تجارت اور خوشحالی کا جنون ہنزہ کی صورت اور مزاج بگاڑے بغیر پنپ سکے۔ کاش!!
مصنف : عمران الحق چوہان
قسط:144
پ ن :
ہنزہ بدل رہا ہے۔ ہنزہ والے بدل رہے ہیں۔ اب دوئکر کو جانے والے راستے پر ایک پکی اور ہموار سڑک بن گئی ہے جس پر گاڑیاں اڑتی ہوئی گزرتی ہیں۔ ایگلز نیسٹ ایک شاندار ہو ٹل بن چکا ہے جس کا مالک امتیاز شاید دبئی میں رہتا ہے۔ اس کےساتھ ساتھ کئی اور اعلیٰ قسم کے ہو ٹل کھڑے ہو چکے ہیں جو دولت مند مسافروںسے بھرے رہتے ہیں۔ ہر طرف دولت کی ریل پیل اور گاڑیوں کی قطاریں دکھائی دیتی ہےں۔ ایگلز نیسٹ کے ساتھ والی چٹان پر ایک تختی لگا دی گئی ہے جس کے مطا بق وہ سیاح جو اِن مہنگے ہو ٹلوں میں نہیں رہتے انہیں اس چٹان پر چڑھنے اور اس منظر کو دیکھنے کی اجازت نہیں ہے جو کبھی سب کےلئے کھلا تھا۔ وہ ہنزہ جس سے میں واقف تھا تیزی سے بدل رہا ہے۔ کاروباری ہیجان رفتہ رفتہ سادگی، محبت اور کشادہ دلی کی جگہ لے رہا ہے۔ روایت پسند، کشادہ دل پرانی نسل کی جگہ نئی نسل لے رہی ہے جو اپنے بزرگوں سے مختلف ہے۔ ثقافت صرف لباس، زبان اور تعمیرات ہی کا نہیں ایک روئیے اور مزاج کا نام بھی ہے۔ بد قسمتی سے ہنزہ کے لوگوں کا رویہ اور مزاج بھی بدل رہا ہے۔۔۔ سب کچھ بدلنے کےلئے ہی ہے اور بالآخر سب کچھ بدل جاتاہے۔ ہنزہ بھی کو ئی استثنا نہیں ہے۔ اس کا تعلق میری خواہش سے نہیں قانون ِ فطرت سے ہے۔ امید تو نہیںہے لیکن کاش ہنزائی اس تبدیلی کو مری، ناران اور کالام والی تبدیلی بننے سے بچا سکیں۔تجارت اور خوشحالی کا جنون ہنزہ کی صورت اور مزاج بگاڑے بغیر پنپ سکے۔ کاش!!
التیت
التیت ہنزہ کا قدیم دارالخلافہ ہے لیکن داور منعیم خان نے ہمیں ایک اس سے بھی زیادہ اہم اور خوش کن اطلاع دی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ:
”پورے ہنزہ میںالتیت کی عورتیں سب سے زیادہ خوبصورت ہوتی ہیں۔“
اسی لیے اعظم کی ٹیم سارے سفر میں پہلی بار مونھ اندھیرے جاگ گئی تھی اور غسل خانوں میں شیو کرنے اور بال بنانے میں مصروف تھی۔ایک افراتفری مچی ہوئی تھی۔ وہ بہت بری طرح تیار تھے۔ دھوپ کی عینکیں، پر فیوم، تسموںوالے بوٹ۔۔۔ لگتا تھا دولہے کے دوست بارات پر جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔
صبح آنکھ کھلی تو کمرے کے اکلوتے روزن سے تریک کی رقص کرتی شا خوں کے پیچھے آسمان پر بادل نظر آئے۔ اگر چہ گلگت بلتستان میں موسلا دھار بارش کم ہوتی ہے لیکن بادلوں کا یہ نقصان تھا کہ وہ برفیلی چو ٹیوں کو چھپا لیتے ہیں اور منظر کا حسن آدھا بھی نہیں رہتا ۔موسم سرد تھا۔ ہو ٹل میں ہمارے سوا، سارے کورئینز ہی ٹھہرے ہوئے تھے۔ ٹھنڈے پانی سے نہاکر میں کپڑے پہن ہی رہا تھا کہ اچانک برامدے میں بھگدڑ کی آواز آئی اور میں نے چیمے اور احمد علی کو ٹیرس کی طرف بھاگتے اور ”شوکت۔ شوکت“ کے نعرے لگاتے سنا۔
میں نے باہر نکل کر دیکھا۔ ایک کورئین لڑکی، عمر یہی کوئی بیس بائیس برس، صبح سویرے جاگ کر باہر ٹیرس پر کرسی پر بیٹھی ، گود میں چھوٹی سی نوٹ بک رکھے، کچھ لکھ رہی تھی (شاید سفر کے شذرات)۔ اس کے بال سنہری مائل ریشمی تھے،سب کو رئینز کی طرح اس کا رنگ گورا تھا ۔ ایک تو لڑکی، اس پر گورا رنگ اور اس پر ریشمی زلفیں (پطرس کے لفظوں میں ۔۔۔” گویا بہت ہی لڑکی!“۔
احمد علی اور چیمہ دن دہاڑے اور نہار مونھ اس بت ِکافر کو دیکھ کر ہوش و حواس کھو چکے تھے اور اب خود فراموشی و نفسا نفسی کے عالم میں اس کے دائیں بائیں،کرسیوں پر براجمان، اس کا بغور مطالعہ اور مشاہدہ کر رہے تھے۔ ۔ اس کے علاوہ دونوں وہیں سے کمرے میں تیار ہوتے ہوئے غافل اور محروم دوستوں کی سہولت کےلئے بآواز ِ بلند سہلِ ممتنع میںسراپا نگاری بھی کر رہے تھے ۔ وہ دونوں رنگ روپ (”روپ“ محاورتاً لکھا ہے۔ اگر اس کا مطلب ”خوبصورتی“ ہے تو یہاں یہ لفظ قطعی اضافی ہے) کے اعتبار سے ماشاءاللہ ”کافی“گہری رنگت کے تھے اور اس وقت گوری چٹی کورئین لڑکی کے مضافات میں تو بالکل ہی افریقی لگ رہے تھے۔۔میں نے انہیں دسرے سیّاحوں کا احترام کرنے اور وہاں سے فورا ً اٹھنے کےلئے کہا لیکن امکان یہ تھا کہ وہ جس مقام پر تھے وہاں میں انہیں نہ دکھائی دے رہا تھا، نہ سنائی دے رہا تھا۔(جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔