آخری قسط ۔۔۔ جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی
رادھا نے زبان سے تو کچھ نہ کہا البتہ سر ہلا کر اس کی منظوری دے دی اور ساڑھی کے پلو کو کچھ اور آگے کھینچ کر اپنا چہرہ چھپا لیا۔
’’مشورہ کرنا سنت نبوی ﷺ ہے۔ چونکہ عبدالودود مجھے یہ حق تفویض کر چکا ہے کہ میں جہاں چاہوں اس کا نکاح کر سکتا ہوں اس لئے میں نے اپنے بچے سے نہ پوچھا۔ لیکن آپ ہمارے بھائی ہیں۔۔۔یہ سعادت انجام دینے سے پہلے میں آپ بھائیوں سے مشاورت کرنا ضروری سمجھا ہوں۔ کیوں برخودار؟‘‘ انہوں نے محمد شریف کی طرف دیکھا۔
’’مرشد! اللہ آپ کے درجات بلند کرے اس نیک کام میں دیر کرنا مناسب نہیں۔ میں آپ سے متفق ہوں‘‘ وہ نہایت ادب سے بولا۔ حضرت صاحب نے ابھی تک کمال مہربانی سے میرا ہاتھ تھاما ہوا تھا۔
’’برخوردار فاروق احمد! آپ کا کیا مشورہ ہے؟‘‘ انہوں نے مسکرا کر میری طرف دیکھا۔
’’حضرت صاحب! آپ ذی علم ہیں۔ میں نا چیز آپ کے اس حکم سے اتفاق کرتا ہوں‘‘ میں نے ادب سے کہا۔
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر98 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’الحمد للہ‘‘ انہوں نے چھت کی طرف نگاہ دوڑائی۔ میں چاہتا تھا کہ حضرت صاحب کی توجہ صائمہ کی طرف دلاؤں۔میں نے بیڈ کی طرف دیکھا تو میرا دل دھک رہ گیا۔ بیڈ پر دھند سی چھائی ہوئی تھی۔ کچھ نظر نہ آرہا تھا جبکہ کچھ دیر قبل صائمہ باریک پردوں کے پیچھے صاف دکھائی دے رہی تھی۔ میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ جلدی سے بیڈ کی طرف بڑھا۔
’’برخوردار!‘‘ حضرت صاحب کی آواز آئی۔ میں نے مڑ کر ان کی طرف دیکھا۔
’’فکر نہ کرو ہم نے صائمہ بٹیا کو سب کی نگاہوں سے وقتی طور پر اوجھل کرنے کے لیے یہ سب کیا ہے۔ یہاں آپ کے علاوہ کچھ نامحرم بھی موجود ہیں۔ اور بٹیا کالباس جوان کافروں نے انہیں زیب تن کروایا تھا نامناسب ہے اس لئے ہمیں اس پردے کا بندوبست کرنا پڑا‘‘ وہ میری پریشانی بھانپ چکے تھے اطمینان بھری ایک سانس میرے سینے سے خارج ہوگئی۔ حضرت صاحب کے تقویٰ سے میرا دل بہت متاثر ہوا۔ ’’بیٹی! اگر تمہیں منظور ہو تو اہم تمہارا اسلامی نام تجویز کرنا چاہتے ہیں؟‘‘ انہوں نے رادھا سے کہا۔
’’اب تو آپ ہی ہمرے بڑے ہیں جو آپ کوبھلا دکھے ہم سے پوچھے بنا آگیا دیں ہم منع نہیں کریں گے‘‘ رادھا نے نہایت ادب سے جواب دیا۔
’’اللہ تعالیٰ تمہیں شاد آباد رکھے آمین‘‘ انہوں نے رادھا کے تابعداری سے خوش ہوکر اسے دعا دی۔ ہمارا خیال ہے ان کا نام عابدہ ہونا چاہئے۔‘‘ سب نے ان کی با کی تائید کی۔
’’عابدہ بیٹی! آپ جا کر صائمہ بیٹا کا لباس تبدیل کر دیں۔ الحمد اللہ وہ ہوش میں آچکی ہیں۔ لباس ان کے پاس رکھا مل جائے گا۔‘‘ انہوں نے عابدہ کو حکم دیا۔
’’جو آگیا مہاراج مم۔۔۔حجرت جی‘‘ اس کے اس طرح کہنے سے سب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی لیکن پاس ادب سے خاموش رہے۔ رادھا بیڈ کے پاس جا کر دھند میں غائب ہوگئی۔ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ صائمہ کے ہوش میں آنے کی خبر سن کر میری آنکھیں خوشی کے آنسوؤں سے لبریز ہوگئیں۔ اور دل بے اختیار اللہ کا شکر اا کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد دھند چھٹنی شروع ہوگئی۔
بیڈ کے پاس ہی صائمہ اور عابدہ کھڑی تھی۔ صائمہ نے نہایت قرینے کا لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ محمد شریف اور عبدالودود نے نظریں جھکا لیں۔ صائمہ کو بھلا چنگا دیکھ کر میں نے سکون کی سانس لی۔
’’حضرت صاحب! میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں‘‘ میں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
’’میری بچی! ادھر آؤ۔ انہوں نے صائمہ اور عابدہ کو بلایا۔ دونوں چلتی ہوئی ان کے پاس آگئیں۔ بڑی سی چادروں سے ان کے چہرے اور جسم اچھی طرح ڈھکے ہوئے تھے۔ حضرت صاحب نے صائمہ کے سر پر ہاتھ رکھا۔
’’جو بھی مصیبت یا تکلیف۔۔۔جن وانس کو آتی ہے اللہ کے اذن سے آتی ہے۔ جس سے اس ذات کریم کا مقصد اپنی مخلوق کے گناہ معاف فرمانا اور درجات کو بلند کرنا ہوتا ہے۔ تم نیک ماں باپ کی اولاد ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں شرم و حیا کے زیور سے آراستہ کیا ہے۔ جو کچھ ہوا اسے بھول کر اپنی زندگی اسلام کی تبلیغ میں صرف کرو۔ ہر دم اللہ کا شکر اداکرو۔ صرف عبادت کر لینا کوئی کمال نہیں۔ اگر اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ اور ان کے صحابہ بھی اپنی عبادت کرتے تو سوچو ہم لوگ آج کیا مسلمان ہوتے؟ انسان۔۔۔خاص کرامت محمد ﷺ پر لازم ہے کہ وہ اسلام کی تبلیغ کو اپنے روزہ مرہ کے کاموں کا حصہ بنا لے۔ اسی میں نجات ہے۔‘‘ سب سرجھکائے ان کی ایمان افروز باتیں سن رہے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے میری اور محمد شریف کی موجودگی میں عبدالودود اور عابدہ کا نکاح پڑھایا۔ ان کی خوش الحانی سے پڑھی گئی قرات مجھے آج بھی یاد ہے۔ گواہ ہم دونوں یعنی محمد شریف اور میں تھے۔ سب نے عبدالودود کو مبارک باد دی۔ حضرت صاحب نے مٹھائی تقسیم کی جو عبدالودود ایک لمحے میں لے آیا تھا۔ لیکن اس کے لئے رقم محمد شریف نے بہم پہنچائی کہ حضرت صاحب کا فرمان تھا بلا قیمت کسی سے چیز لے آنا جائز نہیں ہے بلکہ حرام ہے۔ صائمہ میرے ساتھ کھڑی تھی۔ دہ بار بار میری طرف دیکھ رہی تھی۔ میں اسکی بے چینی کی وجہ سے آگاہ تھا۔ وہ بچوں کے لئے فکر مند تھی۔ نکاح کے بعد حضرت صاحب نے دونوں کے حق میں دعا فرمائی اور انہیں قوم جنات کے دوسرے افراد کی تبلیغ کے لیے دوسرے پر بھیج دیا۔ ان کے جانے کے بعد حضرت صاحب نے ہمیں حکم دیا کہ اپنی آنکھیں بند کر لیں اور ان کی اجازت کے بغیر ہرگز نہ کھولیں۔ آنکھیں بند کرتے ہی مجھے اپناجسم ہلکا پھلکا محسوس ہوا۔ بعدمیں صائمہ اور محمد شریف نے میرے پوچھنے پر بتایا تھا کہ انہیں بھی ایسا ہی محسوس ہوا تھا۔
’’میرے بچو! اانکھیں کھول دو۔‘‘ ان کہ مہربان آواز آئی۔ میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو ہم اپنی گاڑی کے پاس کھڑے تھے۔ آسمان پر صبح کی روشنی نمودار ہونے لگی تھی۔ صبح کاذب کا وقت تھا۔
’’بچو ! جاؤ اللہ تماہرا حامی ہو ناصر ہو۔ میری درخواست پر غور کرنا اور اپنی مصروفیات میں سے تھوڑا بہت وقت نکال کر اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لئے اسلام کی تبلیغ کرتے رہنا۔ حضرت صاحب کی آواز سنائی دی لیکن وہ نظروں سے اوجھل تھے۔
’’یا حضرت! کیا وہ دوبارہ آپ کی صحبت سے شرف یابی ممکن ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’اگر اللہ کا حکم ہوا تو کیونکہ ہم سے اس کے حکم کے پابند ہے جس کے حکم کے بغیر پتا نہیں ہل سکتا۔ اچھا میرے بچو! اللہ حافظ‘‘ اس کے ساتھ ہی آواز آنا بند ہوگئی۔ ہم جس جگہ کھڑے تھے وہاں دور دور تک کسی متنفس کا وجود نہ تھا۔ صائمہ نے چادر کا پلو سر سے کھسکا کر پیار بھری نظروں سے میری طرف دیکھا۔ میں نے بے اختیار اسے اپنے بازؤں میں بھر لیا۔ وہ میرے شانے سے لگ کر سسکنے لگی۔ میری آنکھوں میں بھی پانی اتر آیا۔ کافی دیر ہم یوں ہی کھڑے رہے۔ اس کے بعد میں نے اس کا کندھا تھپتھپایا۔
’’حوصلہ کرو میری جان دیکھو اللہ پاک کے کرم سے ہم ایک بار پھر اپنی کھوئی ہوئی جنت میں واپس جا رہے ہیں‘‘ میں نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے اسے تسلی دی۔ جب ہم واپس عمران کے گھر پہنچے تو صبح کی نماز کا وقت ہو چکا تھا۔ نازش نے صائمہ کو لپٹا لیا۔ عمران میرے گلے لگ گیا۔ اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ عمران اور میں مسجد میں نماز ادا کرنے چلے گئے۔ نازش چائے بنا لائیں۔ ہم سب باتیں کرنے لگے۔ بچوں نے ماں کی آواز سنی تو جاگ گئے اور بھاگے ہوئے آکر اس سے لپٹ گئے۔ وہ بار بار اس کا منہ چومتے اور ننھے منے ہاتھوں میں اس کا چہرہ تھام کر اسے دیکھنے لگتے۔ صائمہ نے انہیں اپنے ساتھ لپٹا لیا۔ اسی دن شام کو ہم سب پروفیسر صاحب سے ملنے ان کے گھر گئے۔ رات کو ہم دونوں نے اللہ کے حضور شکرانے کے نقل ادا کئے۔ جس نے ہمیں بہت بری مصیبت سے بچایا تھا۔ اس واقعے کو گزرے آج اٹھارہ برس ہو چکے ہیں۔ اس کے بعد ہم چھ سال مزید اس شہر میں رہے پھر میری تبدیلی واپس لاہور ہوگئی۔ بیٹی کی شادی ہو چکی ہے۔ احد ڈاکٹر بن چکا ہے۔ میں اور صائمہ اکثر دعوت تبلیغ کے لے جایا کرتے ہیں۔ ہاں یاد آیا۔ اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد ایک دن عبدالودود اور عابدہ ہم سے ملنے آئے تھے۔ دونوں بہت خوش تھے۔ رادھا بلکہ عابدہ کہنا چاہیے صائمہ سے مل کر بہت خوش ہوئی۔ آج بھی جب مجھے وہ وقت یاد آتا ہے تو بے اختیار میرے منہ سے نکلتا ہے۔
اے اللہ! سب کی حفاظت فرما۔
آمین، ثم آمین۔
(ختم شد)