سید حسین احمد مدنی ؒ کے مرشد:مولانا غلام محمد دین پوری

سید حسین احمد مدنی ؒ کے مرشد:مولانا غلام محمد دین پوری
سید حسین احمد مدنی ؒ کے مرشد:مولانا غلام محمد دین پوری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دین پور ضلع رحیم یار خان کا چھوٹا سا قصبہ ہے، جو تحصیل خان پور میں واقع ہے۔ یہ قصبہ اگرچہ چھوٹا سا ہے، لیکن عظمت کے اعتبار سے بہت بلند ہے۔ یہاں ایک قبرستان ہے، جس میں قبروں کی تعداد سو سے کچھ زائد ہے۔ بڑے بڑے لوگوں نے اس قبرستان میں دفن ہونے کی خواہش کی، جن کے لواحقین نے ان کی خواہش کو پورا کیا اور ان کو دور دور سے لا کر اس جگہ دفن کرنے کو سعادت خیال کیا۔ دین پور کے قبرستان میں بلوچستان اور پنجاب کے دور دراز علاقوں کے مرحومین کی قبروں کو عاجز نے خود دیکھا اور وہاں فاتحہ خوانی کی۔ یہاں مدفون بڑی شخصیات میں مولانا عبید اللہ سندھی ؒ ، مولانا سراج، مولانا عبدالہادی، مولانا لال حسین اختر، مولانا عبداللہ درخواستی جیسے عظیم سپوت شامل ہیں۔


مولانا غلام محمد کو بانی دین پور کہا جاتا ہے۔ آپ کا اصل وطن جھنگ تھا۔ مولانا غلام محمد خلیفہ غلام محمد کے نام سے معروف ہیں۔ آپ کا تعلق رند بلوچ خاندان سے ہے۔آپ کے آباؤاجداد مکران و سیستان کے علاقے سے مغل بادشاہ ہمایوں کے ساتھ بطور فوجی آئے تھے، جنہوں نے مغل بادشاہوں کے کھوئے ہوئے اقتدار کو دوبارہ بحال کرایا، اور ہمایوں کو دہلی کے تخت پر متمکن کیا۔اس کامیابی پر ہمایوں نے اپنے لشکر میں موجود رند بلوچوں کو جاگیریں عطا کیں اور ان کو مختلف علاقوں میں آباد کیا۔ زیادہ تر رند بلوچوں کو ضلع جھنگ اور ضلع ساہیوال کے علاقوں میں بسایا گیا۔ ان بلوچوں میں سردار عاقل خان کو خاصی شہرت ملی۔ اس کی اولاد ضلع جھنگ میں دریائے جہلم کے کنارے آباد ہوئی اور خوب پھلی پھولی، اور عاقی یا آکیانہ کے نام سے مشہور ہوئی۔


سردار عاقل خان کے بعد اس کا بیٹا سردار محمد عالم خاندان کا سربراہ بنا۔ اِسی کے نام پر جھنگ میں موضع عالماں موجود ہے، جو دو حصوں،یعنی موضع عالماں شرقی اور موضع عالماں غربی کے نام سے معروف ہے اور خوب آباد ہے۔ اِسی خاندان کی سربراہی نسل بعد نسلِ سردار نور محمد کو ملی۔ سردار نور محمد خدا ترس درویش منش آدمی تھے۔ان کا میلان طبع مذہب و تصوف کی جانب زیادہ تھا۔ اپنی افتاد طبع کے نتیجے میں انہوں نے اپنی زمین کھیتی باڑی کی جملہ مصروفیات اپنے بڑے بیٹے سردار محمد اسماعیل کے سپرد کیں اور خاندان کے دیگر افراد اوربیوی بچوں کو لے کر ہجرت کے لئے رختِ سفر باندھا، اور حجاز مقدس میں مستقل سکونت اختیار کرنے کا ارادہ کیا۔ یہ قافلہ موجودہ رحیم یار خان کے علاقے خان پور ہی پہنچا تھا کہ سردار نور محمد کی زندگی کے ایام پورے ہو گئے، وقت اجل آن پہنچا، ان کی وفات خان پور کے علاقے میں ہو گئی۔ بیوی، بچے یتیم ہوئے، اور خان پور کے مضافات ہی میں ٹھہر گئے۔ آپ کی اولاد میں ایک کمسن بچہ غلام محمد نام کا تھا۔ بعد میں یہی خلیفہ غلام محمد کے نام سے معروف ہوا۔ شوہر کے انتقال کے بعد والدہ نے اپنے بچے کی تربیت میں خوب محنت سے کام لیا۔ دینی تعلیم دلائی۔غلام محمد کی پیدائش موضع عالماں خان شرقی ضلع جھنگ میں 1835ء میں ہوئی۔کچھ والد کے وراثتی انداز دوسرے والدہ کی تربیت اور نیک طبعی میلان کے سبب آپ کو تصوف سے خاص دلچسپی تھی۔


خان پور کا علاقہ صوبہ پنجاب کی آخری حدود میں واقع ہے۔ اس کے بعد صوبہ سندھ کا آغاز ہو جاتا ہے۔ خان پور سے 60،70میل کے فاصلے پر سندھ کا موضع بھر چونڈی شریف ہے یہاں حافظ محمد صدیق نام کے ایک بزرگ رہائش پذیر تھے۔حافظ محمد صدیق کے تقویٰ، پابندی شریعت، اور صاحب کرامت بزرگ ہونے کے چرچے صوبہ سندھ اور پنجاب کے مضافات میں دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔مولانا غلام محمد بھی ان سے متاثر تھے، اور گاہے بگاہے بھر چونڈی تشریف لے جاتے اور ان کی خدمت میں رہتے تھے۔ حافظ محمد صدیق ؒ نے مولانا غلام محمد کی باطنی صلاحیتوں کو پرکھ لیا اور خوب تربیت کی۔ پھر وہ وقت آیا کہ غلام محمد حافظ محمد صدیق ؒ ہی کے ہو رہے۔ حافظ محمد صدیق شاہ حسن جیلانی کے خلیفہ تھے، جن کا شجرۃ سلوک و طریقت نقشبندیہ ہے۔ خلیفہ غلام محمد مذکور حافظ محمد صدیق ہی کے فیض یافتہ تھے۔مولانا احمد علی لاہوری ؒ بھی خلیفہ غلام محمد ہی کے فیض یافتہ ہیں۔ یہی خلیفہ غلام محمد دین پورکے بانی ہیں۔ ان کا مدفن دین پور کے قبرستان میں ہے، اور غالباً یہ پہلی قبر ہے، جو یہاں بنی اور بے شمار لوگوں نے قصداً اس جگہ دفن ہونا پسند کیا۔


غلام محمد کی پیدائش1835ء میں ہوئی اور انتقال 1936ء میں ہوا۔ اس طرح آپ کی عمر101 سال ہوئی۔ تحریک ریشمی رومال میں آپ کا بھی فعال کردار رہا۔ انگریز ہر کارے اس ریشمی رومال کی تلاش میں دین پور بھی آئے، گھر کا کونہ کونہ چھانا، لیکن اس اہم رومال تک ان کی رسائی نہ ہو سکی۔ یہ الٰہی نظام تھا، جس ڈبے میں یہ رومال موجود تھا، اتفاق کی بات چھوٹی بچی نے اس ڈبے میں اپنی کھیل کی گڑیا اور گڑیا کے کپڑے رکھ دیئے تھے۔ اس طرح وہ ریشمی رومال ان گڑیوں کے نیچے آ گیا۔ انگریز گماشتے اسے گڑیوں کے کھلونے سمجھ کر چھوڑ گئے۔شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ نے خلیفہ غلام محمد کے بارے میں اپنی خود نوشت ’’سوانح نقش حیات‘‘ میں لکھتے ہیں۔ مولانا ابو السراج خلیفہ غلام محمد صاحب دین پوری مرحوم، موضع دین پور شریف علاقہ خان پور، ریاست بہاولپور کے باشندے اور حضرت حافظ محمد صدیق صاحب ؒ بھر چونڈی شریف کے خلیفہ اول تھے ان اطراف میں ان کی بہت شہرت تھی۔ بہت زیادہ لوگ ان سے بیعت ہو کر مستفید ہوتے ۔


دین پور شریف بھی اس تحریک آزادی کا مرکز ثانوی تھا،جس کے صدر مولانا ابو السراج صاحب موصوف تھے، آپ کے صاحبزادے اور خدام مشن کے ممبر تھے، حضرت شیخ الہند ؒ سے تعلق مولانا عبید اللہ صاحب کے ذریعے پیدا ہوا اور انہی کے ذریعے مشن کی تحریک میں شریک ہوئے، چونکہ مولانا عبیداللہ صاحب ؒ کابل جاتے ہوئے اپنی صاحبزادی کو انہی کی کفالت میں چھوڑ گئے تھے، کچھ عرصے کے بعد مولانا ابو السراج ؒ نے ان سے نکاح کر لیا، جس سے صاحبزادہ(میاں ظہیر الحق ؒ ) پیدا ہوئے وہ اب نہایت صالح نوجوان ہیں۔ریشمی خط آپ کے پاس بھی پہنچا تھا، انقلاب کی تیاری کے جملہ سامان یہاں جمع کر لئے گئے تھے اور مزید کوششیں جاری تھیں کہ فوج کی آمد کی خبر پہنچ گئی۔راتوں رات تمام سامان ،رائفلیں ،کارتوس وغیرہ منتشر کر دیا گیا، صبح کو جب انگریز افسر مع فوج دین پور پہنچا اور تفتیش کی تو کوئی چیز موجود نہ تھی، ریشمی خط کو بھی تلاش کیا گیا،مگروہ ایک ڈبے میں بچوں کے کھلونوں کے نیچے رکھا ہوا تھا، انگریز افسر نے اس ڈبے کو اٹھایا، مگر اوپر کے کھلونوں کو دیکھ کر رکھ دیا، غرضیکہ کوئی مشتبہ چیز نہ پائی گئی، فوج آنے کی خبر اطراف و جوانب میں پھل گئی، تو ہزاروں آدمی جمع ہو گئے، اس لئے دین پور میں کوئی گرفتاری نہ ہوسکی۔ افسر نے استدعا کی چونکہ ہمارا بڑا افسر خان پور میں رہ گیا اِس لئے آپ خان پور تشریف لے چلئے اور اس سے گفتگو کر لیجئے۔وہاں جانے پرمعلوم ہوا کہ وہ بہاولپور چلاگیاہے، اس لئے بہاولپور شریف لے چلیں ۔پھر وہاں سے پنجاب لے گئے اور غالباً جالندھر میں نظر بند کر دیا، کچھ عرصے کے بعد کسی ثبوت کے نہ ہونے اور عوام کے اشتعال کی بناء پر چھوڑ دیئے گئے۔


مرحوم کے صاحبزادے نیک اور صالح ہیں، دارالعلوم دیو بند میں علم حدیث وغیرہ پڑھا ہے، بڑے صاحبزادے مولانا عبدالہادی صاحب گدی نشین ہیں۔مولانا غلام محمد کا انتقال30ذی الحجہ 1354 ہجری بمطابق24مارچ1936ء کو منگل کی شب ہوا۔ بہاولپور یونیورسٹی کے شیخ الجامعہ(وائس چانسلر) مولانا غلام محمد گھوٹوی نے نماز جنازہ پڑھائی۔ دفن کے حوالے سے بعض لوگوں کی رائے تھی کہ آپ کا مزار بنایا جائے، لیکن اکثر متوسلین کی رائے تھی کہ یہ مولانا غلام محمد ؒ کی تعلیمات کے منافی عمل ہو گا ۔ بالآخر فیصلہ ہوا کہ آپ کو مسجد سے دو ایکڑ کے فاصلے پر اس جگہ دفن کیا جائے، جہاں آپ اکثر مراقبہ کرتے اور اللہ کے حضور گریہ و زاری کرتے تھے۔ آپ کا مدفن یہی جگہ ہے۔ آپ کی قبر سنت کے مطابق بنائی گئی جو بالشت بھر سے زیادہ اونچی نہیں قبر سادہ اور کچی ہے۔

مزید :

کالم -