سگریٹ پر ٹیکسوں کی بھرمار ضروری کیوں؟

سگریٹ پر ٹیکسوں کی بھرمار ضروری کیوں؟
سگریٹ پر ٹیکسوں کی بھرمار ضروری کیوں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


حالیہ دنوں میں کئی ایسی خبریں نظر سے گزری ہیں جن میں سگریٹ مہنگے ہونے سے ان کی فروخت میں کمی کا رونا رویا گیا ، یہ یقینا معاشرے کے لیے ایک اچھی خبر ہے بلکہ بجلی ، گیس اور دیگر اشیائے ضروریہ پر ٹیکس لگانے کے بجائے ان کا ٹیکس بھی سگریٹ اور کاربونیٹڈ ڈرنکس جیسی مضر صحت مصنوعات پر لگاکر ایف بی آر کا کوٹہ پورا کرلینا چاہیے ، ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سگریٹ نوشی کرنے والوں کی تعداد 31 ملین تک جاپہنچی  ہے جن میں سے ہر سال ڈیرھ لاکھ سےزائد افراد ایسی بیماریوں کی وجہ سے زندگی سے ہاتھ دھو رہے ہیں جن کی وجوہات میں سے ایک تمباکو نوشی بھی ہے ۔ 


سرکاری سطح پر سگریٹ وغیرہ کی تشہیری مہم پر پابندی اور سگریٹ کی ڈبیوں پر انتہائی کراہت آمیز تصاویر بھی چھپوانے کی پابندی لگوائی گئی لیکن مہذب دنیا کے برعکس پاکستان جیسے ممالک میں کام کرنیوالی کمپنیوں نے بھی اس کا توڑ نکال لیا اور کبھی کسی بس سٹاپ پربرانڈنگ مل جاتی ہے تو کبھی خوبرو لڑکیوں کی خدمات حاصل کرکے سروے کے نام پر سگریٹ پان فروخت کرنیوالے سٹال اور کھوکھوں کے باہر کھڑا کردیا جاتا ہے یعنی  تمباکو کی صنعت نے اپنے کاروبار کو وسعت دینے ،پاکستانی نوجوانوں اور بچوں کو اپنی نقصان دہ مصنوعات کی طرف راغب کرنے کے لیے ہر شرمناک طریقہ اپنایا۔ 


سرکار کی طرف سے سگریٹ نوشی کی ممانعت کیلئے یہ بھی پابندی عائد ہے کہ بلوغت کی عمر سے پہلے بچوں کو سگریٹ فروخت نہ ہوں لیکن یقیناً آپ بھی مختلف مقامات پر کم لڑکوں اور مختلف سکول و کالجز کے بچوں کےسوٹے لگانے کے عینی شاہد ہوں گے کیونکہ بیچنے والوں کو زیادہ سے زیادہ فروخت یقینی بنا کر کمپنی اوراس  کے نمائندوں کے سامنے اپنےآپ کو کامیاب ری سیلرقرار دلوانا اور اس کے بدلے ملنے والی مراعات یا پھر زیادہ سے زیادہ پیسہ اینٹھنا مقصود ہے ، سگریٹ بیچنے والوں کو تو چھوڑیں ، اب تو تعلیمی اداروں میں منشیات بھی باقاعدہ سپلائی ہونے کی خبریں آچکی ہیں، یہ پابندی عملی طورپر کہیں دکھائی نہیں دیتی ، کہیں کاغذوں کی فائلوں کے ڈھیر تلے دب چکی ہے ۔ 


قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے اور سگریٹ معمولی سی رقم کے عوض مل جانے کی وجہ سے روزانہ سینکڑوں بچے ایک دھوئیں کی دنیا کا حصہ بن رہے ہیں ، یہ صرف اس بچے جس نے کل ایک خاندان کو سہارا دینا ہے ، اس کا ذاتی مسئلہ نہیں بلکہ معاشرے کیلئے بھی وہ ایک ناسور بن رہاہے ۔ 


ماہرین کا خیال ہے کہ مختلف جرائم میں گرفتار ہونیوالے نشئی افراد میں سے اکثریت نے سگریٹ نوشی اور پان نسوار سے ہی اس نئی مگر انتہائی خطرناک دنیا میں قدم رکھا تھا ، آہستہ آہستہ آگے بڑھتے چلے گئے اور پھر مارکیٹ میں نئی آنیوالی منشیات کو منہ لگانے تک جاپہنچے۔۔۔ پھر ظالم ایسی لگی کہ جان ہی نہ چھوٹی اور اس کی ضرورت پوری کرنے کے لیے جرائم کی دنیا میں آدھمکے ۔ 


یہ صرف یہاں تک محدود نہیں، ایسی سرگرمیوں کی وجہ سے کسی نہ کسی حدتک صحت کا محکمہ بھی متاثر ہوا اور اس پر پڑے بوجھ میں مزید اضافہ ہوچکا ہے ،تمباکونوشی سے جڑی بیماریوں کے علاج کیلئے کسی نہ کسی سٹیج پر ہسپتالوں سے رجوع کرنا ہی پڑتا ہے  اور خاندان کو الگ اذیت سے دوچار کرتے ہیں، وہ بھی ایک ایسے کڑے وقت میں جب ایک متوسط فیملی کیلئے دو وقت کی روٹی مشکل ہوچکی ہے ،سونے پر سہاگہ بجلی اور گیس وغیرہ سمیت دیگر بلزہیں جن کی ادائیگی دوبھر ہوچکی ہے ، ایسے میں ریاست کوچاہیے کہ سگریٹ جیسی غیر ضروری اشیا پر وہ ٹیکس بھی لگادیں جو ایک عام شہری کیلئے پریشانی کا سبب ہیں تاکہ حکومت اور ریاست کا نظام چلانے کیلئے ٹیکسز کے اہداف بھی متاثر نہ ہوں اور معاشرے بلکہ پورے نظام کیلئے مشکلات کا سبب بننے والوں کی حوصلہ شکنی ہو اور معاشرہ مثبت سمت میں آگے بڑھ سکے ۔

۔

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔

مزید :

بلاگ -