چونتیسویں قسط۔ ۔ ۔بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم کی چونکا دینے والی تاریخ
تاریخ فرشتہ کے مندرجہ بالا اقتباسات میں چند مقامات وغیرہ کا ذکر آیا ہے۔ مناسب ہوگاکہ حالیہ جغرافیہ میں ان مقامات کے صحیح محل وقوع کی نشاندہی کر دی جائے۔
۱۔ آب نیلاب: یہ دریائے سندھ کا ایک اورمقامی نام ہے اور اٹک کے قریب جنوب میں دور تک بولا جاتا ہے۔ اس کے سامنے شمال مشرق میں دیہند اور لاہور کے مقامات قریب ہیں۔ دیار ہند سے اس کی مرد اس وقت صرف پشاور تالمغان و کابل کے علاقے تھے۔ الپتگین دریائے لمغان سے جناب مشرق اور دریائے کابل سے جانب شمال نہیں آسکا تھا۔البتہ شہر کابل سے دریائے کابل کے جنوبی کناروں کے ساتھ ساتھ آتا رہا حتیٰ کہ مشرق میں وہ دریائے سندھ کے مغربی کنارے تک قابض ہوا دریائے کابل کے اپنے گھاٹ پر جہاں وہ دریائے سندھ میں گرتا ہے قریب ایک گزرگاہ ہے جو اس زمانے میں اور اب بھی ویہند کے لئے جائے عبور رہی ہے۔ سبکتگین اسے پار نہ کر سکا۔ حالانکہ دریائے کابل کے کنارے والی گزر گاہ کھنڈ سے صرف چودہ میل کے فاسلہ پر دیہند واقع ہے۔
۲۔ سلطان محمود غزنوی ۴۱۲ھ میں لاہور پر قابض ہوا اور اپنے نام کا خطبہ پڑھوایا۔ مطلب یہ ہے کہ یہاں لاہور میں اس نے مسجد بنائی تھی۔
تینتیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
۳۔ دریا: یہاں دریا سے مراد دریائے منہارہ یا دریائے کابل ہے جسے لنڈے دریا کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس دریا پر زمانہ قدیم سے ایک مقام ہے جو گزر گاہ یعنی جائے عبور رہا ہے جس کا نام اس وقت کھنڈ سے مشہور ہے ۔ کابل اور غزنی وغیرہ کے آنے جانے والے لوگ اسی مقام پر دریا عبور کرتے تھے جہاں سے راستہ بنا ہوا تھا جو دیہند اور لاہور تک پہنچتا تھا۔ اب بھی اس راستے کی نشانیاں موجود ہیں ہند کے مقام پر بھی ایک گزر گاہ یعنی جائے عبور تھی جو ہندوستان آنے جانے والوں کے لئے استعمال ہوتی تھی اور ان دونوں مقامات کی گزر گاہ یعنی جائے عبور اب بھی وہی کام کرتی ہیں یعنی کشتیاں آر پار ہوتی ہیں مگر اب پلوں اور سڑکوں کے سبب غیر ضروری ہوگئی ہیں۔
یہ بھی معلوم رہے کہ مقام ہند سے مقام کھنڈ تک کے درمیان کوئی بھی جگہ دریائے سندھ کو عبور کرنے کے لئے ہرگز موزوں نہ تھی ۔وجہ یہ تھی کہ اس کے درمیان میں اپنی کا بہاؤ ہمیشہ سے تیز چلا آتا ہے اور اب بھی وہی حالت ہے۔
رباط ماکلہ:اب یہ گاؤں اس نام سے موجود نہیں جیسا کہ مہنارہ گاؤں اب نہیں ہے۔ البتہ کھنڈ کے مقام پر دریائے کابل سے مشرق کو پار ہو کر جہاں منارہ گاؤں واقع تھا تو اس کے مشرق میں رباط ماکلہ بھی موضع بیتور کے جنوب میں قریب ہی واقع تھی اور جس قلعہ میں سلطان مسعود قلہ گیر ہوا تھا وہ بیتور ہی کا چھوٹا سا قلعہ تھا جس کا ذکر البیرونی نے کیا ہے۔ بیتور اس وقت تور ڈھیر کے نام سے مشہور و معروف قصبہ ہے اور اس کے جنوب میں قریب ہی آب سند موجود ہے جس کا مقامی نام اباسین بھی ہے۔ اور اس دریا کا عام نام دریائے سندھ ہے۔
قلعہ گری: بقول البیرونی یہ کلارجگ پہاڑ یعنی مہابن سے تین فرسخ کے فاصلے پر جنوب میں واقع تھا۔ آج کل یہ مقام پشتو زبان میں ’’کلاگریاکولاگر‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ جو قلعہ گری ہی سے بنا ہے۔ یہاں اس وقت ایک افغان گدون قبیلہ رہائش پذیر ہے۔ اور یہ قلعہ تحصیل صوابی ضلع مردان میں موضع گندف کے شمال میں واقع تھا اور یہ مقام لاہوردیہند سے مشرق کی طرف تقریباً ۳۲ میل کے فاصلہ پر پہاڑیوں کے درمیان واقع تھا۔
۴۔ دیبور یا دنبور: یہ مقام بحوالہ البیرونی پشاور سے جانب مغرب پندرہ فرسخ یعنی ساٹھ میل کے فاصلہ پر کابل کے راستہ میں واقع تھا۔(جاری ہے)
پینتیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پٹھانوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں سے ’’تذکرہ‘‘ ایک منفرد اور جامع مگر سادہ زبان میں مکمل تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔خان روشن خان نے اسکا پہلا ایڈیشن 1980 میں شائع کیا تھا۔یہ کتاب بعد ازاں پٹھانوں میں بے حد مقبول ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ پٹھان بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباو اجداد اسلام پسند تھے ۔ان کی تحقیق کے مطابق امہات المومنین میں سے حضرت صفیہؓ بھی پٹھان قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہودیت سے عیسایت اور پھر دین محمدیﷺ تک ایمان کاسفرکرنے والی اس شجاع ،حریت پسند اور حق گو قوم نے صدیوں تک اپنی شناخت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ پٹھانوں کی تاریخ و تمدن پر خان روشن خان کی تحقیقی کتاب تذکرہ کے چیدہ چیدہ ابواب ڈیلی پاکستان آن لائن میں شائع کئے جارہے ہیں تاکہ نئی نسل اور اہل علم کو پٹھانوں کی اصلیت اور انکے مزاج کا ادراک ہوسکے۔