جنّاتی...جنات کے دوست اور رازداں کے قلم سے۔۔۔ ساتویں قسط
شاہدنذیرچودھری
مجھے قدرے ہوش آیا تواس وقت تک کافی وقت گزر چکا تھا،میرا سر بھاری تھا،چوٹ بڑی زور دار تھی جس کی وجہ سے حسیات مکمل طور پر جاگنے میں ناکام ہورہی تھیں۔میں آنکھیں بند کرکے دماغ پر زور دینے لگا کہ شاید مجھے خود کو سنبھلنے کا موقع مل جائے ۔یہ تو مجھے یاد تھا کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے لیکن میری بے ہوشی کے دوران کیا کچھ ہوا ہوگا یہ مجھے یاد نہیں تھا۔میں آنکھیں کھولنے کی بجائے دم سادھے ہی لیٹا رہنا چاہتا تھا تاکہ غازی کے ہمزاد کو میرے ہوش میں آنے کا علم نہ ہوسکے ،بڑی جستجو اور توجہ سے میں نے ذہن کو یکسو کرنے کی کوشش کی اور اپنے دولطائف میں تعلق اور یکسوئی پیدا کرتے ہوئے اخفااور قلبی پر ذکر کا مخصوص انداز اختیار کیا اور کسمسایاتو اچانک ہمزاد کا قہقہہ گونجا۔
چھٹی قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں
’’ بڑا چالاک بنتا ہے تو ۔۔۔تو کیا سمجھتا ہے میں تیرے ڈرامے سے بے خبر ہوں ۔تیری رگ رگ سے واقف ہوں ،غازی تجھے اتنا نہیں جانتا مسنے جتنا میں جانتا ہوں ‘‘
وہ قہقہے لگا کر میری بے بسی کا مذاق اڑاتا رہا۔
’’ تم سمجھتے ہوں جنّ بڑی طاقتور مخلوق ہوتے ہیں ،آج میں تیرا یہ مغالطہ بھی دور کردوں گا۔جنات کا ہمزاد جنات سے زیادہ قوی ہوتا ہے ۔اسے ان خبروں کا بھی علم ہوتا ہے جسے وہ نہیں جان سکتے لیکن تم تو لاعلم اور بے بس ہو۔۔۔ کیا تم وہ کچھ کرسکتے ہو جو میں کرسکتا ہوں ‘‘
’’ میں واقعی کچھ نہیں کرسکتا ،صرف میرا اللہ کرتا ہے۔میرے اندر تو ایک مچھر کو پکڑ کر مارنے کی قوت نہیں ہے لیکن میرا اللہ چاہے تو میں تیرے جیسے خناس کو بھی مارسکتا ہوں‘‘ میں نے اپنی قوت کو یکجا کرکے کہا۔
’’ ہم بھی اللہ کو مانتے ہیں لیکن تم جیسے لوگوں کی طرح اللہ کی مانتے نہیں ۔یہی ہماری سرشت ہے ‘‘ اس نے کھلا اعتراف کیا’’ میں تم سے بحث نہیں کرنا چاہتا، تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس حقیقت کو تسلیم کرلو کہ جو عمل تم نے پڑھا تھا اسکی قوت تسخیر سے آیا ہوں اور جا میں اس وقت ہی سکتا ہوں جب تو یہ کلمہ پڑھے گا،آنے اور جانے کے علم کا اذن چاہئے ہوتا ہے‘‘
اس سے پہلے کہ میں اسکو جواب دیتا ،ایک خیال میرے دل میں آیا اور میں نے کہا’’ تو دیکھ رہا ہے میں خود کو بہت کمزور محسوس کررہا ہوں ۔مجھے کچھ وقت دے میں اپنے حواس پر قابو پالوں تاکہ تیرے ساتھ سکون سے بات کرسکوں ،پھر جو تو کہے گا میں اس پر عمل کروں گا ‘‘ جان بچانے اور اس سے نجات حاصل کرنے کے لئے میں خفی طور پر اپنے اللہ سے تعلق جوڑنا چاہتا تھا ۔انسان جب قلب میں اللہ کا ذکر کرتا ہے تو سوائے اللہ عزّوجل کی ذات رحیم کے کوئی فرشتہ بھی جان نہیں پاتا کہ ذاکر اپنے اللہ سے کیا رازونیازکررہا ہے۔اس سے بہتر کوئی اور موقع نہیں ہوسکتا تھا کہ میں خفی طور پر ذکر کرتا ہوا اللہ کی پناہ میں چلا جاؤں اور اس شیطانی عفریت کے کفریہ عزائم سے بچ سکوں ۔اللہ تو شان والا ہے،وہ اپنے بندے پر بڑا ہی رحم کرتا ہے۔نفی اثبات کا ذکر ایسی دولت ہے جو بندے کو اپنے اثرات اور فیض کی بُکل میں لپیٹ لیتا ہے۔میں نے اس روز نفی اثبات کا ذکربالکل ساکت ہوکر سانسوں کو اعتدال میں لاکر شروع کیا تھا تاکہ اسکو احساس نہ ہوسکے کہ میں کسی ذکر میں مشغول ہونے کے لئے اس سے وقت لے رہاہوں ۔اللہ کریم نے میری مدد فرمائی اور کچھ ہی دیر میں مجھے اپنے اندر روحانی قوت کے بیدار ہونے کا احساس ہونے لگا۔میرا یقین اور اعتمادبڑھ گیااور میں سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔
کمرے میں کافی اندھیرا تھا لیکن مجھے ہمزاد کا سیاہ ہیولا دکھائی دے رہا تھا۔
’’ تم چاہتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ دوستی کرلوں اور تم غازی سے زیادہ محبت کرو گے مجھ سے ؟‘‘ میں نے آہستہ سے پوچھا لیکن اس دوران برسوں کی ریاضت میرے کام آرہی تھی ۔میراقلبی ذکر جاری ہوچکا تھا،یہ اللہ کی خاص عطا ہوتی ہے کہ انسان جب ذات کریم کے ذکر کا عادی ہوجاتا ہے تو اسکا دل ذاکر ہوجاتااور ہاتھ زبان چاہے دنیا داری میں مصروف ہوں ،اسکے ذکر میں کوئی شے حائل نہیں ہوتی۔
’’ چاہتا تو یہی ہوں لیکن اسکے لئے تمہیں میرا عملِ اسیر کرنا ہوگا ‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے بدبودار سانس ایسے میرے منہ پر چھوڑی جیسے عیاش سگریٹ نوش دھویں کا مرغولہ چھوڑتا ہے۔
’’ کیا کوئی دوسرا راستہ ہے‘‘ میں نے کہا’’ دیکھو میں نے غازی کو کسی عمل سے اسیر نہیں کیا ۔وہ تو باباجی کی محبت کی وجہ سے میرے ساتھ جڑ گیا تھااور آج برسوں بعد میں اسے ایک کام کی غرض سے بلا رہا تھا ۔‘‘
’’ تم نے عمل تو کیا ہے تبھی میں آیا ہوں۔اگر تم نے غلط عمل کیا ہے تو اس کا نتیجہ تمہیں بھگتنا ہی ہوگا ۔ جان سے جاؤ گے‘‘ ہمزاد نے ذرا تیز لہجے میں دھمکایا۔
’’ اگر تو تمہیں میری جان لیکر سکون مل سکتا ہے تو میرے دوست تم میری جان لے سکتے ہو۔ٹھیک ہے میں میں مانتا ہوں مجھ سے یہ عمل غلط ہوگیا تھا لیکن تم یہ بھی تو سمجھ سکتے ہو کہ اس میں بھی اللہ کی مشیت ہوگی کہ میری اور تمہاری ملاقات ہوگئی۔ویسے میں نے سنا ہے کہ کسی اچھے انسان کا ہمزاد بھی اچھا ہوتا ہے اور اچھے جن کا ہمزاد بھی اچھا ہی ہونا چاہئے ۔مجھے تو تمہاری باتوں سے بڑی حیرانی ہورہی ہے کہ ایک مسلمان جن کے ہمزاد ہو مگر کفریہ کلمے پڑھتے ہو۔۔۔ایسا کیوں ہے؟‘‘ میں نے اسے باتوں میں مشغول کرنے کے سوال کیا۔
وہ ڈکرایا اور کراہت سے بھری ابکائی لیکر لمبی سی سانس ایسے چھوڑی جیسا گیس کا کوئی مریض بدحال ہوکر پیٹ ہلکا کرتا ہے۔خدا جانتا ہے اسکی سانس اور ہوا میں کتنی ناگوار بو تھی۔اگر میں اس لمحے سانس نہ روک لیتا تو اسکی ہوا سے میری ہوا قبض ہوجاتی ۔
اس نے کسلمندی کے انداز میں اپنی گردن کو ادھر ادھر جھٹکا ’’ تمہارے پاس کھانے کے لئے مور کا گوشت ہے۔۔۔‘‘
’’ مور۔۔۔ تم کھانا چاہتے ہو؟‘‘ مجھے اسکے رویہ اور انداز میں جیسے تبدیلی سی محسوس ہوئی۔یہ نفی اثبات اور ذکر کے اثرات کا نتیجہ تھا کہ اس کا دل موم ہورہا تھا۔میرا سوہنا ربّ اپنی اس مخلوق کے دلوں میں بھی اپنے ذاکروں کی محبت و الفت اور نرمی ڈال دیتا ہے۔
’’میں بھی کھانا چاہتا ہوں اور میرا ہمزاد بھی اسکو کھانا چاہتا ہے‘‘ اس نے ناگواری کے انداز میں بائیں جانب دیکھا تو میں ہڑبڑا کر چونکا۔مجھے دیوار پر چھوٹا سا ہیولا نظر آیا۔
’’ کیا تمہارا بھی ہمزاد ہے‘‘ میں نے پوچھا ’’ تم غازی کے ہمزاد اور وہ تمہارا ہمزاد ۔۔۔ پرت در پرت،روح در روح ۔۔۔ یہ کیسا نظام ہے ‘‘
’’بڑا عجیب نظام ہے۔خالق نے مخلوقات کو نہ جانے کیسے کیسے وجود عطا کئے ہیں۔ہر وجود کے اندر ایک وجود ہے۔ایک لمبا سلسلہ ہے۔ایک غازی کا جنم ہوتا ہے تو اسکے پیچھے ہمزادوں کی لمبی قطار ہوتی ہے۔اس قطار کا پہلا اور آخری سرا بحر علم سے جڑا ہوا ہے۔ہمارا اور تمہارا خالق ایک ہے لیکن ہماری اور تمہاری دنیائیں مختلف ہیں۔ہم ہوا میں بستیاں بساتے ہیں،ہوا کے ایک ایک ذرّے میں روح ہے ،ہوا زندہ ہوتی ہے ،پانی میں روحیں ہوتی ہے۔ایک ایک بوند میں روح کا عمل ہے جو انسان کے اندر جاتی ہیں اور اسکو آباد و قائم رکھتی ہیں ۔ہم تم انسانوں کے اندر ہوا بن کر بھی جاتے ہیں اور پانی بھی،لیکن کب ،یہ راز ہے۔ تم انسان بہت بڑی چیز ہو،تم انسانوں کے اندر سارے جہانوں کی مخلوقات کا علم اور وجود ہے۔بس اسکو جاننا ضروری ہے۔۔۔‘‘ اس نے پھر انگڑائی لی اور بولا ’’ مجھے کھانے کے لئے مور لادو ورنہ میں تمہیں کھاجاؤں گا‘‘۔
مور جنات کو بڑا مرغوب پرندہ ہے ۔غازی تو اسکا شیدائی تھا ۔ظاہر ہے اسکا ہمزاد کیسے پیچھے رہ سکتا تھا اور پھر وہ اکیلا تھوڑی تھا،اسکا ہمزاد بھی اسکے ساتھ آیا ہوا تھا ۔میں نے اپنے ذہن کو الجھنوں میں ڈالنے کی بجائے اسکے لئے مور کا بندوبست کردیا ۔یہ مت پوچھیں کہ میرے پاس مور کہاں سے آگیاتھا۔میرے ایک دوست کو مور پالنے کا شوق تھااور اسکا گھر بھی قریب تھا ،میں نے اسکو فون کرکے مور منگوایا اور اسے تاکید کی تھی کی فٹافٹ سیاہ مور لیکر آجائے۔اس کو معلوم تھا کہ مور میں کیوں منگواتا ہوں لہذا اس نے مہربانی کی اور مجھے مور دیکراشتیاق کے مارے پوچھنے لگا’’ غازی آیا ہے‘‘؟
’’ ہاں‘‘ میں نے اسے تسلی دی’’ بس آنے والا ہے‘‘
’’ ہیں ۔۔۔ ‘‘ وہ ہاتھ ملنے لگا ’’ وہ میرا کام بھی بولنا بھائی اسکو ‘‘
’’ ہاں ہاں ۔۔۔ کہوں گا‘‘ میں مور لیکر کمرے کی جانب چلا تو مور میرے ہاتھوں میں اچھلنے لگا،بے اختیار چیخیں نکالنے لگا ۔اسکے پیروں کو رسی سے باندھا نہ ہوتا تو زورآوری کرتا ہوا میرے ہاتھوں سے نکل جاتا ۔میں بڑی مشکل سے اسکو سنبھالتا ہوا کمرے میں پہنچا تو مور کی چیخیں یکایک گھٹ سی گئیں۔
مور کو دیکھتے ہوئے ہمزاد دیوانے کی طرف لپکا اور اسے لیکر دیوار کے پاس بیٹھ گیا۔میں نے مور کی آخری چیخ سننے سے پہلے دیوار میں دوعجیب سے سائے دیکھے تھے جو جانوروں کی طرح اپنے شکار کو چاٹ رہے تھے۔انکی چپڑ چپڑ اور تیز تیز سانسوں سے لگ رہا تھا جیسے وہ برسوں کے بھوکے ہوں ۔
کچھ ہی دیر بعد ہمزاد نے ڈکار لیا اور میری طرف پلٹا،اب کی بار اسکی بدبودار سانسوں سے مجھے کوفت نہیں ہوئی تھی۔’’ دل خوش کردیا ۔کمینہ پہلے اکیلا مور کھا جاتا تھا ،اب ہم دونوں نے کھایا ہے تو جی بھر گیا ہے ۔کیا تو ہمیں مور کھلایا کرے گا‘‘اس کا رویہ دوستانہ ہورہا تھا۔
’’ کیوں نہیں میرے دوست۔اگر تمہیں مور پسند ہیں تو بسم اللہ ۔جب کہو گے کھلا دیا کروں گا ‘‘ میں نے خوش ہوکراسکا دل پرچانے کی کوشش کی ۔
’’ ٹھیک ہے۔اب تم غازی کو نہیں مجھے مور کھلایا کروگے اور میں تمہارے کام بھی کردیا کروں گا‘‘ اس نے سینہ تان کر کہا’’ تم بھی کیا یاد کروگے ۔آج جنّاتی تم سے وعدہ کرتا ہے کہ تم میرے دوست ہو،میں تمہارا معمول موکل نہیں ہوں ۔اس لئے کہ دوستی کی شرائط میں برابری ہوتی ہے ۔تم مجھے کوئی حکم نہیں دے سکتے اور نہ میں تمہیں ۔۔۔ لیکن دوست ہونے کے ناطے جنّاتی تمہیں مایوس نہیں کرے گا۔۔۔بولو کیا کام کرنا ہے؟‘‘
میں نے سب سے پہلے بابر حسین کا مسئلہ اسے بتایا تو اس نے مجھ سے اسکے کوائف مانگے۔کوائف اور مکمل پتہ تو میرے پاس نہیں تھا ۔میں نے جنّاتی سے کہا’’ اگر میں فون کرکے تمہیں اسکی آواز سنا دوں تو کیا اس سے رابطہ کرسکتے ہیں‘‘۔۔۔
’’ کرتو سکتے ہیں لیکن اسکے لئے ہمیں عمل کی قوت بھی درکار ہوتی ہے۔نہ جانے اسکی جانب ہماری مخلوق کا کون سا فرد موجود ہو۔ہم سے طاقتور بھی ہوسکتا ہے ۔‘‘ اس نے صاف گوئی سے بتایا اور کچھ دیر بعد اس نے خود ہی تجویز دی کہ اگر میں آیت الکرسی کو اس انداز میں پڑھتے ہوئے فون کروں گا تواسکی ڈھال لیکرجنّاتی بابرحسین کے گھر کا چکر لگا آئے گا۔اس نے کلام الٰہی کے فیض و اسرار کی انوکھی تاثیر کا راز مجھ پر منکشف کیا تھا۔