جنّاتی...جنات کے دوست اور رازداں کے قلم سے۔۔۔ چھٹی قسط

جنّاتی...جنات کے دوست اور رازداں کے قلم سے۔۔۔ چھٹی قسط
جنّاتی...جنات کے دوست اور رازداں کے قلم سے۔۔۔ چھٹی قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

غازی کا ہمزاد ظاہر ہوگیا

میں بابر حسین کی مدد کرنا چاہتا تھا لیکن اسکے لئے مجھے اپنے اندرخوابیدہ کو قوتوں کو مجتمع کرنا تھا اور مجھے اسکا راستہ سجھائی دے گیا تھا ۔اگلے روزمیں نے رات کو نماز عشا ء کے بعد وظیفہ پڑھا اور ایک طویل مدت کے بعد غازی کو یاد کیا ۔غازی پر مجھے ایک طرح سے بھروسہ تھا اور وہ بھی مجھ سے محبت کا دعویٰ کرتا تھا اس لئے میں نے اسکو طلب کرنے کے روحانی میسنجر سے پیغام بھیجا ۔یہ روحانی پیغام خاص تپسیہ کرنے کے بعد ہر کوئی انسان اپنے مطلوب تک پہنچا سکتا ہے مگر اس میں صدق دل اور جمعیت درکار ہوتے ہے ۔یکسوئی اور ارتکاز کا وہ لمحہ چاہئے ہوتا ہے جو انسان کو تمام خیالوں سے نکال کر ایک ایک لفظ کے پرتوں میں اُترنے کا ہنر سکھاتا ہے ۔ ایک وضاحت کردوں کہ میں نے غازی کو تسخیر نہیں کیا تھا ،تسخیر کے لئے عملیات کا سہارا لیا جاتا ہے لیکن غازی سے میرے دوستانہ تھا۔
میں دس گیارہ منٹ تک وظیفہ پرھتا رہا اسکے بعد دومنٹ کا عمل مزیدکرنا تھا جس سے غازی بندھا ہواتھا ۔میں نے عمل پڑھا لیکن غازی نہیں آیا تو میں حیران ہوا کہ اسکے ساتھ کیا ہوگیا ہے ؟ مجھے اندیشہ ہوا کہیں میں عمل غلط تو نہیں پڑھ گیا۔اس لمحے میرے جسم میں سنسنی سی پھیل گئی ۔یکایک یاد آیا۔غازی نے مجھے انتباہ کیاہوا تھا ’’ بھائی اگر تم نے یہ عمل غلط پڑھا تو میں نہیں آؤں گا لیکن جو آئے گا وہ تمہاری جان بھی لے سکتا ہے‘‘
’’ یار بندہ بشر ہوں غلطی تو ہوسکتی ہے ۔اگر کبھی غلط عمل کربیٹھوں تو مجھے کیا کرنا چاہئے‘‘ میں نے پوچھا
’’ واہ جی واہ۔مفت میں تو نہیں بتا سکتا ‘‘ اس نے ہاتھ لہرا کر کہا’’ کوئی کھانے پینے کی رشوت ہوجائے ذرا‘‘
’’ چل بول کیا کھاؤ گے۔کالا بکرا،کالا مرغا یا آئس کریم ‘‘
’’کھی کھی کھی۔۔۔ اگر آئس کریم کے ساتھ مور کا گوشت مل جائے تو بات بن سکتی ہے۔۔۔‘‘ اس نے ندیدوں کی طرح زبان لبوں پر پھیری۔
’’ تیرا دماغ تو ٹھیک ہے۔یاد ہے بابا جی نے تمہیں مور کا گوشت کھانے سے منع کیا تھا اور آئس کریم سے دور رہنے کی ہدایت کی تھی‘‘ میں نے اسے یاد دلایا۔
’’ ہاں مگر ۔۔۔ وہ کہتی ہے کہ مور کھانے سے حسن میں اضافہ ہوتا ہے اور آئس کریم کھانے سے میں گانا بہت اچھا گاسکتا ہوں‘‘ غازی نے اپنی منگیتر کو یاد کرکے کہا’’ مگر جب میں اسے کہتا ہوں تو بھی یہ چیزیں کھایا کر تو کہتی ہے جن زادیوں کو ایسی چیزیں کھانا منع ہے ۔میں کسی حکیم جنّ سے پوچھوں گا کہ جو چیز ایک جنّ کھاسکتا ہے تو جن زا دی کیوں نہیں کھا سکتی‘‘

پانچویں قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں
میں نے غازی کے لئے مور کا گوشت اور آئس کریم کا بندوبست کیا اور وہ چٹ کرنے کے بعد مجھے راز بتانے پر رضا مند ہوا۔
’’ ہاں اُس وقت تم اپنا حصار کرلینا اور حزب البحر پڑھنا شروع کردینا اور کسی بھی صورت حصار سے باہر نہ نکلنا۔ادھورا عمل پڑھنے سے میرا ہمزاد ظاہر ہوجائے گا جوتم کو نقصان پہنچائے گا‘‘ اسکی بات سن کر میں حیرت میں ڈوب گیا کہ کیا جنات کا بھی ہمزاد ہوتا ہے۔غازی نے مجھے حزب البحر پڑھنا سکھایا ۔حضرت امام شازلی ؒ کی یہ دعا کافی طویل ہے ۔میں تو اسے زبانی یاد نہ کرسکا ۔غازی کو ازبر تھی۔بولا ’’ حزب البحر مسلمان جنات کو بہت زیادہ پسند ہے ۔وہ اسکی قوت وبرکات سے بڑے بڑے کام کرجاتے ہیں ۔خاص طور پر انہیں اپنے دشمن کے خلاف اس دعا کی برکت سے فتح نصیب ہوتی ہے ۔جنات نے اپنی بستیوں کابھی حزب البحر سے حصار باندھ رکھا ہے۔‘‘ میں نے بعد میں بہت کوشش کی کہ حزب البحر کا عامل بن جاؤں اور غازی سے اسکی باقاعدہ تربیت لے لوں لیکن مصروفیات حیات میں یہ ممکن نہ ہوسکا ،تاہم میرے پاس حزب البحر کا ایک کتابی نسخہ موجود رہا کرتا تھا ۔لیکن اس وقت وہ بھی میری دسترس سے دور تھا۔
اس دوران مجھ سے ایک غلطی یہ ہوگئی کہ میں نے حصار پہلے باندھ لیا تھا لیکن حزب البحر میرے پاس نہیں تھی ۔اگر میں حصار توڑ کر نکلتا تو یہ میرے لئے دوہری مصیبت کا باعث بن جاتا ۔بالفرض میں نے غازی کو بلانے کے لئے جو عمل کیا تھا ،وہ درست بھی ہوتا تو تب بھی مجھے حصار میں ہی بیٹھ کر اسکی آمد کا انتظار کرنا تھا ،حصار سے باہر جانے کی صورت میں غازی آبھی جاتا تو اسکو عمل کے سحری اثرات سے نقصان پہنچ سکتا تھا ۔۔۔ اور کسی دوست جن زادے کو عمل سے نقصان پہنچانااچھی بات نہیں سمجھی جاتی۔ایسی صورت میں جن زادے کی قوت مسخر میں کمی ہوتی ہے اور بسا اوقات اسکی ہلاکت بھی ہوجاتی ہے۔بھلا غازی کے ساتھ میں ایساکیسے کرسکتا تھا۔میں اپنی جان تو دے سکتا تھا لیکن غازی کو نقصان پہنچانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔وہ یارمن تھا۔
میں اسی شش وپنج میں مبتلا تھا کہ کیا کروں کیا نہ کروں؟۔پھر میں نے سوچا کہ مجھے دوبارہ عمل کرنا چاہئے ۔میں ایک طویل عرصہ بعد غازی کو یاد کرنے کا یہ عمل کررہا تھا لہذا دل میں وسوسہ پیداہونا فطری بات تھی کہ کہیں عمل میں کسی لفظ کے تلفظ کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہ برت بیٹھا ہوں۔یہ عمل کوئی لمبا چوڑا تو تھا نہیں ۔اسمائے ربیّ میں سے چند اسما ء مبارکہ تھے جن کی تاثیر سے غازی پردۂ غیب سے باہر آنے کی قوت حاصل کرتا تھا ۔میں نے دوبارہ عمل کرنا شروع کیا ہی تھا کہ کمرے میں کوئی شے دھپ سے آکر گری۔اسکی بھاری بھاری گرم اور باسی سانسیں مجھے صاف سنائی دے رہی تھیں ۔معاً مجھے احساس ہوگیا کہ یہ غازی نہیں ہوسکتا اور میں عمل غلط پڑھ چکا ہوں ۔جبکہ دوسری بار عمل پڑھتے ہوئے مجھے صرف ایک منٹ ہی ہوا تھا ۔
۔۔۔تو کیا یہ غازی کا ہمزاد تھا ،کسی انسان کے ہمزاد کا نام تو سن رکھا تھا لیکن ایسے کسی ہمزاد سے ملاقات اس وقت مجھے یاد نہیں تھی کجا ایک جنّ کے ہمزاد سے ملاقات کرنا عجیب سا احساس پیدا کررہا تھا جبکہ غازی کہہ چکا تھا کہ یہ نقصان پہنچاتا ہے تو اسکا مطلب یہ ہو اکہ جنات کے ہمزاد کا شرُ ان سے بھی زیادہ ہوتا ہے ۔ یہ بات تو میں بتا چکا ہوں کہ جنات انسانوں سے زیادہ شر پسند ہوتے ہیں ،ان میں فتور کی قدرت زیادہ ہوتی ہے کیونکہ آگ سے بنی ہوئی مخلوق میں نار فطرت بھڑکتی رہتی ہے ۔
میں دل میں خوف محسوس کررہا تھا لیکن میں نے عمل پڑھنا جاری رکھا بلکہ پہلے میں خفی طور پر پڑھائی کررہا تھا لہذا اپنا خوف زائل کرنے کے لئے عمل جہر شروع کردیا۔یہ سنتے ہوئے غازی کا ہمزاد ڈکرایا تو باسی سانسوں کا بھبھوکا سونگھ کر میری سانس اٹکی اور میں لحظہ بھر کے رکا۔کمرے میں اے سی لگا ہو اتھا لیکن مجھے محسوس ہورہا تھا کہ اس عفریت نما ہمزاد کی موجودگی سے کمرے میں حبس اور گرمی بڑھ گئی ہے۔
’’ چپ کر ‘‘ وہ لفظ کھینچ کھینچ کر بولا ،کسی مجہول کی طرح ۔
میں نے اسکی سنی ان سنی کی ،عمل پڑھتا رہا بلکہ آواز مزید اونچی کردی۔اسے میری میری جسارت ناگوار گزری اور کسی گرم بگولے جیسا ایک تھپڑ میرے منہ پر جڑدیا،تھپڑ کی شدت بہت زیادہ تھی ،میں الٹ کر حصار سے باہر تک لڑہک گیا۔ پھر اس نے مجھے گریبان سے پکڑ کراٹھایا اورمیرا سر چھت سے جا ٹکایا ،شکر ہے اس وقت کمرے کا پنکھا نہیں چل رہا تھا ورنہ سر اس ے ٹکراتا اور اسکے پرخچے اڑجاتے۔
میں پڑھائی بھول گیا اور یوں دوسری باربھی میرا عمل ادھورارہ گیا۔
ان راہوں پر چلنے والے ان مصیبتوں کو خوب جانتے ہیں کہ کسی نامکمل عمل کے نتیجے میں اسے کتنی مصیبتوں سے پالا پڑسکتا ہے۔وہ زندگی بھر کے لئے عقل و فہم سے نابلد ہوجاتا،مدہوش زندگی گزارتا،معذور ہوجاتا،تڑپ تڑپ کر مرتا اور نہ جانے اسکے عزیزوں کو بھی کن کن مصیبتوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اسی لئے سیانے کہتے ہیں کہ مرشد کامل کی مدد کے بغیر کبھی عامل نہیں بننا چاہئے۔ لیکن جنات اور ہمزاد و موکلان کی محبتوں کے جنون میں مبتلا ہونے والے اس احتیاط کو مدنظر نہیں رکھتے ۔جہاں تک میں جانتا ہوں،بہت سے عامل بھی یہ راز نہیں جانتے ہوں گے کہ جنات کے بھی ہمزاد ہوتے ہیں ،یہ تو غازی جیسا میرا دوست تھا جس نے ایسے راز سے آگاہ کردیا تھا ۔میں تو اپنی غلطی کی وجہ سے اس حالت تک پہنچا تھا اور آج ایک انسان کی مدد کرنے کی غرض سے میں موت کے منہ میں جارہا تھا،ماہی بے آب کی طرح ہوا میں تڑپ رہا تھا۔
’’ غازی پر تجھے بڑا مان ہے ۔اگر تو مجھے یار بنا لیتا تو میں تیری رکھشا کرتا ،تجھے جیون کی لذتوں سے مالامال کرتا۔۔۔۔۔۔ ‘‘ اس نے میرا گلا دباتے ہوئے کہا’’ تو اگر چاہے تو میں بھی تیرا دوست بن سکتا ہوں لیکن تجھے یہ دوستی میری شرطوں پر کرنی ہوگی،ورنہ گلا دبا کر ادھر ہی مارچھوڑوں گا تجھے‘‘
میں نے پھڑپھڑاتے ہوئے بمشکل کہا’’ اچھا۔۔۔‘‘ اس سے زیادہ تو بولا نہیں جاسکتا تھا ۔
اس نے مجھے اتارنے کی بجائے اوپر ہی چھوڑ دیا اور میں جب نیچے گرا تو ٹانگیں دوہری ہوگئیں اور کمر ساکت وتختہ۔بے حس ہوکر پڑا رہا۔۔۔ لمبی لمبی سانسیں لیکر ہوش سنبھالنے لگا۔
’’ بول منظور ہے‘‘ وہ چہرہ میرے قریب لیکر آیا تو میں نے خوف سے آنکھیں بند کرلیں ،انتہائی مکروہ شکل،آنکھین ماتھے تک دراز ،ناک کے نتھنے کانوں تک پھیلے ہوئے اور کان غائب ،دانتوں کی جگہ جیسے لوہے کے کیل گڑھے ہوئے ہوں۔لب موٹے اور لٹکے ہوئے۔۔۔ اسکا چہرہ آج بھی میرے یادداشتوں کی سلیٹ پر کندہ ہے۔
’’ مجھے کیا کرنا ہوگا‘‘ میں نے آنکھیں بمشکل کھولیں۔
’’ ہاں ۔یہ جو تو پڑھ رہا تھا،اسکو الٹ ترتیب سے پڑھ اور اس میں ساتھ یہ ملا کر پڑھ‘‘ اس کی بات سنتے ہی میرے لبوں سے بے اختیار نکلا’’ لاحول ولا قوۃ۔یہ تو کفریہ کلمے ہیں اورمیں تو یہ نہیں پڑھ ۔۔۔‘‘
میرا جملہ مکمل ہونے سے پہلے اس نے مجھے پھر گلے سے دبوچا’’ جانتا ہے ۔لاکھوں تیرے جیسے مسلمان ترستے ہیں اس عمل کو پانے کے لئے ،اور تو گھر آئی سوغات کو لات مارتا ہے‘‘

’’ جانتا ہوں لیکن میں اپنے ربّ کے کلمے کو چھوڑ کر شیطان کا کلمہ نہیں پڑھ سکتا۔‘‘ میں بمشکل زور لگا کر بولا’’ اس سے مرنا بہتر ہے ‘‘
اس نے نفرت اور غصے سے مجھے لات ماری اور میرا سر دیوار سے ٹکرایا۔بس مجھے اتنا یاد ہے،میرے لبوں سے کراہ نکلی تھی۔
(جاری ہے۔ساتویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)