خدارا اِس طرف بھی توجہ دیں!

خدارا اِس طرف بھی توجہ دیں!
خدارا اِس طرف بھی توجہ دیں!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آج کے معاشروں کو جو دو بڑے بڑے آزار لاحق ہیں ان کو دو اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک قسم سیاسی آزار کہلاتی ہے اور دوسری کو غیر سیاسی آزار کہا جا سکتا ہے۔پاکستان میں یہ دونوں اقسام بدرجۂ وافر پائی جاتی ہیں، لیکن جہاں اول الذکر کو ضرورت سے زیادہ بلو اپ کر کے دکھایا جاتا ہے وہاں غیر سیاسی آزاروں سے تغافل برتا جاتا ہے۔ میڈیا پر سیاسی آزاروں کی کوریج ہم پاکستانیوں کا محبوب مشغلہ ہے، لیکن غیر سیاسی آزاروں کی کوریج میں دانستہ اور غیر دانستہ دونوں اعتباروں سے غفلت اختیار کی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں غیر سیاسی آزاروں کی کرپشن عروج پر ہے۔ درجِ بالا سطور پر ملفوف بیانیہ (Narrative) شائد بعض قارئین کے احاط ۂ فکر میں نہ آ رہا ہو، اس لئے اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ غیر سیاسی آزاروں میں اخلاقی آزار کی شدت اور اس کا پھیلاؤ اتنا زیادہ ہو چکا ہے کہ ہماری سوسائٹی کی روائتیں تار تار ہوئی جا رہی ہیں۔۔۔ میڈیا پر سیاسی خبروں کے بعد جن خبروں پر تعجب کا اظہار کیا جاتا ہے وہ حد درجہ بھیانک ہیں۔زیادہ عرصہ نہیں گزرا یہ صورتِ حال نہیں تھی لیکن جوں جوں دن گزرتے جا رہے ہیں۔ ان خبروں میں حیرانی اور ندرت کا عنصر دبتا چلا جا رہا ہے۔ اُن اخلاقی جرائم کی فہرست بہت طویل ہے جو ماض ئ قریب میں یا تو عنقا تھے یا کہیں معاشرتی حجابات میں پوشیدہ تھے۔مثلاً مشال خاں کے قتل جیسے واقعات پہلے کہاں ہوتے تھے؟چوری چکاری کی اِکا دُکا وارداتوں کے علاوہ چھوٹے موٹے سماجی جرائم ضرور ہوتے تھے لیکن ان کی تعداد ہمیشہ کنٹرول میں رہتی تھی جبکہ آج ان کا دور دورہ ہے۔خود کشی کے کیس شاذو ناذر سننے اور پڑھنے کو ملتے تھے، گھناؤنے جرائم کی شرح نہ صرف بہت کم تھی بلکہ وجوہاتِ جرم بھی کبھی اتنی حیرت انگیز نہیں تھیں جتنی آج کل ہیں۔ رشتوں کی پامالی ناقابلِ یقین حد تک بڑھ چکی ہے اور ان میں سگے رشتے بھی شامل ہیں۔ان کی تفاصیل آئے روز میڈیا پرآتی ہیں اور اتنی دلدوز ہوتی ہیں کہ اب آہستہ آہستہ ان میں دلدوزی کا تصور اور عنصر ہی ناپید ہوتا جا رہا ہے۔

گزشتہ دو عشروں میں خود کش حملوں کے تسلسل اور تواتر نے میڈیا کے ناظرین و قارئین کو تقریباً ’’سنگدل‘‘ بنا دیا تھا۔ ہم تفصیلات پڑھتے تھے تو اول اول حیران ہوتے تھے، لیکن آخرآخر ایسا بھی ہوا کہ ہم نے ان خوفناک مناظر کو ایک معمول سمجھ لیا۔ نابالغ بچوں اور بچیوں کا اغوا اور ان کے ساتھ زیادتی کے کیس اتنی کثرت سے رپورٹ ہونے لگے کہ میڈیا نے ان کو اپنے ہفتہ وار ٹاک شوز کا باقاعدہ حصہ بنا لیا۔ کسی چینل نے اس کا نام ’’سرعام‘‘ رکھ دیا تو کسی نے ’’جرم بولتا ہے‘‘ اور کسی نے ’’شبیر تو دیکھے گا‘‘ وغیرہ جیسے عنوانات کے تحت ایسے بھیانک واقعات کی آنکھوں دیکھی اور کانوں سنی کہانیاں عام کر دیں۔ پہلے پہلے تو ہم نے ان میں ایک ناقابلِ یقین ’’نیا پن‘‘ دیکھ کر دلچسپی کا مظاہرہ ضرور کیا، لیکن پھر رفتہ رفتہ ایسے پروگرام دیکھنے ہی چھوڑ دیئے اور سمجھ لیا کہ جس طرح خود کش حملے عام ہیں، اُسی طرح یہ وقوعے بھی کوئی خاص نہیں۔ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، جھوٹ، مکرو فریب اور ریا کاری کے وہ معانی اور مفاہیم جو ہم نے اپنے لڑکپن میں پڑھے یا سنے تھے، بدلنے لگے اور آہستہ آہستہ نہ صرف ہم ان کو معمول سمجھنے لگے، بلکہ سارا معاشرہ بے حس ہو گیا۔ پہلے جو جرم اچنبھا کہلاتا تھا اب معمولات میں شمار ہونے لگا۔


اگلے روز میڈیا میں ایک کیس رپورٹ ہوا جس کی تفصیل یہ تھی کہ کراچی کے ایک پوش علاقے میں ایک سیکیورٹی گارڈ نے گھر کے ایک نوجوان لڑکے کا گلہ گھونٹ کر اُسے ہلاک کر دیا۔ اس میں حیرت کی بات یہ تھی کہ مقتول ایک ڈی آئی جی کا بیٹا تھا اور قاتل ایک حاضر سروس پولیس کانسٹیبل تھا۔ میڈیا میں اس کی جو تفصیل رپورٹ کی گئی اس کے مطابق ڈی آئی جی صاحب ایبٹ آباد میں تعینات ہیں۔ فیملی کراچی میں رکھی ہوئی تھی، گھر میں چار افراد تھے۔ ایک بیوی، دو بیٹیاں اور ایک بیٹا۔ ڈی آئی جی ایبٹ آباد میں تعیناتی سے پہلے سندھ کے مختلف شہروں میں بطور ایس ایس پی اور ایس پی خدمات انجام دے چکے تھے۔ جب وہ کشمور میں ایس ایس پی تھے تو وہاں اپنے زیر کمانڈ کسی کانسٹیبل کو ذاتی طور پر جانتے تھے اور اس پر اعتماد کرتے تھے اِس لئے اس کو کراچی والے گھر میں بطور سیکیورٹی گارڈ پوسٹ کروا کر خود ایبٹ آباد چلے گئے۔۔۔ جیسا کہ میڈیا رپورٹ میں کہا گیا، گارڈ نے گھر والوں سے دو لاکھ روپے ادھار مانگے تھے جو اس نے کشمور میں کسی کو ادا کرنے تھے۔ وقوعہ کی رات کو دو بجے وہ سیکیورٹی گارڈ اپنے کمرے سے نکلا اور بیگم صاحبہ سے دو لاکھ روپے مانگنے گھر کے اندر داخل ہوا۔ راستے میں ڈی آئی جی کے بیٹے کا کمرہ تھا۔ اس نے گارڈ کو روکا اور کہا کہ صبح ہو گی تو بیگم صاحبہ کو مل لینا۔ اس وقت آدھی رات ہے اور ان کو جگانا مناسب نہیں۔ اس پر دونوں میں جھگڑا ہو گیا اور گارڈ نے ڈی آئی جی کے نوجوان بیٹے کو گلے میں رسہ ڈال کر مار ڈالا۔بہنوں نے جب بھائی کے کمرے میں شور سُنا تو پولیس کو مطلع کر دیا۔ پولیس آئی تو نوجوان لڑکا آخری سانس لے رہا تھا اور ہسپتال جاتے جاتے راستے میں دم توڑ گیا۔ میڈیا پر قاتل کو سلاخوں کے پیچھے کھڑا دکھایا گیا اور وہ رسہ بھی کمرے میں پڑا دکھایا گیا جس سے مجرم نے23سالہ نوجوان کو گلا گھونٹ کر ہلاک کر دیا تھا!
اسی نوع کے آزاروں کو مَیں نے ’’غیر سیاسی آزار‘‘ کا نام دیا ہے۔ویسے آپ اسے جو نام بھی دے لیں، آپ کی مرضی، لیکن کیا یہ جرم ایک ایسا جرم نہیں جو ناقابلِ یقین حد تک انوکھا ہے؟۔۔۔ بادی النظر میں درجِ ذیل سوالات ذہن میں اٹھتے ہیں:
(1) قاتل کی عمر 27سال تھی اور وہ ’’ضرورت‘‘ سے زیادہ تنو مند اور قومی الجثہ تھا۔ وہ آدھی رات کو بیگم صاحبہ سے دو لاکھ روپے مانگنے کیوں گیا تھا؟
(2) کیا مقتول کو معلوم نہیں تھا کہ یہ گارڈ اتنی بے باکی سے اور رات کے اس عالم میں اتنی بڑی رقم مانگنے بیگم صاحبہ کے کمرے میں کیوں جا رہا تھا؟
(3) قاتل کانسٹیبل کی تنخواہ اور بطور قرض مانگی گئی رقم میں اتنا فرق کیوں تھا؟ اگر پانچ دس ہزار مانگتا تو ایک بات بھی تھی۔ کیا دو لاکھ کا مطالبہ(بطور قرض ہی سہی) ایک گارڈ اور مالکن کے درمیان لین دین کی حد درجہ غیر مساوی مساوات کا آئینہ دار نہیں تھا؟
(4) کیا گارڈ پہلے بھی ایسی رقوم ادھار مانگتا رہتا تھا؟
(5) مقتول اور قاتل میں جو جھڑپ ہوئی ظاہر ہے وہ باقاعدہ سوچی سمجھی ’’سکیم‘‘ تھی۔ یہاں تک نوبت پہنچنے سے پہلے بھی کچھ ایسے واقعات ہوئے ہوں گے جو انتہائی سفاکانہ اقدام کا باعث ہوئے۔۔۔وہ واقعات کیا تھے؟
(6) کیا ڈی آئی جی صاحب نے اس گارڈ کی اپنے گھر تعیناتی سے پہلے اس کے کردار کی پوری طرح چھان بین کر لی تھی؟کیا وہ پہلے بھی ڈی آئی جی کے ساتھ بطور بیٹ مین (یا گارڈ) کام کر چکا تھا؟
درجِ بالا واقعات اور تفاصیل الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر آ چکی ہیں۔ کیا اکلوتے اور نوجوان بیٹے کا یہ متشددانہ قتل کوئی عام واقعہ ہے؟۔۔۔میرے خیال میں اس واقعہ کو ایک ٹیسٹ کیس بنایا جا سکتا ہے اور چونکہ یہ واقعہ خود امن و امان قائم کرنے والے ادارے کے ایک سینئر آفیسر کے ساتھ پیش آیا ہے، اس لئے اس کی اہمیت واضح ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کیس جب چلے گا تو درج بالا سوالات کے جواب بھی سامنے آئیں گے،لیکن مَیں نے یہ کالم اس لئے قارئین کے سامنے رکھا ہے کہ جس طرح ہمارا میڈیا سیاسی آزاروں کے پیچھے لگا رہتا ہے۔ دن رات اور صبح و شام ایک ایک ’’آزار‘‘ کی وجہ، علامات اور جانبی اثرات(Side-effects) کا پوسٹ مارٹم کرتا رہتا ہے، اسے ٹاک شوز کا عنوان بناتا ہے اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتا جب تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو جاتا۔علاوہ ازیں ان سیاسی موضوعات پر بحث و مباحثہ کے لئے ملک کے چوٹی کے تجزیہ کاروں کو دعوتِ گفتار دی جاتی ہے، فریقین کا موقف جانا جاتا ہے، اس پر سیر حاصل گفتگو کر کے ایک ایک تفصیل کھول کر ناظرین و سامعین کے سامنے رکھ دی جاتی ہے۔


کیا عین مین اس طرح اس غیر سیاسی آزار کی چھان پھٹک نہیں کی جا سکتی؟۔۔۔اگر ایسا ہو جائے تو شاید اس طرح کے بھیانک جرائم کے آگے بند باندھا جا سکے۔ استدلال کیا جاتا ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کی اکثریت’’گوڈے گوڈے‘‘ کرپشن میں گرفتار ہے، اِس لئے اس کرپشن کلچر کا خاتمہ از بس ضروری ہے۔ کیا بالکل اسی طرح اس اخلاقی کرپشن(جس کو مَیں نے غیر سیاسی آزار کہا ہے) کی تفتیش و تحقیق نہیں کی جانی چاہئے۔ شاید ایسا ہو بھی رہا ہو،لیکن کیا میڈیا ایسے جرائم کی تہہ تک پہنچنے کے لئے اس کا ’’فالو اَپ‘‘ اس طرح نہیں کر سکتا جس طرح ہم ڈان لیکس اور پانامہ لیکس کا کر رہے ہیں؟ کیا ’’سرعام‘‘ یا ’’جرم بولتا ہے‘‘ وغیرہ جیسے پروگراموں کے پروگرام پروڈیوسروں اوور اینکروں کو یہ ذمہ داری نہیں دی جا سکتی کہ ڈی آئی جی کے بیٹے کے اس قتل کیس کا بھی ویسا ہی پیچھا کریں جیسا وہ سیاسی آزاروں کا دن رات کرتے رہتے ہیں۔میرے خیال میں اس کیس کی میڈیا پیروی کیSOPcدرج ذیل ہو سکتی ہیں:
(1) جب یہ مقدمہ چلے تو اس کی سماعت کے دوران ہر پیشی پر کم از کم ایک ٹی وی چینل اور ایک قومی اخبار کی کورنگ ٹیمیں (Covering Teams) کمرۂ عدالت میں موجود ہوں۔


(2) اسی شام ایک ایسے ٹاک شو کا اہتمام کیا جائے جس میں ملک کے نامور قانون دان، وکلاء، جج صاحبان، اعلیٰ پولیس آفیسرز اور تجزیہ کار حصہ لیں اور مقدمے کی پیشرفت کا اُسی طرح جائزہ لیں جس طرح سیاسی مقدمات کا لیا جاتا ہے۔
(3) فریقین کو پورا پورا موقع دیا جائے کہ وہ کھل کر اپنا موقف پیش کر سکیں۔
(4) مقدمے کی اُس وقت تک پیروی کی جائے جب تک یہ اپنے منطقی انجام کو نہ پہنچ جائے۔

مزید :

کالم -