یرغمال

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہم پاکستانی اپنے آپ کو ایک قوم میں تبدیل نہیں کر سکے اور پاکستان کا مطلب کیا ’’لا الہ الا للہ‘‘ محض ایک جذباتی نعرہ بن کر رہ گیا ہے۔یہ ایک قابلِ بحث بات ہے، جس کی تائید یا تردید میں دلائل ہو سکتے ہیں اور اِس ضمن میں میرا اور آپ کا خاص نقطۂ نظربھی ہو سکتا ہے،مگر ایک بات جس میں کسی بحث کی گنجائش نہیں اور جس پر دُنیا کا ہر باشعور شخص، خواہ وہ کسی بھی معاشرے یا قوم سے ہو، متفق ہے، وہ یہ ہے کہ معاشرے اور قوم کو متحد و مضبوط رکھنے کے لئے لازمی عنصر انصاف ہے،جس معاشرے میں انصاف کا بول بالا ہے، وہ معاشرہ مختلف زبان و معاشرت اور عادات و اطوار کے لوگوں پر مشتمل ہونے کے باوجود ایک قوم کی حیثیت سے کامیاب ہے، جبکہ انصاف سے محروم معاشرہ ہمیشہ انتشار کا شکار رہتا ہے اور بطور قوم ایسے لوگوں کے وجود پر ہمیشہ سوالات اٹھتے رہتے ہیں۔ پیغمبر اسلام اور رہبر بے مثال جنابِ رسول اکرمؐ نے ریگزارِ عرب کے وحشی اور غیر مہذب قبائل کو ایک معتدل اور مہذب معاشرے میں تبدیل کرنے کا جو کارنامہ سرانجام دیا اُس کی اہم ترین بنیاد سچ اور انصاف تھا۔ہمارا پاکستانی معاشرہ آج کل دو انتہائیوں کے ہاتھوں یرغمال کی سی کیفیت سے دوچار ہے۔انتہا کے ایک سرے پر وہ مراعات یافتہ طبقہ ہے جو باوجود مسلمان ہونے کے اپنے لئے رہنمائی مغرب سے حاصل کرنے کا طالب ہے اور اس کے نزدیک مغربی لباس اور رہن سہن کی نقل، مغرب کی طرح کا سماجی میل ملاپ تہذیب و ترقی کی انتہا ہے،جبکہ یہ طبقہ مغرب کے ان اصولوں کا اپنے معاشرے میں نفاذ بالکل پسند نہیں کرتا، جن پر آج کے مہذب مغربی معاشرے کی بنیاد کھڑی ہے اور جن کے بارے میں ہم مسلمانوں کا بالعموم یہ خیال ہے کہ مغرب نے معاشرت کے یہ سنہری اصول ہم سے لئے ہیں، جن میں سچ بولنا، سچ سننا اور پسند کرنا،قناعت ، سماجی، سیاسی اور معاشی انصاف، دکھاوے سے نفرت،اختلافِ رائے کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا۔ غیر جانبداری سے حالات کا تجزیہ کرنا، معاشرے کے دیگر افراد کے حقوق کا احساس اور قوانینِ معاشرہ کا احترام شامل ہیں۔
انتہا کے دوسرے سرے پر وہ مذہبی طبقہ ہے جو اپنے آپ کو ظاہری وضع قطع سے تو جنابِ رسول اکرمؐ کا سچا پیرو کار ظاہر کرتا ہے،لیکن اس کے نزدیک اسلام صرف ایک مخصوص حلیہ بنائے رکھنے اور چند مذہبی عبادات سے بڑھ کر کچھ نہیں۔یہ طبقہ خاص طور پر عدم برداشت کے اصول کا پیرو کار ہے اور اپنے خاص نقطۂ نظر اور نظریات کے خلاف کوئی منطقی بات سننے کو بھی تیار نہیں ہے۔اس تمام صورتِ حال میں اگر کوئی ذی شعور شخص ان دونوں انتہاؤں کے ہاتھوں یرغمال بننے کی بجائے ان سنہری اصولوں کو اپنانے اور عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے،جن پر عمل کی ہدایت انسانیت کا درس دینے ولے انبیاء و صالحین نے کی ہے اور اپنی اِس کوشش میں دیگر افرادِ معاشرہ کو بھی شامل ہونے کی دعوت دیتا ہے تو اس سعی میں اسے ہمارے معاشرے سے کوئی ساتھ، سہارا اور قابلِ ذکر مدد نہیں ملتی، بلکہ اِسی معاشرے کے ان لوگوں میں سے بھی، جن کی رہنمائی و مدد کے لئے یہ تحریک ہوتی ہے، کچھ لوگ اِس قسم کی تحریکوں کا مذاق تک اُڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔
دُنیا اس وقت ذرائع ابلاغ کی وجہ سے معلومات عامہ سے آسانی سے مستفید ہونے کی پوزیشن میں ہے۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ انسان شعوری طور پر اتنا ترقی یافتہ ہو چکا ہے کہ وہ ان غیر روایتی نظریات و خیالات کو بھی قبول کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا جو اس سے قبل قابل غور بھی نہیں سمجھے جاتے تھے،لیکن میری دانست میں یہ اصول ہمارے معاملے میں قابلِ عمل نہیں۔ہم لکیر کے اِس قدر فقیر بن چکے ہیں کہ دائرے سے باہر دیکھنے کی خواہش تک ہمارے اندر موجود نہیں اور ہم کولہو کے بیل کی طرح خاموشی سے اِسی دائرے میں چکر لگا رہے ہیں جو یرغمالی عناصر نے ہمارے گرد بنا دیا ہے۔ہماری یہی مجرمانہ خاموشی ان یرغمالی طاقتوں کی اصل طاقت ہے جو بغیر کسی خاص محنت کے اپنے اقتدار کو طویل تر کئے جا رہے ہیں۔ کیا یہ یرغمالی گروہ ہمیں ہمیشہ یرغمال بنائے رکھیں گے،کیا ایک مخصوص ٹولے کی حکومت کو ہم جمہوری کہہ کر ہمیشہ اپنے آپ کو دھوکہ دیتے رہیں گے،کیا ہمیشہ یہی ہوتا رہے گا کہ جو شخص بھی اِس معاشرے میں حقیقی تبدیلی کی بات کرے گا، ہم پر مسلط گروہ اُس کے خلاف اسی طرح اتحادی بن کر اُسے ناکام بنانے میں کامیاب ہوتے رہیں گے،ہمارا ماضی روشن مستقبل میں کب تبدیل ہو گا؟یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب بھی ہم ہی دے سکتے ہیں اور ہمیں ہی دِینا ہے۔ہمیں درست سمت میں سفر کے لئے خود ہی سوچنا ہے اور اس تبدیلی کے لئے انفرادی سطح پر کام کا آغاز بھی خود ہی کرنا ہے۔ اجتماعیت خودبخود پیدا ہو جائے گی۔