جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر98

جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر98
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر98

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

’’کلکنی! تجھے تو میرے شراپ سے اب دیوتا بھی نہ بچا پائیں گے۔ تیرے کارن مجھے میرے چیلے کی یہ دشا بنانا پڑی‘‘ اس نے کالی داس کے جسم سے بننے والے راکھ کے ڈھیر کی طرف اشارہ کیا۔ رادھا کے چہرے پر ایسا سکون طاری تھا جیسے وہ بدبخت اس کے بجائے کسی اور سے مخاطب ہوا۔ اور یہ سب اعجاز دین اسلام کا تھا۔ جس کو قبول کرنے والے صرف ایک اللہ وحدہ لا شریک سے ڈرتے ہیں۔ ملنگک کا حشر دیکھنے کے باوجود وہ بڑے سکون سے بولی۔

جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر97 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
’’وشنو داس! میں نے جیون بھر کوئی پن نہیں کمایا۔ نہ جانے کتنے منشوں اور اپنی جاتی کے سندر جوانوں کو اپنی اچھا پوری کرنے کے بعد پرلوک بھیج دیا۔ پرنتو اس منش‘‘ اس نے میری جانب اشارہ کیا۔
’’اس نے مجھے ایسے دھرم کی راہ دکھائی جس پر چل کر سب کو مکتی ملی جاتی ہے۔ میں پھر کہتی ہوں ان راہوں سے باز آجا اور سنسار بنانے والے کو مان کر مکتی پالے نہیں تو ۔۔۔‘‘
’’پاپن! تو وشنو داس مہاراج کو اپدیش دے گی۔۔۔جس نے سارا جیون دیوی دیوتاؤں کے چرنوں میں تپسیا کرتے بتا دیا۔ میری تیوری کابل دیوتاؤں کے وچار(فیصلے) بدل دیتا ہے۔‘‘ وشنو داس ، رادھا کے بات کاٹ کر دھاڑا۔
’’یدی میں چاہتا تو ایک پل میں ان سب کو نرکھ میں پہنچا دیتا۔ پرنتو میں ان پاپیوں کا بلیدان کالی ماتا کے چرنوں میں کروں گا۔ اسی کارن یہ دھشٹ جیوت ہیں۔ سن۔۔۔یدی اب بھی تو اپنے وچار بدل کر دھرم کو اپنا لے تو میں وچن دیتا ہوں تیرے واسطے دیوتاؤں کے آگے بنتی کرکے شما مانگ لوں گا‘‘ اس بار وہ نرم لہجے میں رادھا سے بولا۔
’’جیون لینا اور دینا اوپر والے کا کام ہے، یدی تو چاہے تو ایک چیٹی کو بھی اس کی آگیا کے بنا کچھ نہیں کہہ سکتا۔ میں مرتیو سویکار کر لوں گی پرنتو دھرم جو میں ے چن لیا ہے اس پر سے نہ ہٹوں گی۔ تجھے جو کرنا ہے کر لے‘‘ رادھا نے بڑے مضبوط لہجے میں کہا۔ وشنو داس انکار سن کر مشتعل ہوگیا۔
’’پاپن! کیا تو نے نہیں دیکھا میں نے ان بھاشن(تقریر) دینے والوں کی کیا دشا بنا دی؟‘‘ اس نے ملنگ اور عبدالودودکی طرف اشارہ کیا۔ جن کے چہرے کرب و اذیت سے مسخ ہو چکے تھے۔ شدید تکلیف کے باوجود صبر و ضبط ایک مثال تھا۔ وشنو داس پر ایک نظر مجھ پر ڈال کر رادھا کی طرف مڑا۔
’’اب تیرے اس پریمی کی باری ہے جس کے کارن تو نے اپنا دھرم نشٹ کر دیا۔‘‘ اس نے اپنے ہاتھ کا رخ میری طرف کر دیا۔
’’وشنو داس! جس نے جیون دان کیا ہے یدی اس کے نام پر ایسے ہجاروں جیوان بلیدان کرنا پڑیں تو میں نا نہیں کہوں گی‘‘ اس کی با سن کر وشنو داس کو پتنگے لڑ گئے۔
’’پان! اب تو دیا کہ بھکشا بھی مانگ گی تو نہ ملے گی‘‘ اس نے اپنے ہاتھ کا رخ میری طرف موڑا۔ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ لیکن رادھا کی بات سن کر میرا سینہ فخر سے پھول گیا۔ واقعی پاک اللہ کے لئے ایک زندگی تو کیا ہزاروں زندگیاں قربان کی جا سکتی ہیں بلکہ ہم مسلمان تو اسے سعادت سمجھتے ہیں کہ جان ، جان آفرین کے نام پر قربان ہو جائے۔ وشنو داس مجھے غور سے دیکھ رہا تھا۔ شاید وہ توقع کر رہا تھا کہ میں اسے معافی مانگوں گا۔
’’وشنو داس! تیرے جیسے شیطان سے معافی مانگ کر میں اپنا ایمان خراب کرنا نہیں چاہتا۔ مجھے یقین ہے اگر اللہ تعالیٰ نے ہم سب کی موت تیرے ہاتھوں لکھی ہے تو کوئی ہمیں بچا نہیں سکتا۔۔۔اگر اسے ہمیں بچانا مقصود ہوگا تو تو کیا دنیا کی کوئی طاقت ہمیں نہیں مار سکتی‘‘ میرا عزم دیکھ کر وہ بھڑک گیا۔ کچھ دیر وہ غضبناک نگاہوں سے مجھے دیکھتا رہا۔
پھربری طرح چونک اٹھا۔ وہ سکتے کے عالم میں میرے پیچھے دیکھ رہا تھا۔ اس کا ہاتھ اٹھا کا اٹھارہ گیا۔ اچانک اس کے چہرے پر شکست خوردگی کے آثار چھا گئے۔ چہرے سے الجھن کا اظہار ہو رہا تھا جیسے اسے کوئی فیصلہ کرنے میں دشواری ہو۔ میں نے اس کی نظروں کا تعاقب کیا اور اپنے پیچھے کھڑی شخصیت کو دیکھ کر میں ششدر رہ گیا۔ میرے پیچھے حضرت صاحب کھڑے تھے۔ وہی حضرت صاحب جو محمد شریف کی درخواست پر میرے گھر کا حصار کرنے تشریف لائے تھے وہ قوم جنات میں ولی کامل تھے۔ ان کا پر جلال چہرہ غیض و غضب کا نمونہ بنا ہوا تھا۔ محمد شریف نے بھی حضرت صاحب کو دیکھ لیا تھا۔ خوشی سے اس کا چہرہ چمکنے لگا۔ وشنو داس کچھ دیر حضرت صاحب کو دیکھتا رہا۔
’’کیا تو بھی ان کی سہائتا کرنے آیا ہے؟‘‘ اس کے چہرے پر سنجیدگی چھا گئی تھی۔ حضرت صاحب نے اسے کوئی جواب دینے کے بجائے ایک نظر ملنگ اور عبدالودود پر ڈالی اس کے ساتھ ہی وہ بندشوں سے آزاد ہوگئے۔ حضرت صاحب کی ایک نگاہ ان پر پڑی تھی۔ مجھے یاد آیا میں نے کہیں پڑھا تھا۔
’’مومن کی نگاہ سے ڈرو وہ اللہ کی عطا کی ہوئی فراست سے دیکھتا ہے‘‘ حضرت صاحب کی نگاہ میں وہ تاثیر تھی جس نے وشنو داس کی بندشوں کو کاٹ دیا تھا۔ اللہ والے عبادت و ریاضت اور اللہ کی رحمت سے وہ مقام حاصل کر لیتے ہیں جسے شیطان کے پیروکار سمجھ نہیں پاتے۔ وشنو داس کے پیچھے کھڑے پجاریوں میں کھلبلی مچ گئی۔ وہ بے چین دکھائی دینے لگے۔ بندشوں سے آزاد ہوتے ہی ملنگ اور عبدالودود کھڑے ہوگئے۔ عبدالودود کے چہرے پر شرمندگی تھی۔
’’مرشد ! معافی کا خوستگار ہوں بے خبری میں مار کھا گیا۔ ‘‘ اس کی نظریں جھک گئیں۔ حضرت صاحب نے شفقت سے اسے دیکھا۔ ان کا نورانی چہرہ مسکراہٹ سے مزید روشن ہوگیا۔ اس کے بعد انہوں نے رادھا کی طرف دیکھا جو نظریں جھکائے کھڑی تھی۔
’’میری بچی ! ادھر آؤ‘‘ انہوں نے اسے اپنے پاس بلایا۔ رادھا سارھی کا پلو سر پر درست کرتی ان کے قریب چلی گئی۔ انہوں نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔
’’تم نجات پا گئیں جس کے لئے میں تمہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ برائی کے راستے کو چھوڑ کر تم سچے دین پر آگئی ہو یہی راہ نجات ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ تمہارے درجات بلند کرے‘‘ بے اختیار سب کے منہ سے نکلا’’آمین‘‘ اس کے بعد حضرت صاحب وشنو داس کی طرف متوجہ ہوئے۔
’’میں تمہیں بھی اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ ان سب کھیل تماشوں میں کچھ نہیں رکھا۔ دنیا چند روزہ کھیل تماشہ ہے۔ شیطان ہم سب کا کھلا دشمن ہے۔ اس کا کام بہکانہ ہے جس کا اس نے رب کائنات سے وعدہ کیا ہے۔ جو کوئی دنیا میں شیطان کے بتائے ہوئے راستے پر چلتا ہے جہنم میں بھی اس کا ساتھی بنے گا۔ تم نے علم حاصل کیا لیکن اس پر عمل نہ کیا۔ مذہب کوئی بھی ہو وہ انسانیت کا درس دیتا ہے لیکن تم نے اس کے برخلاف عمل کرے اپنی ساری ریاضت کو مٹی میں ملا دیا۔ میں ایک بار پھر تمہیں سمجھاتا ہوں کہ شیطان کی اطاعت سے باز آکر راہ راست پر چلو۔‘‘ بڑے ہی شفیق لہجے میں حضرت صاحب نے اسے سمجھایا۔
’’بند کر اپنا یہ ناٹک‘‘ وشنو داس دھڑا۔
’’ان بالکوں کو تو اس نوٹنکی سے اپنے بس میں کر سکتا ہے پرنتو اس سمے تو وشنو داس مہاراج کے سامنے کھڑا جس نے ورشوں کالی ماتا اور دیوی دیوتاؤں کی تپسیا میں سمے بتایا ہے۔ تو نہیں جانتا میری شکتی اپرم پار(بے پناہ) ہے‘‘ وہ حقارت سے بولا۔
’’یہی تو میں تمہیں سمجھا رہا ہوں کہ جو وقت تم نے اپنے مذہب کی تعلیمات حاصل کرنے میں گزارا ہے۔ اس کے مطابق انسانوں کے لئے باعث سکون بنو نہ کہ ان کو ایذا دو‘‘ حضرت صاحب کی مہربان آواز آئی۔
’’جیادہ جیب نہ چلا۔ میں تجھے اوسر (موقع) دیتا ہوں کہ تو اپنے من کے ارمان نکال لے کہیں ایسا نہ ہو بعد میں تجھے دکھ ہو۔۔۔وشنو داس مہاراج نے تجھے اوسر نہ دیا۔‘‘ وہ مسلسل تکبر اور غرور کا مظاہرہ کر رہا تھا۔
’’میں فقط یہ چاہتا ہوں کہ تم ان بے قصور انسانوں کو یہاں سے جانے دو انہوں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟‘‘ حضرت صاحب نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔
’’ان پاپیوں کو جانے دوں، اس پاپن کو بھی جانے دوں۔۔۔؟‘‘ اس نے رادھا کی طرف اشارہ کیا۔
’’جس نے ہمرادھرم نشٹ کر دیا۔‘‘ وشنو داس پیچ و تاب کھا کر بولا۔
’’میں ان کو ساتھ لے جانے کے لیے آیا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ ایک ذی علم شخص کو میرے ہاتھوں نقصان پہنچے۔ یوں بھی ہمارے مذہب میں بے وجہ لڑائی جھگڑے اور زمین پر فساد پھیلانے سے منع کیا گیا ہے۔‘‘ حضرت صاحب ابھی تک اسے سمجھا رہے تھے۔ وشنو داس کی بد تمیزی کو انہوں نے بڑے صبر سے برداشت کیا تھا۔
’’پرنتو ہمرے دھرم میں ایسا کرنے کی آگیا دی گئی ہے‘‘ وشنوداس نے تمسخر سے کہا۔
’’یدی تو ڈر گیا ہے تو میں تجھے آگیا دیتا ہوں کہ یہاں سے چلا جا۔ پرنتو جانے سے پہلے میرے چرن چھو کر مجھے مہا شکتی مان سویکار کر‘‘وہ غرور و تکبر کا پتلا مسلسل ہر زہ سرائی کر رہا تھا۔
’’میں تمہارے قدموں کو ہاتھ لگانے پر بھی تیار ہوں اگر تم اللہ کاپیغام سن کر اس پر غور کرنے کا وعدہ کرو۔‘‘ یہ برداشت کی انتہا تھی۔ عجز کی انتہا تھی خود کی نفی کرکے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے عاجزی اختیار کرنا کوئی ولی کامل ہی ایسے ضبط کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔
’’جان پڑتا ہے تو کچھ لے کر ہی جائے گا‘‘ وشنو داس دانت پیس کر بولا۔ ساتھ ہی اس کے ہونٹ متحرک ہوگئے۔ حضرت صاحب اطمینان سے کھڑے رہے۔ وشنو داس نے اپنا ہاتھ بلند کیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک سانپ آگیا۔ کالا سیاہ سانپ جس کے منہ سے شعلے نکل رہے تھے۔ اس کی شکل اتنی خوفناک تھی کہ دل دہل جائیں۔ معنی خیز نظروں سے گھورتے ہوئے اس نے وہ سانپ حضرت صاحب کی طرف اچھال دیا۔ سانپ تیر کی طرف ان کی طرف بڑھا۔ اچانک حضرت صاحب کی آنکھوں سے بجلی کوندی اور سانپ جل کر راکھ ہوگیا۔ جلال سے ان کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔ انہوں نے ایک قہر بار نگاہ وشنو داس پر ڈالی۔
’’میرے بچو! چلو چلیں‘‘ وہ باہر جانے والے راستے کی طرف مڑے۔
’’کیا تو نے مجھے مورکھ سمجھ رکھا۔۔۔میں تجھے جانے کی آگیا دے دوں گا؟‘‘ وشنو داس پہلو بدل کر بولا۔ اس کے بعد اس نے مختلف شعبدے دکھانے شروع کر دیے۔ کچھ دیر تو حضرت صاحب برداشت کرتے رہے۔ اس کے بعد انہوں نے آخری بار اسے سمجھایا لیکن اس پر مطلق اثر نہ ہوا۔ حضرت صاحب نے ایک بار پھر باہر کی جانب قدم بڑھائے۔ وشنو داس اپنے وار خالی جاتے دیکھ کر پاگل ہوگیا۔ اس نے کسی اجنبی زبان میں فلک شگاف نعرہ لگایا اور اپنے گندے جسم سے میل کی ایک تہہ اتار کر ان کی طرف اچھال دی۔ حضرت صاحب جو دروازے کی طرف رخ کیے کھڑے تھے یکدم مڑے۔۔۔ان کی نگاہ اتھی۔۔۔ایک عجیب نظارہ دیکھنے کو ملا۔ ان کی آنکھوں سے برق نکلی جیسے آسمانی بجلی زمین پر گرتی ہے۔ وشنو داس ایک دلدوز چیخ کے ساتھ زمین پر گر گیا۔ اس کے سارے جسم نے آگ پکڑ لی تھی۔ وہ زمین پر پڑا بری طرح ڈکرارہا تھا۔ آگ نے آنا فاناً اسے راکھ کے ڈھیر میں بدل دیا۔ اپنے گرو کی یہ حالت دیکھ کر سب پجاری تھرتھرا اٹھے اچانک وہ زمین پر گر گئے۔
’’گرو جی! ہمیں شما کر دو۔۔۔دیا کرو ہم پر۔۔۔تم بلوان ہو۔۔۔تمری شکتی اپرم پار(تمہاری طاقت بے پناہ ) ہے۔۔۔ہمیں شما کر دو۔۔۔ہم وچن دیتے ہیں کہ پھر کبھی تمری راہ میں نہ آئیں گے‘‘ وہ یک زبان ہو کر چیخ رہے تھے اور اپنے ماتھے زمین پر رگڑ رہے تھے۔
’’اٹھ کر کھڑے ہو جاؤ‘‘ حضرت صاحب نے مہربان آواز میں انہیں حکم دیا۔
’’وہ تھرتھر کانپتے کھڑے ہوگئے۔ خوف سے ان کے چہرے پیلے پڑ چکے تھے۔ ہاتھ جوڑے وہ حضرت صاحب کے اگلے حکم کے منتظر تھے۔
’’اگر جھکنا ہے تو ایک اللہ وحدہ لاشریک کے آگے جھکو۔ وہی سب کائنات کا ملک ہے۔ سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے ۔ میرا کام تم لوگوں کو اللہ کا پیغام دینا تھا سو میں نے دے دیا۔ میرا تعلق قوم جنات سے ہے۔ ہمیں بعض کاموں میں انسانوں پر فضیلت دی گئی ہے۔ لیکن انسان کو تو اللہ پاک نے اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ ہماری قوم انسان پر رشک کرتی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنا نائب بنا کر زمین کی خلافت عطا فرمائی ہے۔ لیکن مجھے تم لوگوں کے سلوک پر افسوس ہوا ہے کہ تم انسان ہو کر انسانوں کو ناحق قتل کر رہے ہو اور زمین پر دنگا فساد پھیلاتے ہو۔‘‘ حضرت صاحب نے تاسف سے سر ہلایا۔
’’جاؤ اپنے مقام پر واپس چلے جاؤ اور عہد کرو کہ آج سے تم انسان کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرو گے نہ کہ اسے ستانے کے لیے۔‘‘
ایک بار پھر گھپ اندھیرا چھا گیا لیکن صرف ایک پل کے لئے۔ دوسرے ہی لمحے کمرہ پھر روشن ہوگیا۔ پجاری جاچکے تھے۔ وشنو داس اور کالی داس کی راکھ بھی موجود نہ تھی۔ شاید پجاری اسے ساتھ لے گئے تھے۔ حضرت صاحب نے کچھ دیر کے لئے آنکھیں بند کرلیں۔ سب سر جھکائے خاموش کھڑے تھے۔ میں چاہتا تھا کہ حضرت صاحب کی توجہ صائمہ کی طرف دلاؤں وہ ابھی تک بے ہوش تھی۔ انہوں نے مشفقانہ نگاہ مجھ پر ڈالی۔
’’ادھر آؤ میرے بچے!‘‘ انہوں نے مجھے بلایا۔ میں ایسے ان کی طرف کھینچتا چلا گیا جیسے لوہا مقناطیس کی طرف۔ انہوں نے میرے دونوں ہاتھ تھام لیا۔
’’تم بھی مبارک باد کے مستحق ہو۔ تم گناہوں کی دلدل میں دھنس چکے تھے لیکن تمہاری نیک بیوی نے تمہارے ضمیر کو جھنجھوڑا تم شرمسار ہوئے اور گناہ کا راستہ چھوڑ کر اس معبود برحق کے آگے سر بسجود ہوگئے اور اس پر قائم رہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری یہ بچی تم سے متاثرہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ہدایت سے نوازا اور یہ مسلمان ہوگئی۔ تم کافی مشقفت اور مصیبت اٹھا چکے ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ رحیم و کریم ہے۔ وہ اس بندے کے گناہ معاف فرما دیتا ہے جو سچے دل سے توبہ کر لے اور اس پر قائم رہے۔ تم نے جو راستہ اختیار کیا تھا وہ سیدھا جہنم کو جاتاتھا لیکن اس رحمن الرحیم کی مہربانی دیکھو اس نے تمہاری دل سے کی ہوئی توبہ نہ صرف قبول فرمائی بلکہ تمہیں انعام کے طور پر سعادت بھی عطا فرمائی کہ تم ایک کافرہ کے قبول اسلام کی سعادت کے لئے چن لئے گئے۔‘‘حضرت صاحب کی گھمبیر آواز گونج رہی تھی۔ میری ہچکیاں بندھ گئیں۔ اپنے گناہوں پر شرمندگی کے احساس نے مجھے سر جھکانے پر مجبور کر دیا۔’’ میرے بچے! یاد رکھنا اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاکی کو پسند فرماتا ہے۔ کوشش کرو کہ تم کبھی نماز سے غافل نہ رہو۔ وضو اور نماز ، شیطان کے خلاف ڈھال کا کام دیتے ہیں۔ ہمیشہ باوضو رہنے والے پر اس معلون ابلیس کا داؤ نہیں چلتا‘‘ میرا ہاتھ اپنے نرم و نازک پاکیزہ ہاتھوں میں تھامے وہ درس دے رہے تھے۔ ان کا ایک ایک لفظ میرے دل میں اتر رہا تھا۔
’’میرے پاس آؤ میرے بچے!‘‘ انہوں نے عبدالودود کو اپنے پاس بلایا۔ اس کے بعد وہ رادھا کی طرف متوجہ ہوئے جس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں۔
’’میری بچی! میں چاہتا ہوں تمہارا نکاح عبدالودود سے کر دوں اگر تمہیں اعتراض نہ ہو؟‘‘ سب حیران رہ گئے۔ رادھا بری طرح شرما گئی۔ اب سے کچھ عرصہ قبل وہ بڑی بے باکی سے باتیں کرتی تھیں، بعض مرتبہ میں بھی شرما جاتا لیکن اسلام کو قبول کرتے ہی اس اس کے اندر حیا خود بخود آگئی تھی۔ (جاری ہے)

جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ آخری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزید :

رادھا -