کوئٹہ میں دو صحافیوں کا قتل!

کوئٹہ میں دو صحافیوں کا قتل!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ملک کے مختلف حصوں خصوصاً بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ نہیں رک سکا، اب تک درجنوں صحافی قتل کئے جا چکے ہیں اور کسی کے قاتل گرفتار نہیں ہو سکے۔اس سلسلے میں تازہ ترین واقعہ کوئٹہ میں پیش آیا، جب نامعلوم حملہ آوروں نے آن لائن نیوز ایجنسی کے دفتر میں گھس کر دو صحافیوں اور ایک اکاؤنٹنٹ کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور آسانی کے ساتھ فرار ہو گئے۔ حملہ آوروں نے جدید خود کار ہتھیار استعمال کئے، ابھی تک کسی طرف سے اس واردات کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی۔ قتل ہونے والوں میں بیورو چیف ارشاد مستوئی، رپورٹر عبدالرسولخجک اور اکاؤنٹنٹ محمد یونس شامل ہیں جو موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے، پولیس حسب معمول تاخیر سے پہنچی۔
جاں بحق ہونے والوں میں ارشاد مستوئی بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سیکرٹری بھی تھے اور ایک ٹی وی نیوز چینل کے لئے بھی کام کرتے تھے، اس بہیمانہ واردات کے خلاف جرنلسٹوں نے زبردست احتجاج کیا ہے۔کوئٹہ سے موصول ہونے والی خبروں کے مطابق گزشتہ پانچ سال کے دوران بلوچستان میں 30سے زیادہ صحافی ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوچکے اور تاحال ان میں سے کسی کے بھی ملزم گرفتار نہیں کئے جا سکے۔پیشہ ورانہ فرائض سرانجام دینے والے صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ بہت ہی افسوسناک اور قابل مذمت ہے اور اس سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ اب تک کسی ایک واردات کے ملزم گرفتار نہیں ہو سکے۔ جرنلسٹوں میں غم و غصّے کا پایا جانا فطری عمل ہے اور صوبائی حکومت کو زبانی جمع خرچ کی بجائے عملی طور پر ملزم گرفتار کرنا چاہئیں۔ دوسری طرف صحافیوں نے اس واردات پر احتجاج کیا اور اب ملک گیر سطح پر بھی ہو گا، لیکن یہ بھی امر واقعہ ہے کہ صحافی آپس میں تقسیم ہیں، اس لئے ان کی آواز موثر نہیں رہی، خود اپنی صفوں میں بھی تو اتحاد پیدا کریں۔ بلوچستان حکومت کے لئے لازم ہے کہ اس واردات کے ملزم جلد گرفتار ہوں۔ *
طیب اردوان کو صدارت مبارک!
ترکی کے نو منتخب صدر طیب اردوان نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد ترکی کو اتاترک، کمال مصطفی کا ملک بنانے کا اعلان کیا ہے۔ صدارتی انتخاب میں کامیابی کے بعد گزشتہ روز ایک پُروقار تقریب میں انہوں نے حلف اٹھایا اس پر متعدد ممالک کے سربراہوں نے بھی شرکت کی، پاکستان سے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اپنے سمدھی کی وفات اور ملک میں سیاسی بحران کی وجہ سے خود نہ جا سکے تاہم صدر مملکت ممنون حسین نے پاکستان کی نمائندگی کی۔
ترک صدر طیب اردوان پوری سیاسی بصیرت اور محنت کے بعد عوامی حمایت حاصل کر کے اس مقام تک پہنچے آج وہ ترکی کے سب سے زیادہ طاقتور سیاسی لیڈر ہیں۔
طیب اردوان نے اپنا سیاسی سفر لوکل باڈیز سے شروع کیا وہ استنبول کے میئر بھی رہے اور پھر وزیراعظم کے عہدے تک پہنچے، اس عہدے پر فائز رہتے ہوئے انہوں نے حکومت میں فوج کی حصہ داری ختم کی۔ ان کو زبردست مخالفت کا بھی سامنا رہا، لیکن ملک کے عوام کی حمایت کے بل بوتے پر انہوں نے سیاسی خلفشار اور اپنے خلاف تحریک کا بھی مقابلہ کیا۔ اب وہ اپنے ترقیاتی پروگرام کے آخری مرحلے پر ایک بااختیار صدر بن چکے ہیں اور اِسی عوامی حمایت کی بنیاد پر انہوں نے اصلاح اور ترکی کو اتاترک کا ملک بنانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
ترکی پاکستان کا عزیز ترین دوست نہیں، بلکہ برادر ملک ہے اور اس کا ثبوت کئی بار دیا جا چکا، پاکستان کی طرف سے صدر مملکت ممنون حسین نے بجا طور پر ان کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ طیب اردوان کو مبارکباد دیتے ہوئے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ ان کے نئے دور میں بھی پاک ترک تعلقات مزید اچھے اور مضبوط ہوں گے۔

مزید :

اداریہ -