عوام دوست پاکستان

    عوام دوست پاکستان
    عوام دوست پاکستان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


  آج کے قیامت خیز دور میں سب سے مشکل کام پیسہ جمع کرنا ہے یا دوستوں کو اکٹھا کرنا۔پیسہ جمع کرنا چاہیں تو بقول ابن انشاء دو جمع دو کا جواب ہمیشہ تین آتا ہے۔دوستوں کو اکٹھا کرنا چاہیں تو لوگ مصروفیات کا بہانہ بنا کر کورا جواب دے دیتے ہیں۔ہماری سیاست کے منظر نامے پر ان دنوں ایک ایسے "کرشماتی" لیڈر دکھائی دے رہے ہیں جو لاکھوں کروڑوں لوگوں کو بار بار سڑکوں پر لانے کا اعلان کرتے ہیں لیکن دو چار سو لوگ آتے ہیں اور زندہ باد، مردہ باد کے نعرے لگا کر دوچار لاٹھیاں کھا کر اور اپنے لیڈر کی سیاست چمکا کر اپنے اپنے گھر کی راہ لیتے ہیں۔مہنگائی نے عام لوگوں کو یہ بات سمجھا دی ہے کہ در اصل یہی اہل سیاست ہیں جو ان کی خراب و خستہ حالت کے ذمہ دار ہیں،اس لیے اب وہ ان کی فرمائش پر اس جوش و خروش کے ساتھ سڑکوں پر نہیں آتے جس طرح آج سے تین یا چار دہائیاں پہلے آیا کرتے تھے۔ہمارے دوست فرخ سہیل گوئندی ان لوگوں میں شامل ہیں جو  دولت بھی جمع کر سکتے ہیں اور دوستوں کو بھی یکجا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن انہوں نے دولت جمع کرنے کی بجائے دوستوں کو جمع کرنے کا فیصلہ کیا۔5 مارچ 2023 کو انہوں نے لاہور میں "عوام دوست پاکستان" کے نام سے ایک نئے فورم کی بنیاد رکھی، اس کے تاسیسی کنونشن میں پورے پاکستان سے ان ادیبوں،شاعروں دانش وروں،سیاسی کارکنوں،صحافیوں، ڈاکٹروں اور ٹریڈ یونینسٹوں کو مدعو کیا جو1973 کے آئین کے تحت عوام کے بنیادی حقوق کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ ان حقوق کے لیے آواز بھی اٹھاتے ہیں۔یہاں کئی ایسے بزرگ بھی موجود تھے جو ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کے تاسیسی اجلاس میں بھی شریک ہو چکے ہیں۔


 اس تاسیسی کنونشن میں آنے والے شرکا سوچ رہے تھے کہ کیا یہ کسی نئی سیاسی جماعت کا ورود ہے؟ لیکن فرخ سہیل گوئندی نے بنیادی اور تعارفی خطبے میں واشگاف انداز میں بتایا کہ عوام دوست پاکستان نہ کوئی این جی او ہے نہ کوئی سیاسی جماعت۔این جی او کا ٹارگٹ بہت محدود ہوتا ہے۔ وہ کسی ایک چیز پر توجہ دیتی ہے اور بیرون ملک سے ڈالر وصول کرتی ہے۔سیاسی جماعت منافقت کا دوسرا نام ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ عوام دوست پاکستان کا لیفٹ رائٹ سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ہم اس فورم کے ذریعے عوام کے ان حقوق کے لیے مسلسل اور مضبوط آواز اٹھائیں گے جو 1973ء کے آئین میں آرٹیکل3 کے تحت مقرر کر دیے گئے ہیں۔


     اگر دیکھا جائے تو آج تمام تر شعور اور علمی و تہذیبی ترقی کے باوجود سب سے زیادہ نقصان عوام ہی کا ہوا ہے۔یہاں سب کچھ عوام کے نام پر کیا جاتا ہے لیکن بے چارے عوام اس کے باوجود اپنی بنیادی ضروریات اور آزادیوں سے محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ چڑیا گھر میں چڑیا کے سوا تمام خوف ناک درندے ہوتے ہیں۔ دانا  چگ کر گزارا کرنے والی چڑیا کے نام پر خوف ناک درندوں کے لیے سالانہ کروڑوں کا بجٹ جاری ہو جاتا ہے۔کچھ یہی حال ہماری پارلیمانی جمہوریت کا بھی ہے۔اسمبلیوں میں جمہور کے نام پر وڈیروں،جاگیرداروں، تاجروں،صنعت کاروں اور کمیشن ایجنٹوں کو بھیجا جاتا ہے۔یہ سب لوگ اپنے حقوق کی حفاظت دل جمعی سے کرتے ہیں۔اپنا نقصان ہونے کا اندیشہ ہو تو یہ سارے بڑے طبقات اکٹھے ہو جاتے ہیں۔عوام کو دکھانے کے لیے یہ اوپر اوپر سے لڑتے رہتے ہیں،ان حالات میں ضروری ہے کہ چڑیا گھر میں چڑیا کو رکھا جائے اور جمہوری اسمبلی میں جمہور کو بھیجا جائے۔یہ کیسے ہو گا؟ اس کے لیے خود عوام کو اپنے اندر تبدیلی لانا ہو گی۔پھلوں اور سبزیوں کی خریداری کے وقت تو عوام بہت محتاط ہوتے ہیں۔انہیں الٹا پلٹا کر بار بار دیکھتے ہیں لیکن اپنے نمائندوں کا چناؤ کرتے ہوئے وہ بالکل لاپروا ہو جاتے ہیں۔عام لوگ کبھی کسی عام آدمی کو ووٹ نہیں دیتے۔اپنے جیسے کسی شخص کو وہ اسمبلی میں لانے کے روادار نہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی طاقت ور آدمی ہی ان کا نمائندہ ہو سکتا ہے۔وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ عام آدمی بھی اسمبلی میں جا کر طاقت ور ہو سکتا ہے۔عوام دوست پاکستان شاید عام لوگوں میں یہی شعور بیدار کرنا چاہتی ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ فورم کے اجلاس اور کنونشن تسلسل سے ہوتے رہیں،پاکستان کے ہر شہر میں ہوں،جس طرح کسی زمانے میں شہر، شہر گاؤں گاؤں سٹریٹ تھیٹر ہوا کرتے تھے اسی طرح عوام دوستوں کو بھی شہر، شہر گاؤں گاؤں نکلنا ہو گا۔آج پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا بہت چرچا ہے۔طلبہ و طالبات بڑی بڑی ڈگریاں لیے پھر رہے ہیں لیکن شعور اور آگاہی کا بحران مسلسل بڑھتا چلا جا رہا ہے۔تاسیسی کنونشن میں شریک ہونے والے لوگ اگر اسی جوش و خروش کے ساتھ فرخ سہیل گوئندی کا ساتھ دیتے رہے تو شعور اور آگاہی کا یہ بحران یقینا کبھی نہ کبھی دم توڑ  ہی جائے گا اور جمہوریت اپنی اصل روح کے ساتھ پاکستان میں جلوہ گر ہوگی۔

مزید :

رائے -کالم -