قبل از وقت عام انتخابات؟

قبل از وقت عام انتخابات؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے قبل از وقت عام انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ہے، اُن کی طرف سے یہ مطالبہ اچانک منظرِ عام پر آیا ہے اِس کے لئے وہ یہ دلیل لے کر آئے ہیں کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کمزور وزیر اعظم ہیں اور ملک کو بھی کمزور کررہے ہیں نئے الیکشن کا اعلان کرکے تازہ مینڈیٹ لیں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی جمعیت علمائے اسلام (ف) اور جماعتِ اسلامی نے قبل از وقت انتخابات کی مخالفت کی ہے اور اِن جماعتوں کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی کو اپنی مُدّت پوری کرنی چاہئے۔
عمران خان کے اِس مطالبے کی حمایت ابھی تک کسی ایک جماعت نے بھی نہیں کی، کے پی کے میں تحریک انصاف کی حلیف جماعت اِسلامی کے امیر سراج الحق کا بھی یہی خیال ہے کہ قومی اسمبلی کو اپنی مدت پوری کرنی چاہئے اور جس جماعت کے ساتھ مِل کر وہ قائد حزبِ اختلاف کا منصب سید خورشید شاہ سے چھین کر اپنی جماعت کے پاس لانا چاہتے ہیں اس کا بھی خیال ہے کہ عمران خان کا مطالبہ عجیب ہے مولانا فضل الرحمن نے یہ کہہ کر عمران خان کا مذاق اڑایا ہے کہ شاید وہ وزیر اعظم بننے کی جلدی میں ہیں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) تو اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ قومی اسمبلی اور حکومت کو اپنی مُدّت پوری کرنی چاہئے۔
نواز شریف کی نااہلی کے بعد تین دن کے اندر اندر قومی اسمبلی نے اپنا نیا قائد ایوان منتخب کرلیا تھا یہ جمہوریت کے تسلسل کی مضبوط علامت ہے نئے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے جب سے اپنا منصب سنبھالا ہے وہ اپنی ذمے داریاں احسن طریقے سے ادا کررہے ہیں۔ چند روز قبل اُنہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جو خطاب کیا پورے ملک اور دنیا بھر میں اس خطاب کو سراہا گیا۔ حتیٰ کہ عمران خان کے دست راست پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی وزیراعظم کے خطاب کی تعریف کی۔ انہوں نے کشمیر کا مسئلہ دبنگ طریقے سے اٹھایا جس پر آج تک بھارت میں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے، کشمیری رہنماؤں اور حریت کا نفرنس کی پوری قیادت نے بھی اس خطاب کو دل کھول کر سراہا ہے، بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج جس طرح اس تقریر پر سیخ پا ہوئیں وہ بھی اپنی جگہ ہے، وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی جمہوری طور پر منتخب وزیر اعظم ہیں مشاورت پر یقین رکھتے ہیں اور امورِ مملکت چلانے کے لئے آئین و قانون کو مشعلِ راہ بنارہے ہیں، اُن کی کسی بات سے یہ مترشح نہیں ہوتا کہ وہ کمزور وزیر اعظم ہیں، عمران خان کو ان کی جو کمزوری نظر آئی ہے اس کی تفصیل بھی انہوں نے بتائی ہے۔ وزیر اعظم عباسی اپنی جماعت کے رہبر نواز شریف کو اپنا قائد مانتے ہیں اور اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ ان کی یہ ادا عمران خان کو پسند نہیں آئی، اسی لئے انہوں نے اچانک بیٹھے بٹھائے نئے انتخابات کا مطالبہ کردیا۔
آئین کے تحت وزیر اعظم کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی وقت صدر مملکت کو قومی اسمبلی کی تحلیل کا مشورہ دے سکتے ہیں یہ ان کا صوابدیدی اختیار ہے اگر وہ مناسب سمجھیں گے تو ایسا کر گزریں گے، ان کے علاوہ جو کوئی بھی نئے انتخابات کا متمنی ہے اسے اس مقصد کے لئے ٹھوس جواز فراہم کرنا ہوگا اور کچھ نہیں تو دوسری سیاسی جماعتوں کو اپنا ہمنوا بنانا ہوگا تاکہ وہ سب مل کر اس مطالبے کی حمایت میں قومی اسمبلی کے اندر اور باہر آواز اٹھائیں اور حکومت اِس آواز کو سننے پر مجبور ہوجائے موجودہ حالات میں تو عمران خان اپنے مطالبے میں یکا و تنہا ہیں اور وہ جماعتیں بھی اُن کے ساتھ نہیں جو بظاہر اُن کی زیادہ مخالف نہیں ہیں ان حالات میں یہ بہت مشکل نظر آتا ہے کہ وہ اپنا یہ مطالبہ منوا سکیں، اگر محض مطالبہ کردینے سے یہ مقصد پورا ہوسکتا تو اب تک کئے جانے والے اُن کے بہت سے مطالبات ہنوز تشنۂ تکمیل نہ ہوتے، اس لئے لگتا نہیں ہے کہ حکومت اُن کا یہ مطالبہ مانے گی البتہ یہ یقینی ہے کہ اب وہ اپنے دوسرے مطالبات کی طرح یہ مطالبہ بھی لے کر اُٹھیں گے اور اسے منوانے کے لئے جو ممکن ہوگا کرگزریں گے، دیکھیں اب وہ اس ضمن میں کیا کرتے ہیں اور کیا حکمتِ عملی اپناتے ہیں اور ’’افلاک‘‘ سے اُن کے ’’نالوں‘‘ کا جواب کِس انداز میں آتا ہے۔
ابھی حال ہی میں مردم شماری کے جو نتائج سامنے آئے ہیں ان کی روشنی میں نئی حلقہ بندیاں وجود میں آنی ہیں جن صوبوں کی آبادی بڑھی ہے قومی اسمبلی میں اُن کی نمائندگی میں بھی اضافہ ہونا ہے، اسی طرح مردم شماری کے نتیجے میں بعض حلقے تبدیل ہوں گے اور نئے حلقے وجود میں آئیں گے اس وقت تک، عام انتخابات سمیت جو بھی الیکشن ہوئے ہیں اُن کی بنیاد سابقہ مردم شماری پر ہے جو انیس سال پہلے ہوئی تھی الیکشن کمیشن کو نئی حلقہ بندیوں کے کام کے لئے وقت درکار ہے اور اس کے خیال میں اسے ستمبر تک مردم شماری کے تمام اعدادو شمار مل جائیں تو ہی وہ مقررہ وقت (جون 2018ء) تک عام انتخابات نئی حلقہ بندیوں کے مطابق کرانے کے قابل ہوسکے گا لیکن ستمبر تو گزرنے والا ہے ابھی مردم شماری کے نتائج کو حتمی شکل نہیں دی جاسکی اس لئے نہیں لگتا کہ الیکشن کمیشن بھی قبل از وقت انتخابات کے حق میں ہوگا دوسری اہم بات یہ ہے کہ انتخابی اصلاحات کا جو بل قومی اسمبلی میں منظور ہوا تھا وہ جب سینیٹ میں گیا تو اس میں بعض ترامیم ہوگئیں اس لئے اب سینٹ کا منظور کردہ بل قومی اسمبلی میں دوبارہ منظوری کے لئے بھیجنا ضروری ہے اس پروسیس میں بھی کچھ وقت لگے گا۔ اسی طرح الیکشن کے لئے بائیو میٹرک مشینوں کے استعمال کا مسئلہ بھی ہے حال ہی میں این اے 120 میں ان مشینوں کا تجربہ کیا گیا ہے اور جو مشکلات سامنے آئی ہیں اُن کی روشنی میں الیکشن کمیشن کا خیال ہے کہ اگلے عام انتخابات میں ان مشینوں کا استعمال ممکن نہیں، ایسے ہی مسائل کی موجودگی میں عام انتخابات وقت پر ہی ہوں تو بہتر ہے۔
2013ء کے عام انتخابات کے بعد عمران خان نے دھرنوں اور ایجی ٹیشن کی جو سیاست شروع کی تھی وہ تو کامیاب نہیں ہوئی البتہ نواز شریف کے خلاف انہوں نے جو درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی تھی اس کی وجہ سے اتنا ہوا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے تحت جوجے آئی ٹی بنی اس نے ایک اقامہ اور ایک کمپنی دریافت کی جو درخواست گزاروں کے تو علم میں نہیں تھی نہ اُن کے دلائل میں اُن کا کوئی تذکرہ تھا، البتہ اِس کمپنی کی دریافت کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 62(ون) ایف اور عوامی نمائندگی کے ایکٹ کے تحت نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا، نااہلی کے اس حکم کا ہی نتیجہ ہے کہ نیا وزیر اعظم منتخب ہوا اور نواز شریف کی خالی نشست پر ضمنی انتخاب بھی ہوگیا جس میں عمران خان کی امیدوار جیت نہیں سکیں اور یہ جیت بھی مسلم لیگ (ن) کی امیدوار اور نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز کے حصے میں آئی ہے، اِسی طرح اگر ماضی میں ہونے والے ضمنی انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو وہ بھی تحریک انصاف ہارتی رہی ہے اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اُن کے پاس نئے انتخابات کا مطالبہ کرنے کا کافی جواز نہیں ہے، البتہ اُن کی یہ خواہش ضرور ہوسکتی ہے کہ جلد از جلد نئے انتخابات ہو جائیں تو شاید اُن کی قسمت یاوری کردے۔
صوبہ کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت ہے جس کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ کسی بھی وقت صوبے میں نئے انتخابات کرانے کے لئے صوبائی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس صوبے کے گورنر کو دے سکتے ہیں، یہ اختیار ایسا ہے جس کے لئے کسی سے کوئی مطالبہ نہیں کرنا پڑتا، کوئی لابنگ نہیں کرنی پڑتی، کوئی سیاسی حمایت بھی درکار نہیں ہوتی، بس ایک جرأت مندانہ فیصلے کی ضرورت ہوتی ہے پرویز خٹک یہ فیصلہ کریں، گورنر کو اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس دیں اور صوبے میں نئے انتخابات کا ڈول ڈال دیں، الیکشن کمیشن کو مشکلات تو پھر بھی پیش آئیں گی لیکن مجبوراً گلے پڑا ہوا یہ ڈھول بجانا پڑے گا اگر اُن کی جماعت یہ صوبائی انتخابات جیت گئی اور دوبارہ اس کی حکومت بن گئی تو وہ کہہ سکیں گے کہ ہماری جماعت صوبے میں ہردلعزیز ہے اِس لئے اس بنیاد پر نئے انتخابات کے لئے اُن کے مطالبے میں کچھ وزن اور معقولیت پیدا ہو جائے گی، فی الحال تو مطالبہ برائے مطالبہ ہی لگتا ہے کوئی بھی جماعت اُن کے ساتھ نہیں ایسے میں حکومت کو کیا پڑی ہے کہ وہ قبل از وقت انتخابات کرانے کا مطالبہ مان لے۔

مزید :

اداریہ -