اتر پردیش پر ہندو جنونیوں کا قبضہ (1)

اتر پردیش پر ہندو جنونیوں کا قبضہ (1)
 اتر پردیش پر ہندو جنونیوں کا قبضہ (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بھارت کی سب سے بڑی اور سیاسی طور پر سب سے اہم ریاست اتر پردیش پر بھی ہندو جنونیوں کا قبضہ ہو گیا ہے۔ حال ہی میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں پہلی بار ان انتہاپسندوں نے باقی تمام سیاسی پارٹیوں کا مکمل صفایا کر دیا ہے اور وہاں ایک ہندو مہاسبھائی یوگی ادتیاناتھ وزیر اعلیٰ بن چکا ہے۔ اتر پردیش میں روائتی طور پر مسلمان ووٹ اہم سمجھا جاتا تھا، کیونکہ ریاست میں مسلمانوں کی آبادی 20 فیصد کے لگ بھگ ہے، اس لئے وہاں سیاسی پارٹیوں کی کوشش ہوتی تھی کہ مسلمانوں کو ساتھ ملایا جائے۔ کانگریس اور اس سے زیادہ ملائم سنگھ یادو کی سماج وادی پارٹی مسلمان ووٹ حاصل کرنے کے لئے بہت سے حلقوں میں مسلمان امیدوار بھی کھڑے کرتی تھیں،یوں اتر پر دیش میں کبھی کانگریس اور کبھی سماج وادی پارٹی کی حکومت بن جایا کرتی تھی۔ اس روایت میں پہلی تبدیلی اس وقت آئی جب نچلی ذات کی نمائندگی کرتے ہوئے بہوجن سماج پارٹی کی لیڈر مایا وتی میدان میں آ گئیں اور وزیر اعلیٰ بن گئیں۔ کئی عشروں سے اتر پردیش میں بی جے پی نسبتاً پیچھے ہی رہی تھی اور وہاں کی سیاست کانگریس، سماج وادی پارٹی، جنتا دل اور بہوجن سماج پارٹی کے گرد ہی گھومتی رہی تھی۔ 2014ء کے عام انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایک نئے الیکشن ماڈل پر کام کیا کہ ایک چوتھائی مسلمان ووٹوں کے چکر میں پڑنے کی بجائے تین چوتھائی ہندو ووٹوں کو consolidate کیا جائے۔ اس نئی سوچ کے اصل معمار اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے آر ایس ایس کے سابق پرچارک ، بی جے پی میں انتہائی اہمیت کے حامل اور موجودہ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ تھے۔ نریندر مودی اور راج ناتھ سنگھ نے اس نئے پلان پر عمل کرتے ہوئے گذشتہ عام انتخابات میں اتر پردیش کی لوک سبھا میں تین چوتھائی سیٹیں جیت لیں۔ چونکہ ان کا یہ فارمولا کامیاب ہو چکا تھا، چنانچہ اس سال فروری میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں اسے اور زیادہ مضبوطی سے اپنایا گیا اور آر ایس ایس کے علاوہ ہندو مہاسبھا کے ان گروہوں کو بھی ساتھ ملا لیا گیا جو ابھی تک مین سٹریم بی جے پی میں نہیں آئے تھے ۔ہندو ووٹ بی جے پی کے پلیٹ فارم پر اکٹھا رہا جبکہ مسلمان ووٹ جو پہلے ہی اقلیت میں تھا، مزید تقسیم در تقسیم ہو کر کانگریس، سماج وادی اور بہوجن سماج پارٹیوں میں تقسیم ہو گیا۔

الیکشن جیت لینے کے بعد آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا چونکہ دونوں ہی وزارت اعلیٰ کے امیدوار تھے اور نریندر مودی کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ دونوں جنونیوں میں سے وزارت اعلیٰ کس کو دی جائے؟تو ان کی یہ مشکل بھی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے خود ہی حل کر دی اور اپنے آپ کی بجائے مہاسبھائی لیڈر یوگی ادتیاناتھ کا نام پیش کر دیا، یوں بھارت کی تاریخ میں پہلی بار ایک ہندو مہاسبھائی انتہا پسند، اتر پردیش کا وزیر اعلیٰ بن چکا ہے۔مہاسبھائی ہندوؤں کے جنونی رویوں کی وجہ سے برصغیر میں دو قومی نظریے کی ضرورت پیش آئی تھی، کیونکہ کروڑوں مسلمان اپنے آپ کو ان جنونیوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے تھے۔ جو ہونا تھا ہو کر رہا اور پاکستان معرضِ وجود میں آ گیا۔ بھارت میں نہرو خاندان اور کانگریس نے اپنے آپ کو سیکولرزم کا علمبردار ثابت کرتے ہوئے ہندو جنون کو زیادہ آگے آنے سے روکے رکھا، لیکن بالآخر ہوا وہی جو ہونا تھا۔ آزادی کو گذرے کچھ عشرے ہی گزرے تھے کہ مہاسبھائی اپنے اصل عزائم کے ساتھ کھل کر سامنے آ گئے۔ ہندو انتہا پسندوں کی جماعتوں راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور شیو سینا نے آپس کے گٹھ جوڑ سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے نام سے سیاسی پارٹی بنائی،جس نے کانگریس کے سیکولرزم کے مقابلے پر انتہا پسند ہندو ایجنڈا آگے بڑھایا اور آہستہ آہستہ سیاسی طور پر پیش قدمی شروع کر دی جواہر لال نہرو، اندا گاندھی اور راجیو گاندھی کے بعد کانگریس میں لیڈر شپ کا بحران پیدا ہوا تو وہ سیاسی طور پر پسپا ہوتی چلی گئی اور بی جے پی آگے بڑھتی گئی۔ بی جے پی کے نیتا اٹل بہاری واجپائی تین مرتبہ بھارت کے وزیر اعظم بنے اور آگے چل کر ان سے کہیں زیادہ انتہا پسند نریندر مودی بھاری اکثریت سے بھارت کے وزیر اعظم بن گئے۔ اٹل بہاری واجپائی کے دور تک جنونی ہندو تنظیموں آر ایس ایس، ہندو مہاسبھا اور شیو سینا کو اتنا کھل کھیلنے کا موقع نہیں مل پاتا تھا، اگرچہ اس وقت کے بی جے پی کے نمبر ٹو ایل کے ایڈوانی، جو خود بھی انتہا پسند تھے اور ہر وقت کوشش میں لگے رہتے تھے کہ کسی طرح ہندؤتوا، یعنی بھارت میں انتہا پسند ہندو غلبے کو ممکن بنایا جا سکے، لیکن اٹل بہاری واجپائی کی موجودگی میں وہ کھل کر ایسا تو نہ کر سکے، لیکن بہر حال انہوں نے نریندر مودی کی شکل میں بی جے پی کا ایسا لیڈر ضرور ڈھونڈ لیا جو اس خواب کو عملی جامہ پہنا سکے۔(جاری ہے)

2014 ء کا الیکشن بھاری اکثریت سے جیتنے کے بعد نریندر مودی اب تمام ہندو انتہا پسند تنظیموں کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے اکھنڈ بھارت، ہندؤتوا اور اس طرح کے تمام جنونی نظریات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کھل کر سامنے آچکے ہیں اور اس کا ایک نتیجہ بھارت کی سب سے بڑی اور سیاسی طور پر سب سے اہم ریاست اتر پردیش میں سامنے ظاہر ہو چکا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ نہ صرف وفاق میں بی جے پی کی ایک انتہائی مضبوط حکومت قائم ہے، جسے دونوں ایوانوں۔۔۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا۔۔۔ میں اکثریت حاصل ہے، بلکہ ایک ایک کر کے زیادہ تر ریاستوں میں بھی اس کی حکومت بنتی جا رہی ہے۔ بھارت میں ریاستی انتخابات چونکہ مختلف اوقات میں ہوتے ہیں، اس لئے مختلف ریاستوں کے الیکشن اپنی باری آنے پر ہوتے ہیں۔ فروری میں جن پانچ ریاستوں میں انتخابات ہوئے، ان میں سے تین اتر پردیش، اتر آکھنڈ اور گوا میں بی جے پی نے بھاری اکثریت حاصل کر کے اپنی حکومت بنا لی ہے۔ البتہ پنجاب میں بی جے پی کو ہزیمت اٹھانا پڑی۔ وہاں دس سال سے برسر اقتدار شرومنی اکالی دل اور بی جے پی اتحاد کو کانگریس نے بھاری شکست دی۔ پنجاب میں عام آدمی پارٹی نے بھی نمایاں کامیابی حاصل کی۔ جہاں تک بھارتی ریاستوں کا تعلق ہے، ان میں سے مہاراشٹر، گجرات، راجستھان، اتر پردیش، اتر آکھنڈ، ہریانہ، جھارکنڈ، مدھیہ پردیش، آسام ،گوا، اروناچل پردیش، چھتیس گڑھ اور منی پور میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومتیں ہیں اور تقریباً تمام ریاستوں میں راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ یا ہندو مہاسبھا سے تعلق رکھنے والے وزرائے اعلیٰ مقرر کئے گئے ہیں۔ اس کے مقابلے میں کانگریسی حکومتیں اب محض چند ریاستوں تک محدود رہ گئی ہیں، جن میں پنجاب، ہماچل پردیش اور کرناٹک کے علاوہ چھوٹی دور دراز ریاستوں جیسے میگھالیہ، میزورام اور پانڈی چری شامل ہیں۔ وہ ریاستیں جن میں کسی اور پارٹی کی حکومت ہے، ان میں دہلی میں عام آدمی پارٹی، آندھرا پردیش میں تیلگو دیشم پارٹی، بہار میں جنتا دل، جموں و مقبوضہ کشمیر میں محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ، کیرالہ اور تری پورہ کی ریاستوں میں کمیونسٹ پارٹی، ناگا لینڈ میں ناگا پیپلز فرنٹ، اڑیسہ میں بیجو جنتا دل، سکم میں سکم ڈیموکریٹک فرنٹ، تامل ناڈو میں اے ڈی ایم کے، تلنگانہ میں تلنگانہ راشٹریہ سمیتھی اور مغربی بنگال میں ترینامول کانگریس کی حکومتیں قائم ہیں۔


دیکھا جائے تو شمالی، وسطی اور مغربی ریاستوں میں زیادہ تر انتہا پسند ہندو جنونیوں کی حکومتیں قائم ہو چکی ہیں، جبکہ جنوبی اور مشرقی ریاستیں ابھی تک ان انتہا پسندوں سے قدرے محفوظ ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب شمالی اور جنوبی بھارت الگ ہو جائیں گے، کیونکہ انتہا پسند شمال کا اعتدال پسند جنوب کے ساتھ زیادہ عرصہ چلنا مشکل نظر آتا ہے۔ ایک پاکستانی کی حیثیت سے ہمیں دن کے چوبیس گھنٹے اور ہفتے کے ساتوں دن بھارت کے خطرناک عزائم کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس ہمہ وقتی کی کیفیت کو آج کل کے دور میں 24x7 کہا جاتا ہے۔ بھارت نے نصف صدی سے زائد عرصے سے سیکولرزم کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا۔ ہمیں نریندر مودی کا شکر گذار ہو نا چاہئے کہ اس نے یہ لبادہ اتار پھینکا ہے اور ہندو جنونی اپنے اصل چہرے کے ساتھ سامنے آ چکا ہے۔ وہ نہ صرف پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی براہ راست موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ بلکہ افغانستان کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے پاکستان کی مغربی سرحدوں کو بھی اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کر رہا ہے، جس کے تحت وہ پاکستان میں دہشت گردی کراتا رہتا ہے۔ بھارت کی تمام ریاستوں میں اتر پردیش سیاسی طور پر اہم ترین ریاستوں میں سے ایک ہے۔اگر دیکھا جائے تو ہندو انتہا پسندی کے حوالے سے مہاراشٹر ہمیشہ اہم ریاست رہی ہے، اس کے بعد گجرات اور اتر پردیش ہیں۔ اب ان تمام ریاستوں پر ہندو جنونیوں کا قبضہ ہو چکا ہے۔ جن ریاستوں سے بھارت کی زیادہ تر لیڈر شپ آتی ہے، وہ تمام کی تمام ہندو انتہا پسندوں کے قبضے میں جا چکی ہیں۔ اتر پردیش میں پہلے بھی 1991ء میں بی جے پی کی انتہا پسند حکومت قائم ہوئی تھی، جس کے دوران اگلے سال ہی جب بابری مسجدکا سانحہ پیش آیا تو کلیان سنگھ کی جنونی حکومت کو ختم کرکے صدر راج لگا دیا گیا تھا۔ کلیان سنگھ کے پیچھے ایل کے ایڈوانی تھے،جبکہ یوگی ادتیا ناتھ کے پیچھے نریندر مودی اور راج ناتھ سنگھ۔۔۔ یہ کیا گل کھلانے جا رہے ہیں اس کا ذرا تفصیل میں جائزہ لینا پڑے گا۔ (جاری ہے)

مزید :

کالم -