سات سو نجومیوں، علاموں، سنتوں اور سادھوؤں نے حکم لگایا کہ صاحب عالم اٹھارہ مئی کو تین پہر دن چڑھے جنگ کے لئے سوار ہوں اور پھر وہ دن آگیا جو قوموں اور ملکوں کی تاریخوں میں کبھی کبھی آتا ہے اور ملکوں اور قوموں کی تاریخ بدل دیتا ہے۔ خوابوں کو پریشان کردیتا ہے۔ تعبیروں پر پہرے بٹھا دیتا ہے اور تقدیروں پر مہریں لگادیتا ہے۔
یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
قلعہ معلی کے باہر جمنا کے کنارے دارا شکوہ کا مرمریں محل کھڑا تھا جس کی سرخ چہار دیواریوں، سفید گنبدوں اور محرابوں کا عکس پانی میں اس طرح نظر آرہا تھا جیسے سرخ مسند پر چند امیر سفید خلعت زیب تن کئے بیٹھے ہوں۔ پشت محل سے قلعہ معلی تک جمنا کے دونوں کناروں پر ہاتھیوں، گھوڑوں، اونٹوں، بیلوں، خچروں ، سپاہیوں اور سواروں کا ہجوم تھا۔ وارائی پیش خانہ اکبر آباد کے باہر ’’باغ فردوس‘‘ میں آراستہ ہوچکا تھا۔ صبح کی کرن پھوٹتے ہی توپ خانہ ہمر کاب کی بھاری توپیں پچاس پچاس بیلوں کے کندھوں پر سوار ہوکر چل چکی تھیں۔ پہلے پہر کی توپ چھٹتے ہی بادشاہ بیگم (جہاں آرا) دارا شکوہ کو رخصت کرنے کے لئے تشریف لاچکی تھیں۔ دوسرا پہر چڑھتے چڑھتے روشن آرا اور دوسرے شہزادوں اور شہزادیوں کی سواریوں ڈیوڑھی پر لگنے لگی تھیں۔ محل کے روکار سے حد نگاہ تک دارا کی ذات خاص سے وابستہ پچپن ہزار مغل، راجپوت، سید اور اوزبک سوار خود اور بکتر اور چہار آئینہ پہنے ہتھیاروں میں جکڑے گھوڑوں کی راسیں تھامے کھڑے تھے۔ دیوان عام کی شہ نشینوں کے سامنے جگت آچار یہ کبت رائے اور مہاسنت ملکھان داس اپنے سینکڑوں چیلوں اور نجومیوں کے ساتھ آشیر باد دینے کو حاضر تھے۔
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 35 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اندر کنیزیں صاحب عالم کو جہانگیری بکتر اور اکبری خود پہنا چکی تھیں۔ خود کی درمیانی کلغی پر ہیرے کا ملال روشن تھا۔ خاموش جہاں آراء بارگاہ کے اندر آگئی۔ سلطان پرویز کی بیٹی اور داراشکوہ کی اکلوتی بیگم جہاں آرا کے سامنے سے ہٹ گئی۔ پھر صدقات سے بھرے ہوئے سونے چاندی کے خوان سروں پر دھرے ہوئے خواجہ سراؤں کے پرے ایک دروازے سے آتے، صاحب عالم کے دست مبارک کا بوسہ لیتے، اور دوسرے دروازے سے جاتے رہے۔
جہاں آرا جو ممتاز بیگم کے وصال کے بعد سے نہ صرف قلعہ مبارک بلکہ کشو رہندوستان پر احکامات صادر کرنے کی عادی بھی ہوچکی تھی، آج خاموش تھی جیسے کسی ناقابل فہم خوف نے قوت گویائی سلب کرلی ہو۔ جب جی امنڈنے لگتا اور پلکیں نم ہونے لگتیں تو اپنے آپ کو کسی خیال یا کام میں مصروف کرلیتی۔ ایسا ہی ایک لمحہ آگیا۔ ہر چند کہ حسن آرا کے صدقات باریاب ہورہے تھے۔ تاہم وہ خوان پوش ہٹا ہٹا کر اشرفیوں اور روپیوں کے ڈھیر برابر کرنے لگی۔ جب یہ کام بھی ختم ہوگیا اور روش آرا اور حسن آرا کے امام ضامن باندھے جانے لگے تو وہ چونکی اور زریں طباق سے امام ضامن اٹھا کردارا کے آہن پوش بازو پر باندھنے لگی۔ لرزتی کانپتی انگلیوں سے گرہ لگاتے ہوئے رقت کا ایسا غلبہ ہوا کہ شہزادے کے بازو پر سررکھ دیا او رمرصع بکتر کے سینے پر اپنی آنکھوں کے موتی جڑدئیے۔ منہ سے ایک لفظ کہے بغیر پوری قوت سے اپنے آپ کو سنبھال کر دونوں ہاتھوں میں دارا کا چہرہ لے لیا اور خشک ہونٹوں سے خو دکے نیچے جھانکتی ہوئی پیشانی چوم لی اور بجلی کی طرح بارگاہ کے باہر نکل گئی۔
روشن آرا کے باہر جانے کے بعد بیگم جو غلام گردش میں کھڑی قرآن پاک کی تلاوت کررہی تھی، اندر آئی۔ دارا کے سینے پر دم کیا اور سررکھ دیا۔
جگت آچاریہ نے ڈنڈوت کے بعد اپنے ہاتھ سے ماتھے پر تلک لگایا۔ مہاسنتھ نے بائیں بازو پر زرد دانوں کی مالا باندھ دی۔ دربار سے وابستہ ادیبوں، شاعروں، عالموں، صوفیوں، موسیقی اور آلات موسیقی کے ماہروں نے فتح کی دعائیں اور بشارتیں پیش کیں۔ سید جعفر برق انداز خاں میر آتش کے اشارے پر ’’فتح جنگ‘‘نامی ہاتھی سامنے لایا گیا۔ داہنے پیر پر جھک کر سونڈ پیشانی پر رکھی اور چیخ کر سلام کیا۔ نقرئی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی نقارے پر چوب پڑی اور نوبت خانے پر نوبت بجنے لگی۔
***
شہنشاہ تخت طاؤس پر جلوس فرما تھا۔ گزربردار اور شمشیر زن، یساول اور والا شاہی، نقیب، حاجب اور چیلے، خواجہ سرا اور خدمت گار، منصب دارا اور راجگان خواتین اور نوابین دستور کے مطابق اپنی اپنی جگہوں پرممکن عاجزی اور خاکساری کے ساتھ کھڑے تھے۔ امیروں کے وکیل، شعبہ جات حکومت کے معتمد، سائل اور مظلوم اور مظلوموں کے بھیس میں جاسوس سبھوں کا غیر معمولی ازدھام تھا۔ امرائے کبار اپنے مشہور اور مقرب ہمرکابوں کے ساتھ میدان جنگ میں جانے سے پہلے آخری سلام و دیدار کو حاضر تھے۔ ’’گلال بار‘‘ پر دیوان کل کھڑا ہوا نذریں قبول کررہا تھا۔ طوغ و علم، طبل و نقارے، ہاتھ گھوڑے اور مال و جاگیر بخش رہا تھا لیکن بوڑھے شہنشاہ کی نگاہ نوبت خانے کے پھاٹک پر جمی تھی۔ پھر داراشکوہ اپنے خدم و حشم کے ساتھ نمودار ہوا۔ اس کے جلو میں ناقابل شمار کمار اور کنور اور خان اور امیر اور نجیب چل رہے تھے۔ جہاں سے تخت طاؤس نظر آیا وہیں سے کورنش کرتا ہوا آگے بڑھا۔ شہنشاہ کے خدوخال تبسم سے منور ہوگئے۔(جاری ہے )
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 37 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں