بجٹ، مالی مشکلات اور اندیشے
مالی سال 2024-25ء کے بجٹ کا اعلان سات جون کو متوقع ہے اور پاکستان کے عوام دم سادھے بیٹھے ہیں، اندیشے انہیں گھیرے ہوئے ہیں۔ پتا نہیں کون کون سے نئے ٹیکس لگ جائیں اور پتا نہیں بجلی اور کتنی مہنگی کر دی جائے۔ انہیں یہ بھی اندیشہ ہے کہ پٹرول کی قیمتیں 300 روپے فی لیٹر سے اوپر نہ چلی جائیں اور گیس کے نرخ کہیں اتنے نہ بڑھ جائیں کہ لوگوں کو پھر سے لکڑی، کوئلے اور اُپلوں کی طرف آنا پڑ جائے۔ ان کا اندیشوں میں مبتلا ہونا بنتا ہے کیونکہ پہلے ہی مہنگائی بہت زیادہ ہے، مذکورہ بالا چیزیں مزید مہنگی ہو گئیں تو کیا ہو گا؟اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ، حالات یہ ہیں بجلی کے بل جو دو، تین سال پہلے تک ڈیڑھ دو ہزار روپے آتے تھے اب بارہ پندرہ ہزار روپے سے کم نہیں آتے،اسی طرح گیس کے گھریلو بل ایک ہزار روپے سے کم آتے تھے جو اب بڑھ کر دو تین ہزار روپے ماہانہ تک پہنچ چکے ہیں اور پیٹرول کی قیمتوں نے تو سال بھر کبھی صارفین کو سکون لینے ہی نہیں دیا، کبھی کم تو کبھی زیادہ، کبھی تخفیف تو کبھی اضافہ، یہ الگ بات ہے،تخفیف کبھی کبھی دیکھنے میں آتی ہے، زیادہ تر اضافہ ہی مشاہدے میں آتا ہے۔ لوگ اس فکر میں ہیں کہ آئی ایم ایف کی ہدایت بلکہ حکم پر بجلی اور گیس کے نرخ مزید بڑھا دیئے گئے تو عام آدمی دو وقت کی روٹی کے اخراجات پورے کرنے کے بھی قابل نہیں رہے گا۔
شنیدہے کہ اگلے مالی سال میں انکم جنریشن اور اخراجات میں کمی پر خصوصی توجہ دی جائے گی تاکہ بجٹ خسارہ کم سے کم ہو۔ علاوہ ازیں معیشت کی ترقی میں کردار ادا کرنے والے سیکٹرز کی گروتھ میں اضافہ کرنا بھی اگلے مالی سال کا ہدف ہے۔ یہ ہدف زراعت، مینوفیکچرنگ اور سوشل سیکٹر میں زیادہ انوسٹمنٹ کے ذریعے حاصل کیا جائے گا۔ مزید یہ کہ بالواسطہ ٹیکسوں کے بجائے براہ راست ٹیکسوں پر زیادہ توجہ دی جائے گی، لیکن یہ سارے معاشیات کے معمے اور معیشت دانوں کے معاملات ہیں، عام آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ (Concern) یہ ہے کہ اگلے مالی سال میں اسے روزگار مل سکے گا یا نہیں؟ آٹا اور گندم مزید سستے ہوں گے یا نہیں؟ سبزیوں اور دالوں کی قیمتیں کچھ نیچی ہو سکیں گی یا نہیں؟انہیں بقر عید کے علاوہ بھی کبھی گوشت نصیب ہو گا یا نہیں؟ اس کے بچوں کو پیٹ بھر کھانا ملتا رہے گا؟ نوبت کہیں فاقوں تک تو نہیں آ جائے گی؟
ہر سال ہوتا تو کچھ یوں ہے کہ آئی ایم ایف حکومت پر دباؤ ڈالتا ہے اور حکومت ریونیو اکٹھا کرنے کے لئے عوام کی جیبوں میں ہاتھ ڈال دیتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک کی کل دولت کا 80 فیصد ایلیٹ یعنی اشرافیہ کے قبضے میں ہے، اس کے باوجود ٹیکس لگتے اور ان میں اضافہ ہوتا ہے تو عام آدمی اس سے براہ راست متاثر ہوتا ہے۔ وہ جو پہلے سے ڈائریکٹ، ان ڈائریکٹ اور ہڈن (Hidden) ہر طرح کے ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ حکومت مزید ٹیکسوں کا بوجھ بھی انہی پر لادے جا رہی ہے۔ وہ خواص (ایلیٹ) جو ملک پر حکمرانی کرتے ہیں ان کے لئے سب کچھ مفت ہے۔ بجلی، پانی، گیس، پٹرول، رہائش اور رہائشوں میں کام کاج اور دیگر خدمات کے لئے رکھے گئے ملازمین، سب کے اخراجات حکومت پورے کرتی ہے اور اس ریونیو سے پورا کرتی ہے جو عوام کی جیبوں سے پائی پائی نکال کر اکٹھا کیا گیا ہوتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ان اخراجات کو پورا کرنے کے لئے ہی حکومت کو زیادہ سے زیادہ ریونیو کی ضرورت پڑتی ہے جو مزید ٹیکس لگا کر پورے کیے جاتے ہیں۔
کورونا کی عالمی وباء اور اس کے بعد روس یوکرین جنگ، دو بڑے عوامل ہیں جن کی وجہ سے پوری دنیا میں افراط زر بڑھا اور کساد بازاری کی صورتحال پیدا ہوئی جو اب تک جاری ہے۔ ہم اپنے ہاں مہنگائی کا رونا روتے رہتے ہیں لیکن وہ جو انڈین فلم کا گانا ہے
دنیا میں کتنا غم ہے اپنا غم کتنا کم ہے
دنیا کا غم دیکھا تو اپنا غم بھول گیا
دنیا بھر میں سب سے زیادہ افراد زر ارجنٹینا میں ہے۔ یہ 2023ء میں 123.99 فیصد تھا،2024ء میں 157.14 فیصد اور آئندہ برس، یعنی 2025ء میں اس کے 62.37 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
ان حقائق سے یہ معلوم تو ہوتا ہے کہ مہنگائی صرف پاکستان میں ہی نہیں ہے دوسرے ممالک میں بھی ہے، لیکن آئندہ مہینوں اور برسوں میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح کم ہونے کے واضح آثار اور امکانات موجود ہیں۔ گذشتہ سال کے تقابل میں پاکستان میں افراطِ زر اس وقت (یعنی 2024ء میں) 24.76 فیصد ہے، لیکن اگلے سال اس کے کم ہو کر 12.5 فیصد پر آنے کی توقع ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2026ء میں یہ افراطِ ز ر 7.57 فیصد ہو گا اور 2029 تک مزید کم ہو کر 6.49 فیصد کی سطح پر آ جائے گا۔ تب تک کچھ صبر سے کام لینا پڑے گا،لیکن میرے خیال میں اس صبر کی صرف عوام سے ہی توقع نہیں کی جانی چاہئے،بلکہ خود حکمرانوں کو بھی اپنے طرزِ زندگی اور طرزِ حکمرانی پر ایک نظر ڈال لینی چاہئے، لیکن صورتحال یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل کفایت شعاری کے لئے بنائی گئی کمیٹی نے نئی سفارشات مرتب کر کے حکومت کے سامنے پیش کر دی ہیں جبکہ گزشتہ کمیٹی نے کفایت شعاری کے جن جامع اقدامات کے سیٹ کی سفارش کی جس سے 10 کھرب روپے سالانہ بچائے جا سکتے ہیں‘ اس کی زیادہ تر سفارشات کو نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ سفارشات مرتب کر کے طاق پر رکھ دینے سے تو معیشت کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتی، اس کے لئے سنجیدگی اختیار کرنا ہو گی، حکومت کو بھی، عوام کو بھی، ان سفارشات پر تو بعد میں عمل ہوتا رہے گا فوری ضرورت یہ ہے آئندہ بجٹ میں:
٭ پٹرولیم مصنوعات‘ بجلی اور گیس کے نرخوں میں ایک سال تک مزید اضافہ نہ کرنے کا اعلان کیا جائے۔ توانائی کے ذرائع کی قیمتیں مستحکم یا منجمد ہوں گی تو مہنگائی کا گراف خود بخود نیچے آ جائے گا۔
٭ سرکاری اور نجی، دونوں سیکٹرز کی تنخواہوں اور پنشن میں کم ازکم 20 فیصد اضافہ کیا جائے، کیونکہ مہنگائی اس سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔
٭ زرعی اور صنعتی سیکٹرز پر فوری توجہ دی جائے کہ زراعت ہمیں خوراک میں خود کفیل بنائے گی جبکہ صنعتی برآمدات سے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا۔
٭ مہنگائی پر قابو پانے کے لئے منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں پر آہنی ہاتھ ڈالا جائے اور پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو پوری طرح مستعد کیا جائے۔
٭ حکومت کا 200 یونٹ تک کے بجلی صارفین کو ریلیف دینے کا فیصلہ احسن ہے۔اسی طرح کے مزید اقدامات ہونا چاہئیں۔ یہ رعایت گیس پر بھی ملنی چاہئے۔
٭ اداروں کی نجکاری سے جو رقوم حاصل ہوں بجٹ خسارہ پورا کرنے پر صرف کرنے کے بجائے ان کو زرِمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لئے قومی خزانے میں رکھا جائے۔