افغان صدر کی ہرزہ سرائی، حقائق سے نا آشنائی

افغان صدر کی ہرزہ سرائی، حقائق سے نا آشنائی
 افغان صدر کی ہرزہ سرائی، حقائق سے نا آشنائی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کوئی شک نہیں کہ افغانستان38برسوں سے پاکستان کے لئے روگ بنا ہُوا ہے۔1979ء میں روسی افواج نے افغانستان پر حملہ کیا تو لاکھوں افغان مہاجرین نے پاکستان کا رُخ کیا، پاکستان نے نہ صرف اپنے منہ کا نوالہ افغان مہاجرین کو کھلایا،بلکہ افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلا کے لئے ایک بڑی جنگ لڑی، یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر پاکستان روسی افواج کو بھگانے کے لئے بڑے پیمانے پر جنگی حکمت عملی نہ اپناتا تو افغانستان کسی بھی طرح روس سے چھٹکارا حاصل نہ کر سکتا۔بات یہیں نہیں رُکی،روسی فوجوں کے انخلا کے بعد افغانوں کے اندر اقتدار کی ایک لمبی جنگ شروع ہو گئی اور یوں افغان مہاجرین کا بوجھ پاکستان کی سرزمین سے کم نہ ہُوا۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر گرنے کے بعد نیا تماشا لگ گیا، امریکہ اپنے اتحادیوں سمیت افغانستان میں ڈیرہ جمانے آ گیا اور خطے کا امن مزید بکھر کر رہ گیا، افغان مہاجرین کی ایک نئی، مگر بہت بڑی کھیپ پاکستان آن پہنچی۔ افغانوں نے جس تھالی میں کھایا، اسی میں بار بار چھید کیا، جن ہاتھوں نے انہیں کھلایا یہ ظالم انہی ہاتھوں کو کاٹنے کی کوشش میں رہے۔

دُنیا گواہ ہے کہ ہمارا ایک کلچر تھا، ایک تہذیب تھی،ہم فن و آرٹ کے شیدائی تھے،لیکن بار بار کی افغان بدامنی ہماری تہذیب و ثقافت کو ہی کھا گئی۔ بم دھماکوں، خود کش حملوں کا کبھی نام تک نہ سُنا تھا، مگر افغانستان کی بربادیاں اور جنگ و جدل ہمارے لئے بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے تحفے لے آئی۔ سینما، تھیٹر، فلم انڈسٹری تباہ و برباد ہو گئی، میلے ٹھیلے اجڑتے چلے گئے، کرکٹ سمیت تمام کھیلیں نظر بد کا شکار ہو گئیں۔ نئی نسل پاکستان کے مستقبل سے مایوس ہو گئی اور دیارِ غیر میں نوکریوں کے لئے دھکے کھانے لگی، یہ سب اذیتیں ہمیں افغانستان کی بار بار کی بدامنیوں اور جنگوں کی وجہ سے ملیں، مگر افسوس کہ جس افغانستان کے لئے ہم نے اپنے آپ کو داؤ پر لگایا وہی ہمیں آنکھیں دکھانے لگا۔


گزشتہ دِنوں کابل میں منعقدہ23ممالک کی امن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان کے صدر اشرف غنی نے پاکستان کے خلاف مضحکہ خیز ہرزہ سرائی کی۔ افغان صدر کہہ رہے تھے کہ پاکستان، افغانستان میں پراکسی وار لڑ رہا ہے،طالبان کو افغانستان میں دفتر کھولنے کی آفر کراتے ہوئے اشرف غنی بار بار پاکستان پر حملہ آور ہوئے اور کہتے رہے کہ سمجھ نہیں آ رہا کہ پاکستان آخر چاہتا کیا ہے۔ افغان صدر کانفرنس کے شرکاء سے بھی سوال کرتے رہے کہ آخر افغانستان پاکستان کو کیسے قائل کرے کہ وہ ہمارے مُلک پر غیر اعلانیہ جنگ مسلط نہ کرے؟


افغان صدر کی ہرزہ سرائیوں اور مضحکہ خیزیوں کا جواب پاک فوج نے خوب دیا ہے۔سپیشل کور کمانڈر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ افغانستان ہمیں دھمکیاں دینے اور الزام تراشیوں سے باز رہے اور اپنے مُلک کے اندر خلفشار دور کرے، کور کمانڈرز اجلاس میں اشرف غنی کی ہرزہ سرائیوں کو سختی سے مسترد کیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ اِس بات کا عندیہ بھی دیا گیا کہ پاکستان افغانستان کو اپنا بہت قریبی ہمسایہ مُلک سمجھتا ہے، افغانستان میں استحکام پورے خطے کے لئے ناگزیر ہے اور افغانستان میں امن و استحکام کے لئے ہر ممکن کوششیں کرتا رہے گا۔


یہ بات پورے وثوق اور کسی بھی قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہو کر کہی جا سکتی ہے کہ افغانستان بھارت کوخوش کرنے کے لئے بارہا پاکستان پر الزام تراشیاں کرتا رہا ہے۔ آج کے اشرف غنی ہوں یا کل کے حامد کرزئی سبھی بھارت نواز ہیں۔ بھارت جو بولی بولتا ہے وہ حامد کرزئی اور اشرف غنی کی آواز بن جاتی ہے، 38برسوں سے جاری افغان عدم استحکام نے پاکستان کو گہرے زخم دیئے ہوئے ہے۔ اس جنگ میں دہشت گردوں نے ہمارے سکولوں، کالجوں سمیت ہر شہر کو داغدار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہمارے بچوں تک کو انتقام کا نشانہ بنایا ہے۔ 38برسوں سے پاک فوج افغانستان اور اس سے ملحقہ سرحدوں پر نبردآزما ہے، ہزاروں شہداء کی قربانیاں اِس بات کا واضح اور روشن ثبوت ہیں کہ ہم نے اِس قریبی برادر ہمسایہ مُلک کی وجہ سے کس قدر صدمے اٹھائے ہیں، اپنی معاشی، معاشرتی، سیاسی، اقتصادی اور اخلاقی تباہی پر کس حد تک افسردہ ہیں،لیکن ہم نے اپنے اتنے بڑے نقصان کے باوجود کبھی برادر مُلک کے لئے ماتھے پر بل نہیں ڈالا، کبھی افغان مہاجرین کو اپنے لئے بوجھ تصور نہیں کیا، اِس کے باوجود کہ افغان باشندے ہجرت کی آڑ میں ہمارے مُلک میں سینکڑوں برائیاں لے کر آئے، ہیروئن، چرس، کوکین سمیت نجانے کتنی نشہ آور پراڈکٹس ہمارے ہاں متعارف کروائی گئیں، ہمارے معاشرے میں ناجائز اسلحہ کی بھرمار ہوئی، اِن تمام برائیوں کے باوجود ہم صابر رہے، ہمیں کیا پڑی ہے کہ ہم افغانستان میں کسی طرح کی پراکسی وار لڑیں یا برادر مُلک میں عدم استحکام کی صورتِ حال پیدا کریں۔یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ افغانستان میں امن ہمارے لئے باعثِ رحمت ہے۔ پاکستان میں اب تک ہونے والے خود کش اور بم حملے افغانستان سے تعلق رکھنے والے افراد اور گروہوں کی طرف سے ہی ہوئے ہیں۔


اگر افغانستان میں امن قائم ہوتا ہے تو اس کا دوسرا مطلب یہی لیا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں امن اور استحکام قائم ہو گیا، اشرف غنی کو اِس بنیادی نقطہ کو سمجھنا چاہئے اور سوچنا چاہئے کہ افغانستان کو عدم استحکام کا شکار کر کے پاکستان کو کیا ملنے والا ہے؟ ہم کبھی نہیں چاہیں گے کہ افغانستان میں افراتفری اور انتشار ہو، افغانستان کا انتشار اور افراتفری ہمارے لئے زہر قاتل ہے کون پگلا چاہے گا کہ اپنے ہاتھوں زہر پیئے، یقیناًاشرف غنی کو ان سطور پر سوچنا ہو گا اور بھارت جیسے شاطر دوستوں کے چنگل سے نکلنا ہو گا، جو اپنے مفادات کی خاطر افغان لیڈر شپ کے ذہنوں میں پاکستان کے خلاف زہر بھر رہا ہے اور پاک افغان سرحد کو غیر محفوظ کر کے اپنے مفادات حاصل کر رہا ہے۔ 38سالہ عدم استحکام کی فضا نے پاکستان اور افغانستان کو بے حد نقصان پہنچایا ہے،جبکہ بھارت جیسے مکار ہمسایوں نے اس فضا کا بھرپور مزہ لیا ہے، اب بھی وقت ہے کہ افغانستان بھارت کی کاسہ لیسی سے باہر نکلے، اپنے مسائل کو بھرپور انداز میں سمجھے اور پاکستان سے مل کر اپنی بقاء کی جنگ لڑے۔اب بھی وقت ہے کہ افغانستان، پاکستان کی مدد اور تعاون سے اِس خطے میں دہشت گردوں کا صفایا کرے اور پاک فوج کے عظیم آپریشن ردّالفساد کا حصہ بن جائے۔ یہ وقت الزام تراشیوں، مضحکہ خیزیوں اور ہرزہ سرائیوں کا نہیں، بلکہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مل کر کام کرنے کا ہے تاکہ دونوں ممالک کی آنے والی نسلیں پوری طرح محفوظ اور پُرامن ہوں۔

مزید :

کالم -