افتخار محمد چودھری کی مجوزہ سیاسی جماعت ؟

افتخار محمد چودھری کی مجوزہ سیاسی جماعت ؟
افتخار محمد چودھری کی مجوزہ سیاسی جماعت ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

افتخار محمد چودھری نے اعلان کیا ہے کہ وہ بھی سیاسی جماعت بنائیں گے۔ چودھری صاحب پاکستان کے غیر معمولی چیف جسٹس رہے ہیں۔ انہوں نے طویل دور عدلیہ کی ملازمت میں گزارہ ہے۔ سپریم کورٹ کے سربراہ کی حیثیت سے انہیں دو بار برخاست کیا گیا، دونوں بار وہ سرخ رو ہوئے۔ ان کی بحالی کی تحریک کوئی بہت پرانی بات نہیں ہے۔ وہ بہر حال عدلیہ کے، جو کسی بھی مملکت کا ا ہم ستون ہوا کرتی ہے، پہلے سربراہ ہوں گے، جو سیاست میں اپنی سیاسی جماعت بنا کر حصہ لینا شروع کریں گے۔ ان سے کچھ سوالات کرنے ہیں، مودبانہ طریقے سے۔ انہیں ان سوالات کے جواب دینے چاہئیں۔ انہیں کیوں ضرورت پیش آئی کہ پاکستان میں جہاں الیکشن کمیشن کے پاس تین سو کی تعداد میں سیاسی جماعتیں رجسٹرہوں، وہاں ایک اور سیاسی جماعت بنائی جائے ؟ کیوں نہیں انہیں موجود کسی سیاسی جماعت کا حصہ بن جانا چا ہئے ۔ انہیں اس کی وضاحت کرنا چاہئے۔ کیا ان کی مجوزہ جماعت کوئی ایسا منشور رکھتی ہے جو پاکستان کے مفلوک الحال انسانوں کی زندگی کی کایہ پلٹ دے ؟ کیا ان کی جماعت بھی ملک کی دیگر جماعتوں کی طرح کسی شخصیت کے گرد ہی گھومے گی یا اس جماعت میں کسی اجتماعی قیادت کا کوئی عملی تصور ہو گا؟ ان کے خیال میں اس مُلک کا اہم ترین مسئلہ کیا ہے اور اس کا ان کی نظر میں کیا حل ہے؟اس مُلک میں فوج اور سیاست دانوں کے درمیاں جو کشمکش جاری رہتی ہے اسے محدود یا ختم کرنے کا کیا طریقہ وہ وضع کریں گے؟ کیا وہ بیورو کریسی کے طور طریقوں اور رویوں سے نمٹ سکیں گے؟ بات یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف سے مڈبھیڑ نے جنرل مشرف مخالف سیاسی جماعتوں نے انہیں عوام میں مقبول بنانے کو کوشش کی تھی۔ چودھری صاحب کو یہ خیال رہتا ہے کہ وکلاء نے ان کی بحالی کی کامیاب تحریک چلائی، لیکن اس میں وہ کئی عوامل کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ جنرل مشرف کو مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی مخالفت کا سامنا تھا۔ ان پارٹیوں کو موقع ملا تو وہ چودھری صاحب کو بحال کرانے نکل کھڑی ہو ئیں ۔پھر ان ہی سیاسی جماعتوں نے یو ٹرن بھی لیا۔


اِسی طرح جیسے اس ملک میں تعلیم یافتہ لوگوں کی اچھی خاصی تعداد بھی یہ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی کہ ذوالفقار علی بھٹو کا قومی سیاست میں ابھرنا اس وقت کے حالات کا تقاضہ تھا پھر انہیں ایوبی دور کی گھٹن نے مزید مواقع فراہم کر دئے تھے۔ 1958 سے مُلک مارشل لاء کے تابع تھا۔ جمہوریت برائے نام بھی نہیں تھی۔ فرد واحد کا حکم چلتا تھا، جس پر نام نہاد اسمبلیاں اور ان کے اراکین مہر ثبت کر دیتے تھے۔ اس گھٹن زدہ ماحول میں جب بھٹو کو ایوبی کابینہ سے فارغ کیا گیا تو ملک میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کرنے والے عناصر کے ساتھ ساتھ ملک میں جمہوری نظام کی خواہش رکھنے والے لوگ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے تھے۔ اس پلیٹ فارم کا نام پاکستان پیپلز پارٹی طے کیا گیا تھا۔ ابتدا میں اس پلیٹ فارم پر سب ہی لوگ جمع ہو گئے تھے یا کر دئے گئے تھے۔ ان میں ایوب خان کے کاسہ لیس بھی تھے۔ سیاست کو مورثی جائیداد سمجھنے والے جاگیر دار، بڑے زمیندار، سرمایہ دار بھی سرمایہ کاری کی آبکاری کرنے پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔ پیپلز پارٹی کی تاسیسی دستاویزات کا مطالعہ کیا جائے تو سوائے خوش کن الفاظ کے کچھ اور نہیں ملتا۔ جے اے رحیم، پارٹی کے پہلے سیکریٹری جنرل، نے اس بحث کو آگے بڑھایا کہ پاکستان میں ایک نئی سیاسی جماعت کیوں، حنیف رامے نے اس پر مضامین لکھے۔ ان مضامین کو آج بھی پڑھا جائے تو محسوس ہو گا کہ کوئی نئی بات نہیں کی گئی تھی،لیکن گھٹن کا زمانہ تھا، دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے اگر بیس آدمیوں کا جلوس نکلتا تھا تو اسے معرکہ سمجھا جاتا تھا۔ اس وجہ سے بھٹو کا سورج چمکا۔


اسی دور میں پاکستان ایئر فورس اور پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے سربراہ ائیر مارشل اصغر خان بھی سیاست میں وارد ہو چکے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو جب ایوب خان دور میں قید کیا گیا تو اصغر خان ان کی رہائی کی تحریک چلانے نکلے تھے۔ بعد میں ان کے اور بھٹو کے راستے جدا جدا تھے۔ بھٹو کے دور اقتدار میں اصغر خان جب سیاسی مخالفت کے باعث معتوب ٹہرے تو پاکستانی سیاست کے اپنے وقت کے تمام بڑے نام اصغر خان کی پارٹی تحریک استقلال میں شامل تھے۔ کیا نواز شریف، اعتزاز احسن، کیا عابدہ حسین، ان کے شوہر فخر امام، اکبر بگٹی، میاں محمود علی قصوری، مشاہد حسین، گوہر ایوب خان، میاں منظور وٹو، جاوید ہاشمی، شیر افگن نیازی مرحوم، مشیر احمد پیش امام، خورشید محمود قصوری، آصف وردگ، ڈاکٹر اشتیاق قریشی، حامد سرفراز، حیدر عثمان ملک وغیرہ وغیرہ اصغر خان کے گن اور گیت گاتے پھرتے تھے۔ نواز شریف تو سیاست میں نووارد تھے۔ بہت سارے نام والے لوگ تھے۔ سب ہی یہ سمجھ رہے تھے کہ بھٹو کے متبادل اصغر خان ہی ہوں گے۔ ان تمام لوگوں کا استقلال آہستہ آہستہ ختم ہوتا گیا۔ وجہ صاف تھی کہ یہ تمام لوگ ایوان اقتدار میں داخل ہونے کے لئے کوشاں تھے۔ انہیں تو کوئی کندھا چاہئے تھا۔ جب اصغر خان متبادل نہیں بن سکے تو ان میں سے بہت سارے لوگ جنرل ضیاء الحق کے کاسہ لیس بن گئے۔ ہر ایک نے ہر ہر دور میں اپنی سیاسی وفاداری کسی نہ کسی نام نہاد بنیاد پر تبدیل کی ۔ ہم نے دیکھا کہ ان میں سے کتنوں نے آئین پاکستان کو طاق میں رکھنے میں جنرل پرویز مشرف کی مدد کی۔ اپنی خدمت کا بھر پور معاوضہ کسی نہ کسی صورت وصول کیا۔

میاں نواز شریف سے لے کر پاکستان میں ایٹم بم تیار کرنے والے مایہ ناز سائنسداں عبدالقدیر خان تک، سب ہی سیاسی جماعتوں کی قیادت کرتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی ہو یا تحریک انصاف، مسلم لیگ (ق) ہو یا جماعت اسلامی یا جمعیت العلمائے اسلام ، یا عوامی نیشنل پارٹی یا خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان میں قوم پرستی کے نظریہ پر سیاست کرنے والے رہنما، بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے اس مُلک کے عوام کو کیا دیا۔ عوام نے سب ہی کو کچھ نہ کچھ دیا۔ ایسی صورت حال میں افتخار محمد چودھری کیا کچھ کر گزریں گے۔ سیاست سے واقف لوگ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ سابق چیف جسٹس اس مُلک میں ایک اور سیاست دان تو ہو سکتے ہیں، لیکن وہ مُلک یا عوام کو کسی تبدیلی سے ہمکنار نہیں کر سکتے ۔ وہ اپنے دور میں عدلیہ میں رشوت ستانی ختم نہیں کرا سکے۔ مقدمات میں تاخیری حربوں پر قابو نہیں پا سکے۔ ان وکلاء نے جو ان کی بحالی کی تحریک میں پیش پیش تھے، عوام کو سستے انصاف کے حصول میں کوئی معاونت نہیں کی۔ غریب موکل کو تو اعتزاز احسن توکیاکوئی چھوٹا وکیل بھی مُنہ لگانے پر تیار نہیں ہوتا۔ جمہوریت کے دل دادہ دعوے دار وکلاء اپنے مؤکلوں کے ساتھ جو کچھ کرتے ہیں وہ اس کے برعکس ہوتا ہے، جس کی تبلیغ کی جاتی ہے۔


کہا جارہا ہے کہ افتخار محمد چودھری اپنی سیاسی جماعت کے نام پر غور کر رہے ہیں۔ کہیں خبر شائع ہوئی کہ جسٹس لیگ ( لیگ اس لئے شائد کہ برصغیر کے مسلمان اس لفظ سے آشنا ہیں ) نام تجویز کیا جار ہا ہے ۔ معنوی اعتبار نے نام میں کشش ہے ۔ پاکستان میں اصغر خان نے تحریک استقلا ل سے قبل پاکستان جسٹس پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ میاں منظر بشیر اس میں شامل تھے۔ جب انہوں نے تحریک استقلا ل کی بنیاد ڈالی تو میاں منظر بشیر نے اس جماعت کو اپنا لیا تھا۔ بعد میں میاں منظر بیروں ملک ایک مقدمے کے بعد پاکستانی سیاسی منظر سے ہی غائب ہوگئے۔ جنرل ایوب خان کے رفیق کار جنرل اعظم خان نے بھی سیاسی جماعت بنائی تھی۔ جناح مسلم لیگ، اعظم خان کو بھی ان کے قریبی لوگوں نے یہ بات ذہن میں ڈال دی تھی کہ وہ عوام میں مقبول ہیں۔ وہ بلا شبہ مشرقی پاکستان کے گورنر ہونے کے ناطے اپنی بے پناہ خدمات کے باعث بنگالیوں میں بے انتہا مقبول تھے لیکن مغربی پاکستان میں ان کا کوئی خاص ذکر نہیں تھا حالانکہ وہ راست باز ، محنت اور خلوص سے کام کرنے والے شخص تھے۔ حسین شہید سہروردی نے بھی مسلم لیگ سے سیاسی اختلافات کے بعد عوامی مسلم لیگ قائم کی تھی جو بعد میں عوامی لیگ بن گئی، اسی طرح کنو نشن مسلم لیگ ایوب خان سے قائم کر وائی گئی ، جواب میں مخالف سیاست دانوں نے کونسل مسلم لیگ قائم کی، مشرف کے دور میں قائداعظم مسلم لیگ قائم کی گئی جسے اب ق لیگ کہا جاتا ہے، شیخ رشید نے عوامی مسلم لیگ قائم کی ۔ یہ تمام سیاسی جماعتیں فرد واحد کی ملکیت ہی رہیں۔ پاکستانی سیاست کا المیہ ہے کہ آج بھی خاندانی اثر و نفوذ رائج ہے۔ لوگ بڑے خاندانوں سے مرعوب رہتے ہیں، شخصیت کے حصار میں رہتے ہیں، وہ سیاسی جماعت کا باقاعدہ حصہ نہ بنتے ہیں نہ بنا ئے جاتے ہیں، اسی وجہ سے سیاسی جماعتیں خاندانوں کی ملکیت ہو کر رہ گئی ہیں۔ سوائے جماعت اسلامی کے ، کون سی سیاسی جماعت ہے جو کسی خاندان یا کسی شخصیت کی ملکیت نہ ہو۔ خود وکلاء تحریک میں شامل کئی نام ان کی مجوزہ سیاسی جماعت کا حصہ نہیں بنیں گے، کیونکہ انہیں یقین نہیں کہ چودھری صاحب کی جماعت بر سر اقتدار آسکے گی۔ ہاں آج ان لوگوں کو کوئی اشارہ دے کہ ایوان اقتدار کا راستہ اس طرف سے جاتا ہے تو یہ لوگ اس راستہ پر چل پڑیں گے۔ خواہ شوکت عزیز جیسا گنگو تیلی ہی کیوں نہ وزیراعظم ہو۔ نظریہ، اصول، مقاصد ، عوام کی فلاح وبہبود ان کی نظر میں اہمیت نہیں رکھتے ہیں ۔ یہ لوگ تبدیلی اس کو سمجھتے ہیں جب انہیں اقتدار میں حصہ ملے۔ ان کا حوصلہ بس اتنا ہی ہوتا ہے۔ چودھری صاحب بہت پر خار وادی ہے۔ ہر موڑ پر بہروپیے موجود ہیں۔ آسمانوں کی باتیں کرنے والے لوگوں کو جب زمین پر نہیں پائیں گے تو چودھری صاحب کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ تعلیم یافتہ لوگ اپنا کردار ادا کرنے پر تیار ہی نہیں ہوتے۔ ان کے پیش نظر بھی موقع پرستی ہوتی ہے۔

اس مُلک کے عوام کی مجبوری رہی کہ وہ جمہوری اور غیر جمہوری نظاموں کے تحت پولنگ اسٹیشنوں پر جاتے رہے کہ شائد اب حالات ایسے ہو جائیں کہ ان کی زندگی کی کایہ پلٹ جائے۔ ان کی زندگی کیا کایہ کی خواہش کیا ہوتی ہے۔ نظام حکومت میں انہیں انصاف فراہم ہو، انہیں بنیادی سہولتیں حاصل ہوں، ان کے بچوں کا مستقبل بھی بہتر ہو، انہیں گھر میسر ہو، انہیں روزگار کے مواقع میسر ہوں، انہیں کسی کی سلامی کے لئے حاضر نہ ہونا پڑے، لیکن ان کی خواہش کبھی پوری نہیں ہو سکی۔ تمام ادوار میں ان کے ساتھ دھوکہ ہی ہوتا رہا۔ نتیجہ کیا نکلا۔ آج وہ پولنگ اسٹیشن پر خوشی خوشی نہیں جاتے ہیں۔ انہیں زبر دستی لے جایا جاتا ہے۔ پھر عمران خان کا سورج چمکا۔ وہ سورج جو اٹھارہ سال سے چمکنے کے لئے بے تاب تھا۔ 2013ء کے انتخابات میں لوگ خوشی خوشی ان کے انتخابی نشان بلا کو ووٹ دینے نکلے ۔ انہیں ایک صوبہ میں حکومت بھی ملی، لیکن لوگوں کو کیا ملا۔ خیبر پختونخوا میں عام لوگوں کی زندگی میں کسی تبدیلی کا آغاز نہیں ہو سکا۔ اپنی سیاست کو دوام بخشنے کے لئے عمران خان نے دھرنا سیاست کی، جسے ان کی ہٹ دھرمی اور ان کے مزاج نے دھجکا لگایا ۔ ان کے گرد گھیرا ڈالے بعض لوگوں نے انہیں گمراہ کرنے میں کسر نہیں چھوڑی۔ عمران خان کو بھی جلدی اس لئے ہے کہ وہ عمر کے اس حصے میں داخل ہو چکے ہیں جہاں ہر شخص جلد بازی میں ہوتا ہے۔ ان کا ساتھ دینے والوں میں سابق جسٹس وجیہہ الدین احمد، معراج محمد خان، یا اور بھی کئی لوگ آج کہاں ہیں۔ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔ عمران خان کو بھی وہی سیاست گری کرنا پڑی جو اقتدار پر ہر دور میں قابض طبقے کی خواہش کا آئینہ دار رہی ہے۔ عمران خان تو آج تک تحریک انصاف کو منظم نہیں کر سکے ہیں۔ لوگوں کا ہجوم ان کے گرد ضرور موجود ہے، لیکن کیا ہجوم کسی بھی نظم یا تنظیم کا متبادل ہو سکتا ہے جب تک کہ اسے منظم نہ کیا جائے۔ ذرائع ابلاغ ہجوم میں اس کی کشش کے پیش نظر انہیں اپنے مقاصد کے لئے ’’استعمال ‘‘ کرتا رہا ہے۔ کبھی نواز شریف کے خلاف، کبھی الطاف حسین کے خلاف، اسفند یار ولی اور مولانا فضل الرحمن سے تو ان کا ٹکراؤ خیبرپختونخوا میں سیاست میں حصہ داری کی بنا پر واجب ہو ہی گیا۔


چودھری صاحب، تکلیف دہ تاریخ کے باوجود اس تماش گاہ میں ایک ایسی سیاسی جماعت کی انتہائی ضرورت ہے،جو عوام کی سطح پر منظم ہو، جو پرانی سیاست کے جغادریوں کو نکیل ڈال سکے، جو وسائل سے محروم ، کچلے ہوئے طبقات کو اوپر لے جاسکے ۔ بھٹو یہ خدمت انجام دے سکتے تھے، لیکن ان کے ذہن میں یہ بات ہمیشہ کلبلاتی یا ستاتی تھی کہ ان کے خاندان میں عمریں کم ہوتی ہیں، جس کا انہوں نے اظہار بھی کیا تھا، اسی لئے وہ ہر معاملہ میں جلد بازی کا شکار رہے۔ یہ جلد بازی نہ ہوتی اور 1970ء کے انتخابی نتائج تسلیم کر لئے جاتے تو پاکستان میں ایک جمہوری معاشرہ قائم ہو چکا ہوتا۔ عوامی لیگ چونکہ متوسط اور غریب طبقات کے لوگوں کی جماعت تھی، مغربی پاکستان کے جاگیر داروں، سرمایہ داروں، سرمایہ کاروں ، رسہ گیروں اور پیدا گیروں کو نکیل ڈال سکتی تھی۔ عمران خان کو بھی جلد بازی ہے ،کیونکہ وہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ ان کی عمر بھی گزری جاتی ہے۔ ان سے زیادہ افتخار محمدچودھری کو جلدبازی ہو گی، کیونکہ سرکاری ملازمت سے ریٹائر لوگ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے پاس بھی وافر وقت نہیں ہے۔ عوام کو منظم کرنے کے لئے وافر نہ سہی، لیکن معقول وقت تو چاہئے ۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ جس طرح عمران خان کے کان کپتان کپتان سننے کے عادی ہو چکے ہیں اسی طرح آ پ کے کان بھی ’’ می لارڈ ‘‘ سنتے سنتے پکے ہو گئے ہوں گے۔

مزید :

کالم -