تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 37
دارا اپنے تخت پر متمکن ہونے کے بجائے تخت طاؤس کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا۔ ظل سبحانی نے دست خاص سے اس کی نذر قبول کی اور پانچ ہاتھی معہ عماری زریں، سات گھوڑے باساز مرصع، خلعت خاصہ ہفت پارچہ مع تمام رقوم جواہر، ایک لاکھ اشرفی اور دوکروڑ درم کا انعام عطا کیا۔
یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
داراہربخشش پر سلام کرتا رہا۔ مغلوں کے عہد زریں کی یہ پہلی مہم تھی جسے رخصت عطا کرتے وقت شہنشاہ ساکت تھا۔ مہین پور خلاف کو نصیحت نہ کی گئی۔ سپہ سالاروں کو ہدایتیں نہ دی گئیں۔ باغیوں کے ساتھ سلوک کے احکام نافذ نہ ہوئے۔ یتیموں، بیواؤں، بوڑھوں، امان مانگنے والوں، فصلوں اور باغوں اور مکانوں اور دکانوں پر ظلم کی پاداش میں کوئی حد مقرر نہ ہوئی۔ شہنشاہ سر سے پاؤں تک سفید لباس اور محبوب اور مشہور عالم جواہرات پہنے دوزانوں بیٹھا تھا۔ گردن تکیوں سے لگی تھی۔ داہنے ہاتھ میں تسبیح تھی جولرز رہی تھی۔
دیوان عام کے ستونوں کے مانند حاضرین دربار ساکت کھڑے تھے۔ وہ سانس روکے چل رہے تھے کہ دارا نے گزارش کی۔
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 36 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’بندرہ درگاہ کو رخصت عطا فرمائی جائے کہ ساعت قریب آپہنچی۔‘‘
ظل سبحانی جو خلا میں کچھ ڈھونڈھ رہے تھے، چونکہ، دارا پرنگاہ کی۔ کمزور بیمار اور غمزدہ نگاہ کی۔ گل تکیوں پر ہاتھ رکھ دئیے۔ منظرُ ُدیوان کل‘‘ نے سات سلام کئے۔ صاحب بارگاہ کی طرف دیکھا۔ گل بار سے نوبت خانے کھڑے ہوئے نقیبوں نے ایک ساتھ دربار عام کی برخاستگی کا اعلان کردیا۔ ہزاروں سرگھٹنوں تک جھک گئے۔ ہاتھ سلام کرنے لگے۔ پاؤں الٹے چالنے لگے۔
اب دارا کے مقربین خاص اور قلعہ معلیٰ کے مستقل خدمت گزاروں کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ شہنشاہ کے، دارا شکوہ کے بوڑھے باپ کے ہوٹ لرز رہے تھے اور ایک ڈال کی تسبیح کے سبک، سجل، آبدار، موتی ایک کے بعد ایک اسی طرح کانپتی انگلیوں سے گزررہے تھے۔ پھر وہ اعتبار خاں اور مخلص خاں کے مضبوط ہاتھوں کے سہارے اُٹھے۔ آہستہ آہستہ تخت طاؤس کی سیڑھیاں اترنے لگے۔ یہ کہاں معلوم تھا کہ خود اپنے حکم سے بنوائے ہوئے تخت طاؤس سے وہ آخری بار اتررہے ہیں اور پھر کبھی بیٹھنا نصیب نہ ہوگا۔
آخری سیڑھی پر دارا نے سرجھکادیا۔ دونوں ہاتھوں میں چہرہ لے کر سیدھا کیا۔ سینے پر دم کیا۔ پرنم آنکھیں دارا کی مودب آنکھوں میں ڈال دیں اور کھڑے کانپتے رہے ،جیسے لرزے کا حملہ ہوگیا۔ پھر قبلہ روکھڑے ہوئے۔ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر فاتحہ پڑھی۔ چہرے پر ہاتھ پھیرنے کے بہانے آنسو پونچھ ڈالے کہ حاضرین، آداب شہنشاہی سے واقف حاضرین پرر از فاش نہ ہو۔ ہاتھ بڑھا کر دارا کو سینے سے لگالیا۔ ہر چند کہ دارا کے بھاری بکتر کے کانٹے ناتواں اور حریر پوش جسم میں گڑھتے رہے لیکن دیر تک اسے کلیجے سے لگائے کھڑے رہے۔
مقدس ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی ہوتے ہی دارا ایک قدم پیچھے ہٹ کر اتنا جھک گیا کہ اس کی آنکھوں سے چھلکتے ہوئے آنسو ملاحظہ نہ فرمائے جاسکیں۔ سلام ختم ہوگئے لیکن وہ اسی طرح کھڑا رہا۔ جب آنکھوں کے وہ موتی جو تخت طاؤس سے کہیں زیادہ قیمتی تھی، زردوزرقالینوں میں کھوگئے۔ تب دارا نے سراُٹھایا۔ دیوان عام کی سیڑھیوں پر وہ رتھ کھڑا تھا۔ جس پر نجومیوں اور پنڈتوں کے قول کے مطابق سوار ہوکر دکھن کی طرف لڑائی کے لئے نکلنا انتہائی شبھ تھا۔ شہنشاہ نے آنسوؤں سے دھندلی آنکھوں سے آخری بار، شاید ہمیشہ کے رابطے آخری بار دارا کو دیکھا اور ہاتھوں کو اس طرح جنبش دی گویا فرمارہے ہوں۔
’’آج سب کچھ لٹ گیا۔‘‘
دارا ایوان عام کے درمیان سے گزرنے لگا کہ دیوان کلک نے ہاتھ جوڑ کر گزارش کی۔
’’عالم پناہ کے مراحم خسروانہ کا حکم ہے کہ صاحب عام یہیں رتھ پر جلوہ افروز ہوں۔‘‘
دار انے اس اعزاز کے شکرمیں جو کسی مغل شہزادے کو مغل شہنشاہ سے نصیب نہ ہوا تھا، ظل سبحانی کی طرف دیکھا جو گلال بار میں عصا پر دونوں ہاتھ رکھے کھڑے تھے اور سات سلام کئے او راس رتھ پر پاؤں رکھ دیا جس کے پہیے تک سونے کے پتروں سے منڈھے ہوئے تھے۔ چاروں گھوڑے جواہرات میں گندھے ہوئے تھے۔ اس کے سوار ہوتے ہی نوبت خانے کے دہل گرجنے لگے۔ نقارے دھمکنے لگے،نعروں، جے جے کاروں اور مبارک بادوں سے زمین و آسمان بھرگئے۔(جاری ہے )
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 38 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں