ایک تصویر نے سب کچھ بدل دیا
یہ سن کر بڑی تکلیف ہوتی تھی کہ معاشرے میں اب استاد کی عزت نہیں رہی،حالانکہ 38سال تک درس و تدریس کے ساتھ وابستہ رہنے کے دوران مجھے کسی ایک دن بھی یہ احساس نہیں ہوا کہ میں اب بے توقیرہو گیا ہوں۔ یہ تاثر بھی نجانے کیوں پایا گیا یا پھیلایا گیا کہ آج کے شاگرد اپنے اساتذہ کی عزت نہیں کرتے۔ مجھے تو زندگی بھرکوئی ایک شاگرد بھی ایسا نہیں ملا جو اس طرح کا بدقسمت ہو، آج بھی یہ حال ہے کہ بیس بیس سال پرانے شاگرد بھی ملتے ہیں تو عزت و احترام کی حد کر دیتے ہیں۔ معاشرے میں استاد کے مقام کو نیچا کرنے کی سازش بھی شاید اسی مہم کا حصہ ہے جس کے تحت ہماری معاشرتی اقدار کو نشانہ بناکر ہمیں بنجر معاشرہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ایک عرصے سے میں سوچ رہا تھا اس موضوع پر کچھ لکھوں لیکن پھر سوچتا تھا جو لہرچلی ہوئی ہے، اس میں بغیرکسی بڑی مثال کے کوئی بات کی تو شیخی اور مبالغے کے زمرے میں آئے گی تاہم ایک روز پہلے مجھے اس کی ایک بڑی مثال مل گئی تو میں نے سوچا اب بات سمجھانے میں آسانی رہے گی۔ دو دن پہلے اورینٹل کالج لاہور سے پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحسن اپنی مدت ملازمت پوری کرکے سبکدوش ہوئے۔ وہ ایک بالغ نظر نقاد، محقق، مفکر اور استاد ہیں جس دن ان کی ملازمت کا آخری دن تھا وہ اورینٹل کالج لاہور سے سبکدوشی کے بعد گھر پہنچے تو انہیں حیران کن منظر دیکھنے کو ملا ان کے شاگردوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہاتھوں میں پھولوں کے بکے لئے قطار اندر قطار موجود تھی، سب اشکبار آنکھوں سے محبت کا نذرانہ پیش کررہے تھے، یہ منظر دیدنی تھا اور میرے نزدیک اس موقع کی کوئی ویڈیو تلاش کرکے تمام ٹی وی چینلوں کو ایک بڑی خبر کے طور پر چلانی چاہیے۔ ضروری نہیں کہ ہر منفی خبر کو مرچ مصالحہ لگاکے دکھایا جائے ان خبروں کو بھی نمایاں ہونا چاہیے جو معاشرے کی مثبت اقدار و روایات کا عکس جمیل پیش کرتی ہیں۔ اب سوشل میڈیا پر ڈاکٹر ضیاء الحسن کی ایک تصویر ٹرینڈ بنی ہوئی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں شیئر کی جا چکی ہے، اس تصویر میں ایک خاص بات ہے، وہ خاص بات ہمارے ہاں پھیلائے جانے والے اس پروپیگنڈے کا پوسٹ مارٹم کر رہی ہے جس میں کہا جاتا ہے پاکستانی سوسائٹی میں طالب علم اور استاد کے رشتے میں احترام اور محبت کا عنصر غائب ہو چکا ہے۔
اس تصویر میں ڈاکٹر ضیاء الحسن اپنے ڈرائنگ روم میں قالین پر بیٹھے ہیں ان کے اردگرد، آگے پیچھے پھولوں کے گلدستوں کی ایک دکان سی سجی نظر آتی ہے، یہ وہ پھول ہیں جو ان کے شاگردوں نے انہیں پیش کئے،اورینٹل کالج شعبہ اردو کے طلبہ و طالبات نے ایک تاریخ رقم کر دی۔ اس تصور کو ملیا میٹ کر دیا جو جان بوجھ کر پھیلایا گیاجس کے ذریعے استاد کے منصب کو نشانہ بنا کے نئی نسل کو گمراہ کرنا تھا،اسی ڈرائنگ روم میں ڈاکٹر ضیاء الحسن نے اپنی تصویر کے ساتھ اپنے استاد،عظیم نقاد اور محقق ڈاکٹر سجاد باقر رضوی کی تصویر بھی لگا رکھی ہے جو استاد کے احترام کی اس روایت کے تسلسل کا پتہ دیتی ہے جو کل ڈاکٹر سجاد باقر رضوی کے حصے میں آئی تھی۔ آج ڈاکٹر ضیاء الحسن کے حصے میں آئی ہے،اس پر مجھے اپنے دور طالب علمی کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ نصرت الاسلام ہائی سکول ملتان کینٹ میں ہمارے ایک استاد عبدالمجید صاحب ہوتے تھے۔ جب میں میٹرک میں تھا تو ان کی ریٹائرمنٹ کا دن آ گیا۔ وہ بہت مقبول اور بہترین استاد تھے۔ ریاضی کے مضمون پر انہیں مکمل دسترس تھی اس دن جونہی وہ سٹاف کی طرف سے الوداعی تقریب کے بعد فارغ ہوئے تو ہم کم از کم ڈیڑھ سو طالب علم تھے جو پھولوں کے ہار لے کر ان کے انتظار میں کھڑے تھے۔ وہ پیدل چلنے کے عادی تھے اور تقریباً ڈیڑھ کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے آتے جاتے تھے، جب وہ سکول گیٹ سے باہر نکلے تو ہم سب نے ان کے ساتھ گھر تک جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ بہت روکتے رہے لیکن ہماری محبت کے آگے ہتھیار ڈال دیئے۔ ہم کینٹ، چوک عزیز ہوٹل اور ڈبل پھاٹک سے گزرتے ہوئے ان کے گھر تک گئے۔ مجھے یاد ہے اس وقت بھی ان کی بیٹھک کا منظر وہی تھا جو کل ڈاکٹر ضیاء الحسن کے ڈرائنگ روم کا تھا۔ ہر طرف پھول ہی پھول بکھرے ہوئے تھے۔مجھے یاد ہے اس وقت وہ خاصے جذباتی ہو گئے تھے۔ان کی آنکھوں میں نمی بھی صاف دیکھی جا سکتی تھی۔ پھر انہوں نے ہمیں کہا بھئی آپ سب جائیں۔اب میں کچھ آرام کروں گا لیکن ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ اگر آپ نے اپنی زندگی میں استاد کا احترام اسی طرح جاری رکھا تو آپ کو زندگی میں کبھی ناکامی نہیں ہوگی، یہ احترام آپ کی زندگیوں میں لوٹ کر آئے گا۔ ڈاکٹر سجاد باقر رضوی نے بھی شاید ڈاکٹر ضیاء الحسن کو اپنی زندگی میں یہی بات سمجھائی ہو، جو انہوں نے پلے باندھ لی اور آج وہ خود استاد کے منصب سے سبکدوش ہوئے ہیں تو وہ احترام ان کی طرف لوٹ کر آیا ہے جو انہوں نے اپنے اساتذہ کو دیا۔
ایک مضبوط اور مستحکم معاشرے کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں؟ یہی رشتے تو ہیں جو اسے ایک حسن ترتیب سے یکجا رکھتے ہیں جس طرح انسانی جسم اجزاء کے توازن کا نام ہے۔اسی طرح معاشرتی توازن بھی دو چیزوں پر استوار ہوتا ہے۔ایک انسانی رشتے اور دوسرا استاد اور شاگرد کا تعلق۔ انسانی رشتوں میں شکست و ریخت آئے تو معاشرہ ٹوٹنے لگتا ہے اور اگر استاد شاگرد کا تعلق کمزور پڑ جائے تو علم کی ترسیل اور تہذیب کا سفر رک جاتا ہے۔ ہم ہمیشہ اکا دکا واقعات کی بنیاد پر منفی پہلوؤں کو نمایاں کرتے ہیں اور جو بڑی مثبت حقیقتیں ہیں انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں مثلاً ہمارا خاندانی نظام آج بھی مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہے جبکہ اہلِ مغرب اس سے محروم ہو چکے ہیں اور انہیں اگلی نسل کے شناخت کے بحران کا سامنا ہے۔ ہم کسی ایک واقعہ کو دیکھ کے جیسے لاہور میں ہوا، ایک بیٹے نے باپ کو قتل کر دیا۔ یہ تصور کر لیتے ہیں معاشرہ بھٹک گیا ہے حالانکہ ایسی کروڑوں مثالیں موجود ہیں جن میں ہمارے بچے والدین پر جان چھڑکتے ہیں اور واقعتاً باپ اور ماں کے پاؤں دھو دھو کے پیتے ہیں۔ اب اس میں ایک پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور وہ ہے تربیت۔ تربیت یہ نہیں کہ آپ کرپشن کے ذریعے دولت کے انبار لگاتے جائیں اور اپنے بچوں کو ایمانداری کی تلقین کریں۔ تربیت عملی مثالوں ہی سے پروان چڑھتی ہے۔ ہمارا تو بحیثیت مسلمان ایمان بھی یہی ہے کہ اگر رزق حلال سے تربیت و پرورش نہ کی تو لاکھ نصیحتیں بھی اولاد کو بگڑنے سے نہیں روک سکیں گی۔
٭٭٭٭٭