پٹھان کون؟بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم کی چونکا دینے والی تاریخ ۔۔۔پہلی قسط

پٹھان کون؟بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم کی چونکا دینے والی تاریخ ...
پٹھان کون؟بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم کی چونکا دینے والی تاریخ ۔۔۔پہلی قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پٹھانوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں سے ’’تذکرہ‘‘ ایک منفرد اور جامع مگر سادہ زبان میں مکمل تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔خان روشن خان نے اسکا پہلا ایڈیشن 1980 میں شائع کیا تھا۔یہ کتاب بعد ازاں پٹھانوں میں بے حد مقبول ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ پٹھان بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباو اجداد اسلام پسند تھے ۔ان کی تحقیق کے مطابق امہات المومنین میں سے حضرت صفیہؓ بھی پٹھان قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہودیت سے عیسایت اور پھر دین محمدیﷺ تک ایمان کاسفرکرنے والی اس شجاع ،حریت پسند اور حق گو قوم نے صدیوں تک اپنی شناخت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ پٹھانوں کی تاریخ و تمدن پر خان روشن خان کی تحقیقی کتاب تذکرہ کے چیدہ چیدہ ابواب ڈیلی پاکستان آن لائن میں شائع کئے جارہے ہیں تاکہ نئی نسل اور اہل علم کو پٹھانوں کی اصلیت اور انکے مزاج کا ادراک ہوسکے۔

پختون قوم کا نسلی اور آبائی تعلق ان جلاوطن بنی اسرائیل سے ہے جنہیں اشوریوں اور بابل والوں نے یکے بعد دیگرے ان کے وطن شام اور اس کے اطراف سے نکلنے پر مجبور کر دیا تھا اور جن کی آبادیاں مشرق میں نواح بابل کے علاوہ ایران اور خراسان کے علاقوں سے لے کر دریائے سندھ کی وادی تک آریاؤں کے درمیان پھیلی ہوئی تھیں۔
یہ قوم پہلے شریعت موسوی اور پھر ہدایت عیسوی پر قائم تھی اور جب ان تک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اسلام پہنچی تو مشرف بہ اسلام ہوگئے۔الغرض عیسائیت اور یہودیت جس پر یہ لوگ قائم تھے اس تشنگی کو نہ بجھا سکتی تھی جس کو اسلام نے آکر بجھایا اور عیسوی اور موسوی تعلیمات کو صحیح جامہ پہنا کر ان کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔ اسلام کی بدولت ان میں نئی زندگی پیدا ہوئی اور ماہو یہ سوری، شیخ حمید لودی اور خصوصاً شہاب الدین محمد غوری کے دور اقتدار میں دشت لوط یا بادیہ ایران کے مشرقی پہاڑوں سے مشرق کی طرف دریائے سندھ کی وادی تک اس سارے علاقہ پر جہاں جہاں سے ساسانیوں اور تاتاریوں کے غلبہ کی وجہ سے یہ ہجرت کر گئے تھے قبضہ کرکے دوبارہ آباد ہوگئے۔ اور محمد غوری کے زیر قیادت وہ پنجاب اور سندھ پر بھی قابض ہونے کے ساتھ ساتھ بنگال اور آسام تک بحیثیت حکمران جا پہنچے۔
زوال بنی اسرائیل
شام سے جلا وطنی کی مختصر داستان یہ ہے کہ حجرت سلیمان ؑ کی وفات کے بعد ان کے بیٹے رجعام کو بادشاہ بنانے کے سلسلے میں بنی اسرائیل کے بارہ قبائل اکٹھے ہوگئے اور رجعام کے سامنے اپنے کچھ مطالبات پیش کئے ۔رجعام نے ان کے مطالبات کو مسترد کر دیا۔ بنی اسرائیل کے دس قبیلے اس بات پر ناراض ہو کر چلے گئے اور انہوں نے یربعام کو اپنا بادشاہ بنا لیا۔ انہوں نے اپنی مملکت کا نام ’’اسرائیلیہ‘‘ رکھا۔ اس کے برعکس یہودا اور بنیامین دو قبیلوں نے رجعام بن سلیمان کو اپنا بادشاہ تسلیم کیا اور اپنی حکومت کا نام ’’سلطنت یہودیہ‘‘ رکھا۔ یہاں سے بنی اسرائیل میں پھوٹ پڑ گئی۔ ان دونوں حکومتوں کی تاریخ باہمی قتل و غارت اور نفاق اور سازشوں سے بھری ہوئی ہے۔ اس باہمی نفاق اور جنگ و جدل کا نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں اپنی حکومتوں کو قائم نہیں رکھ سکے۔ وہ اشوریوں، بابلیوں اور رومیوں کی تاخت و تاراج کا تختہ مشق بنے رہے ۔اس دور میں فلسطین کے یہودیوں اور سامرہ کے اسرائیلیوں میں بہت سے نبی مبعوث ہوتے رہے جو انہیں خدا کا پیغام سناتے، ہدایت کی طرف بلاتے اور آئندہ واقعات کی پیشین گوئیاں کرتے تھے۔ مگر انہوں نے کان نہ دھرا۔
بنی اسرائیل ان ایام میں اکثر خدا سے باغی ہوگئے اور تورات کی اتباع سے انکاری ہوگئے۔ لہٰذا آپس کے اختلاف جنگ و جدل، اللہ کی نافرمانی اور اس کے دین سے روگردانی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ۵۹۷ ق م میں بابلیوں کے ہاتھوں یہودیہ کی ریاست تباہ ہوگئی اور اس سے پہلے ۷۲۱ ق م میں سلطنت اسرائیلیہ اور اس کا مرکزی شہر شورون یا سامریہ اشوریوں کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوا تھا اور اس طرح چودہ سو سال کے بعد اسرائیل کی دونوں حکومتیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر بنی اسرائیل کی تاریخ اور زوال پر ایک سرسری نظر ڈال لی جائے۔
جاری ہے۔ دوسری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں