تو دنیا دار مولوی کا لیبل اس کے ماتھے پرچسپاں کر دیا جاتا ہے۔دین فروش، لالچی،تقوی سے خالی قرار دیا جاتا ہے۔چند لمحے خاموش رہنے کے بعد مفتی صاحب ایک بار پھر کہنے لگے کہ پاکستان کے مسلم معاشرے میں صرف علمائے کرام اور آئمہ مساجد کے ساتھ ہی ایسا دوہرا معیار اور ناروا سلوک کیوں روا رکھا جاتاہے؟کیا علمائے کرام اور ان کے بیوی بچوں کے ساتھ پیٹ نہیں لگا ہوا؟ کیا ہمارے بیو ی بچے دن میں تین بار کھانا نہیں مانگتے؟ کیا ان کے مقدر میں اچھے پرائیویٹ سکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر کے فوج کا جنرل، ڈاکٹر،انجینئر، پائلٹ اور بیورو کریٹ (بڑا سرکاری افسر) بننا کیوں ممنوع کردیا جاتا ہے۔ کیا تمام اعلی سرکاری و غیرسرکاری محکموں اور اداروں کے کلیدی عہدے معاشرے کے تمام طبقوں کے لئے کھلے ہیں، لیکن صرف اور صرف امام مسجد، تراویح پڑھانے والے حافظ قرآن اور دینی مدرسوں میں بدترین حالات اور کم ترین تنخواہوں کے عوض پڑھنے اور پڑھانے والوں کے مقدر میں صرف اور صرف مانگے تانگے اور خیرات میں ملنے والی روٹیاں اورمرنے والوں کے جسم سے اترے ہوئے کپڑے پہننا ہی کیوں لکھ دیا جاتا ہے۔مایوسی اور ہر سطح پر مسجد اور مدرسہ انتظامیہ کی غلامی کیو ں لکھ دی جاتی ہے۔کیا ہمارے لئے آسمان سے من و سلوا اترتا ہے؟ کیاہم اور ہمارے بیوی بچے بیمار نہیں ہوتے؟ کیابڑھاپے میں ہماری کفالت، حکومت کی ذمہ داری نہیں۔وہ کون سے ہسپتال ہیں جہاں علمائے کرام۔ آئمہ کرائم اور حافظ قرآن کا عزت و آبرو کے ساتھ مفت علا ج کیا جاتا ہے؟ ہماری ساری زندگی بھی درس و تدریس میں گزرجاتی ہے، لیکن دین اسلام کی تدریس کرنے والوں اور عام لوگوں کو دین سیکھانے والوں کو پنشن کی سہولت تو دور کی بات ہے،انہیں پیٹ بھرنے کے لئے دو وقت کی روٹی کھانے کے پیسے بھی نہیں دیئے جاتے۔اگر کو ئی بیمار ہو جائے توہمیں صحت کارڈ کے ذریعے مفت علاج کے سہولت دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ مفتی صاحب تو اپنی بات مکمل کرکے خاموش ہو گئے، لیکن انہوں نے مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو سوچنے اور لکھنے پر مجبور کردیا تھا۔میں یہ بات دعوی سے کہتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جتنے مفتی صاحب۔ آئمہ کرام، حافظ قرآن اورقاری حضرات ہیں کسی ایک کا بھی بیٹا سی ایس پی افسر، سپیشلسٹ ڈاکٹر، انجینئر، پائلٹ اور فوجی جرنیل نہیں بن سکا۔ اس کی وجہ کیا یہ ہے؟ کہ ان بیچاروں کو اپنا اور اپنی بیوی بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے بھی اتنی تنخواہ نہیں دی جاتی کہ اپنا اور اپنے خاندان کی اچھی طرح کفالت کرسکیں اور اچھے تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو پڑھا سکیں۔ان کے تعلیمی اخراجات پورے کرسکیں۔ وہ بیچارے کھائیں گے کہاں سے اور پہنیں گے کہاں سے اگر ان میں سے کوئی بیمار ہوجائے تو اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا علاج کہاں سے کروائیں گے۔ساری زندگی اندھیرے اور تنگ و تاریک حجروں میں رہنا، ان کا مقدر بنا دیا گیا ہے وہ بیچارے اپنے گھر کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے، ایک حافظ قرآن جس کے سینے میں قرآن پاک زیر زبر کے ساتھ اللہ نے محفوظ کررکھا ہے۔ وہ مفتی حضرات۔ عالم دین اورآئمہ کرام جن کے سینے میں درجنوں عربی اور فارسی کی ضیخم کتابیں محفوظ ہیں۔بدقسمتی سے ان کے لئے جب ماہانہ تنخواہ مقرر کرنے کا وقت آتا ہے تو پاکستانی معاشرے میں ان کی تنخواہ ایک چپڑاسی سے بھی کم رکھی جاتی ہے۔یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟اس وقت حکومت پاکستان کی جانب سے ایک مزدور کی تنخواہ 37ہزار روپے مقرر کی گئی ہے، لیکن پاکستان بھر میں شاید ہی کسی عالم دین یا امام مسجد کو اتنی تنخواہ ملتی ہو گی۔میں جس مسجد میں نماز پڑھتا ہوں،امام کی تنخواہ 23ہزار اور نائب امام کی تنخواہ 16ہزار روپے مقرر ہے۔ گویا مزدورسے بھی آدھی پر امام اور نائب امام ہم سب کو نمازیں پڑھانے پر مجبور ہیں۔یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟ ضرورت اِس امر کی ہے کہ جس طرح سرکاری سکولوں اور کالجز کے اساتذہ کرام کی تنخواہوں کے گریڈ بنائے جاتے ہیں، اسی تناسب سے چھوٹی بڑی مسجدوں کے امام اور دینی مدرسوں کے اساتذہ کرام کی تنخواہوں کا پیکیج بھی سرکاری سطح پر طے کیا جانا چاہئے تاکہ دین اسلام کی ترویج اور تصنیف کا اہتمام سے جاری و ساری رہ سکے۔بطور خاص اولڈ ایج بینیفٹ کی پنشن کا حقدار بھی انہیں بنایا جائے۔