بہتر کارکردگی خود نمائی کی محتاج نہیں ہوتی
حصول اقتدار کے خواہش مند حضرات اپنی توانائیاں، کوششیں جاری رکھنے کے دعوے اور اعلانات تسلسل کے ساتھ کرتے رہتے ہیں۔ وہ لوگ سیاست کی اِس کاوش کی ترویج و تشہیر کے لئے قومی ذرائع میں اکثریتی عوام کو متاثر کرنے کی خاطر حتی المقدور چھوٹے اور بڑے اجتماعات یا جلسے قانونی اجازت سے یا بعض اوقات خلاف ورزی سے کر کے ووٹر حضرات کی حمایت حاصل کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ آئین و قانون کی پاسداری بلا شبہ اُن کا مثبت سیاسی طرز عمل ہے بلکہ سب سیاست دانوں کو اِسی طریق پر چلنے کو ترجیح دینی چاہئے تاکہ کسی وقت قانون شکنی کا کوئی تاثر پیدا نہ ہو، یوں اُن کے لئے کوئی چھوٹی یا بڑی غلط کاری کے ارتکاب کا احتمال کسی مشکل کا سبب نہ بن سکے۔ عام یا ضمنی انتخابات کے مواقع پر بالخصوص خواہش مند امیدوار کسی اہم پارٹی ٹکٹ کے حصول کے لئے سرتوڑ کوششیں کرتے ہیں تاکہ اُن کو اپنی پسند کی سیاسی جماعت یا اتحاد سے ٹکٹ کے حصول میں کامیابی مل جائے کیونکہ وہ ایسی کاوش کو انتخابی مہم کے بعد انتخاب میں کامیابی کا ایک اہم مرحلہ خیال کرتے ہیں جبکہ ٹکٹ دینے والی پارٹی یا اتحاد کے ذمہ دار بورڈ بھی اپنے تئیں بہتر، مضبوط اور تگڑے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تاکہ اُن کے ٹکٹ ہولڈر انتخابی معرکہ آرائی کے کٹھن مراحل کو اپنی قوت اور وسائل سے کامیابی حاصل کر سکے جبکہ نسبتاً کمزور اور محتاط انداز و اطوار کے امیدواروں سے حتمی کامیابی کی اُمیدیں کم ہی وابستہ کی جاتی ہیں،اِس لئے بڑی سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت انتخابی امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرنے کے معاملے میں بڑی احتیاط اور جانچ پڑتال پر توجہ دیتی ہیں، یاد رہے کہ کھوٹے سکے اور جعلی نوٹ مارکیٹ میں کارآمد اور کامیاب ثابت نہیں ہوتے۔
گزشتہ چند سال سے ملکی سیاست میں یہ بات خصوصی طور پر دیکھنے اور پڑھنے میں آئی ہے کہ بعض سیاست کار حضرات اپنے حریف نمائندوں یا امیدواروں پر جھوٹی، من گھڑت، بے بنیاد اور تضحیک آمیز الزام تراشی کا حربہ اپنا کر خاصے زور و شور سے اُس کا ڈھول پیٹتے رہتے ہیں حالانکہ ایسے الزامات کا حقیقت سے کوئی تعلق یا واسطہ نہیں ہوتا۔اِس بارے میں یہ امر بالخصوص قابل غور ہے کہ جب تک کسی شخص پر الزامات کا مقدمہ یا شکایت کسی مجاز عدالت میں زیر سماعت ہو تو حتمی فیصلہ ہونے تک اُس شخص کو متعلقہ الزام کے ارتکاب کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی کسی مجاز فورم یا عدالت میں زیر سماعت کارروائی پر ذرائع ابلاغ میں کوئی رائے زنی یا حرف گیری کی جا سکتی ہے لیکن چند سال سے وطن عزیز میں یہ نئی بلکہ غلط روایت بلا روک ٹوک چل نکلی ہے کہ متعلقہ عدالتوں میں زیر سماعت کئی مقدمات یا معاملات کو قومی اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر بلا تفریق روز و شب متعلقہ حقائق اور آئین و قانون سے نابلد اور نا آشنا حضرات و خواتین کو ٹاک شوز میں دعوت دے کر اُن کے تجزیوں اور تبصروں سے متعلقہ الزامات کے حقائق اور قانونی مشوروں سے استفادہ یا نتائج اخذ کرنے کی سعی کی جاتی ہے اِس طرح عدالتوں میں بیٹھے جج صاحبان کی قانونی استعداد اور مہارت کو پس پشت ڈال کر ٹی وی چینلوں کے اینکر حضرات و خواتین وقتی طور پر عدالتوں کے جج صاحبان کی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ کارروائی بلا شبہ عدالتی کارکردگی پر اثر انداز ہونے کی جسارت ہے کیونکہ اینکر حضرات کے پاس وہ تفصیلی معلومات اور شہادتیں موجود نہیں ہوتیں جن پر مجاز عدالتوں کو دیکھنا، پرکھنا اور متعلقہ قانونی تقاضوں کے مطابق فیصلہ کرانا لازم ہوتا ہے۔ اِن ذرائع ابلاغ میں زیر غور ملزمان کے ساتھ مروجہ قوانین و ضوابط کے تحت انصاف تو نہیں ہوتا لیکن اُن کو مختلف امور کے جرائم میں ملوث کرنے کی تشہیر سے ہر سو بدنامی ضرور ہو جاتی ہے حصے کسی طور اُن کے ساتھ قانون و انصاف اور انسانی اقدار کے مطابق قرار نہیں دیا جا سکتا۔