ہم گناہوں سے تائب ہونے کو تیار کیوں نہیں؟

ہم گناہوں سے تائب ہونے کو تیار کیوں نہیں؟
ہم گناہوں سے تائب ہونے کو تیار کیوں نہیں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  

ہم لوگ بہت کتابیں پڑھتے ہیں اور آج کل تو سوشل میڈیا نے دھوم مچا رکھی ہے،یہاں گفتنی  نا گفتی ہوتی  رہتی ہیں،مسلمان قرآن مجید کی تلاوت بھی کرتے اور وعظ بھی سنتے ہیں،ان میں کتنے حضرات(مجھ سمیت) ہیں جو قرآن کو ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھتے،حالانکہ بار بار تلقین کی جاتی ہے،مجھے بزرگوں کی خدمت میں حاضری کا بہت موقع ملا اور ان کی باتیں بھی یاد ہیں،گاہے بگاہے ان کا ذکر بھی کرتا رہتا ہوں،آج تو عرض کرنا ہے کہ اگر قرآن حکیم کو حکمت والی کتاب کے طور پر پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں تو بہت کچھ آشکار ہوتا ہے،قرآن سے ہمیں تاریخ کا بھی علم ہوتا ہے۔یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا دنیا میں تشریف(کیوں اور کیسے) اور پھر نسل ِ آدم کا سلسلہ چلا اور اس کے ساتھ قتل کی واردات بھی ہو گئی،اِس کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت یوسف ؑ، حضرت ابراہیم ؑ، حضرت اسماعیل ؑ، یعقوب ؑ، حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت نوح ؑ کے ساتھ ساتھ اور بزرگوں کا بھی ذکر ملتا ہے،اس کے ساتھ ہی اللہ کی طرف سے ان عذابوں کی تفصیل ہے،جو مختلف انبیاء علیہ السلام کی نافرمان اُمتوں پر نازل ہوئے۔ان میں آگ، ہوا،پانی اور خارش جیسے عذاب بھی شامل ہیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ ایسی نافرمان قوم بھی تھی جس نے اللہ کی عنایات کی ناشکری اور جس حد تک نافرمانی ہو سکتی تھی وہ بھی کی۔ہمیں ٹائم اور سپیس کی تھیوری مل جاتی ہے تو چاند اور ستاروں کی چال اور سورج کی گردش اور تپش کا بھی پتہ چلتا ہے۔

ان دِنوں ہم پاکستانیوں سمیت دنیا بھر کے ممالک غیر متوقع بارشوں،طوفانوں،زلزلوں اور سیلابوں سے متاثر ہے،تمام ماہرین موسمیات اور ماحولیات مسلسل آگاہ کر رہے ہیں اور ہم سب مسلمان بھی اسی رو میں بہتے چلے جا رہے ہیں۔میں نے ہی نہیں،عام مسلمانوں نے اپنے اپنے علماء کرام سے ضرور یہ سنا ہوا ہے کہ قرآن حکیم میں بیان کیے گئے آگ، پانی اور دیگر عذابوں کا ذکر ہوتا اور ہوا تو ہمارے پیارے نبی آخرا لزمان حضرت محمد مصطفےٰؐ نے اللہ سے دُعا کی کہ انؐ کی اُمت کو ایسے عذابوں سے بچایا جائے اور یہ قبول کر لی گئی،اب اِس سے یہ مراد تو نہیں ہو سکتی کہ اُمت رسولؐ نافرمان ہو جائے اور ان کو خبردار بھی نہ کیا جائے۔یہ درست ہے اللہ نے وہ عذاب نہ دینے کی دُعا قبول کی جس کی وجہ سے پوری پوری اُمت ہی ختم ہو جاتی تھی تاہم یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ گناہ و ثواب کا تصور تو موجود ہے اور اللہ اور رسولؐ کی نافرمانی اگر ہو گی تو بڑا عذاب نہ سہی،اُمت کو ختم نہ ہی کیا جائے گا،مگر یہ بھی ناممکن ہے کہ ہم دین کو چھوڑتے چلے جائیں اور ہمیں پوچھا بھی نہ جائے۔

یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں علم کی روشنی کی وجہ سے تسخیر کائنات تک کا تصور پیدا ہو گیا ہے اور اسی طرح ماحولیات اور موسمیات کے ماہرین بھی اپنی اپنی رائے سے نوازتے اور خبردار کرتے ہیں،لیکن اس سارے علم کے باوجود ابھی تک انسان کسی طوفان یا زلزلے کو روکنے کا اہل نہیں ہوا۔ اگرچہ وہ طوفان کی ہیئت،رفتار، آمد اور اس کے نقصان کا تخمینہ اور اندازہ لگا سکتا ہے،شاید یہی وجہ ہے کہ ان دِنوں برصغیر کے علاوہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی ایسی آفتوں کا مقابلہ کر رہے ہیں اور سب اپنی اپنی علمیت کا اظہار کر رہے ہیں۔دُکھ تو ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں پر ہونا چاہئے جن کے پاس قرآن حکیم جیسی نادر کتاب ہے اور جن کے لئے رسولؐ رحمت دنیا میں بھیجے گئے اور ان ہی کے سینہ اطہر مبارک پر یہ آسمانی کتاب اتاری گئی،وہیؐ اپنی اُمت کے لئے رنجیدہ ہوتے تھے اور دُعائیں بھی کرتے تھے۔

ہماری بدقسمتی یہی ہے کہ ہم نے قرآن کو قرآن حکمت اور علم کی کتاب کے طور پر نہیں لیا اور اسے پڑھ کر طاق میں رکھ دیا ہے، حالانکہ یہ تو کتاب حکمت ہے اس میں علم کا خزانہ ہے یہ ہمیں کائنات کے راز بتاتی ہے اور اسی سے یہ علم ہوتا ہے کہ نافرمان اُمتوں پر کیسے کیسے طوفان نازل ہوئے آج جن حالات کا دنیا کو سامنا ہے ان کے بارے میں ہمیں بتا بھی دیا گیا ہوا ہے اور پھر جو آج کے دور کی ترقی ہے اس کا بھی کتاب حکمت میں جگہ جگہ ذکر ملتا ہے اور پھر اسی کتاب میں یہ بھی آگاہ کر دیا گیا ہے کہ دنیا میں جو بھی آیا اور ہے اسے تباہ اور ہلاک ہونا ہے اور صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات بابرکات ہی باقی رہے گی تو ہم مسلمان کیوں غور نہیں کرتے۔آج کے سیلابوں، بارشوں، طوفانوں کے حوالے سے دنیاوی علم کے حوالے سے بات کرتے چلے جا رہے ہیں،لیکن یہ نہیں سوچتے کہ ہم جس رسولؐ کی اُمت ہیں،انہوں ؐ نے تو ہمیں پہلے سے آگاہ کر  رکھا ہے اور اب یہ تو ہمارا فرض ہے کہ ہم ان باتوں سے گریز کریں  جن کے بارے میں منع فرمایا گیا ہے اور  اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑیں،ہمیں نہ صرف غور کرنا ہو گا،بلکہ توبہ، استغفار بھی کرنا ہو گی۔ دنیاوی علم اپنی جگہ لیکن اپنے کیے کا پچھتاوا اپنی جگہ، آج ہم(خود مسلمانوں) نے ظلم اور نافرمانی کا جو بازار گرم کر رکھا ہے اور احکامات رسولؐ  کو نظرانداز کر رہے ہیں تو اگر بڑا عذاب نہ بھی آئے تو ہمیں اللہ کی ذات بابرکات کی طرف سے کچھ تو سمجھایا ہی جائے گا اور آج ہم اسی طرف رجوع نہیں کر رہے۔

ہم مسلمان بحیثیت مجموعی فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں، خود ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہیں،اللہ نے ہم مسلمانوں کو دنیا میں بھی نوازا ہے،لیکن ہم اس کی نعمتوں کا تشکر نہیں کرتے،ہم نافرمان ہیں اور اگر ایسا ہے تو پھر اس نافرمانی کے عوض کچھ تو ہو گا،کیا ہم ظالم نہیں ہیں کہ ہمارے فلسطینی بھائیوں کو نافرمان اُمت مسلسل قتل کر رہی ہے اور اس کی پشت پر امریکہ جیسا منافق ملک بھی موجود ہے، ہم سب مالی اور افرادی طاقت رکھتے ہوئے بھی فلسطینیوں کی نسل کشی رکوانے میں ناکام ہیں۔امریکہ سے جو اسلحہ اسرائیل کو مل رہا ہے اور غزہ میں استعمال کیا جا رہا ہے یہ ہمارے مسلمان(امیر تر) ممالک ہی کے زرمبادلہ سے ہو رہا ہے کہ ہماری دولت انہی کے بینکوں میں ہے اور اس کے باوجود ہے کہ جب کبھی امریکہ تھانیداری پر اترے تو وہ کوئی بھی الزام لگا کر یہ فنڈز ضبط کر لیتا ہے۔معروضی حالات اور زمانے کے تمام تر وسائل کے باوجود ہمارے مسلم ممالک متحد نہیں ہیں،حالانکہ او آئی سی کا پلیٹ فارم بھی موجود ہے۔غور کرنے کی ضرورت ہے۔

مزید :

رائے -کالم -