جنّاتی...جنات کے دوست اور رازداں کے قلم سے۔۔۔(آٹھویں قسط)
شاہدنذیرچودھری
جناتی کی تجویز پر میں غور کرتےہوئے آیت الکرسی پڑھنے لگا۔نہ جانے اس وقت مجھے عجیب سا ڈرکیوں لگنے لگا تھا ۔شاید ا س کی وجہ یہ تھی کہ میں پہلی بار کسی ناری مخلوق کا سہولت کار بن کر ایک مصیبت زدہ کی مدد کرنے جارہا تھا اور مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ اس کام کی باریکیاں کیا ہوتی ہیں۔
جناتی نے مجھے اشارہ کیااور میں نے بابر حسین کو فون ملایا۔دوسری ہی بیل پر اس نے فون اٹینڈ کیا۔’’ اسلام علیکم شاہد بھائی‘‘ بابر حسین کی آواز مسرت سے لبریز تھی۔
’’ وعلیکم السلام ۔کیا حال ہیں جنا ب ‘‘ میں نے پوچھا۔اس دوران مجھے اپنے کاندھوں اور سر پر ہلکا ہلکا سا دباؤ محسوس ہوا،اور آواز میں گھٹن سی محسوس ہوئی۔
’’اللہ کا شکر ہے بھائی ۔میں تو آپ کے فون کا انتظار کررہا تھا ۔آپ جانتے ہیں ہم کس کرب سے گزر رہے ہیں ‘‘اسکی آواز میں کرب امڈ آیا۔
’’ اللہ خیر کرے گا۔آپ مطمئن رہیں میرے بھائی ۔میں اپنی کوشش کروں گا کہ آپ کی مدد ہوسکے‘‘ میں نے اسے تسلی دی۔اس لمحے میرے کاندھوں سے بوجھ اتر گیا اور آواز بھی بحال ہوگئی لیکن دوسری جانب بابر حسین کی آواز میں ارتعاش محسوس ہوا۔پہلے تو مجھے لگا اسے اپنے دکھ یاد آگئے ہیں اور یہ ایسالمحہ ہوتا ہے جب کوئی دلاسہ دینے والا کاندھا ملتا ہے،کوئی دل پر دھیرے سے ہاتھ رکھتا ہے،سر پر دست شفقت پھیرتا اور ہمدردی کا فسوں پھونکتا ہے تو دکھیا دل بھر آتا ہے ۔
’’بھائی۔۔۔‘‘ بابر حسین قدرے ٹھہر کر بولا’’ یہ مجھے کیا ہورہا ہے‘‘
’’کیوں کیا ہورہا ہے۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ میر سر چکرارہا ہے اور ایسے لگ رہا ہے جیسے کسی نے مجھ پر منوں بوجھ لاددیا ہو،بھائی میرا دل گبھرارہا ہے اور میں ۔۔۔‘‘ اسکے بعد اسکا فون بند ہوگیا۔
’’ جناتی۔۔۔ ‘‘ میں نے فون ایک طرف رکھتے ہوئے اندھیرے میں اسے پکارا لیکن مجھے کوئی آواز نہ آئی نہ کوئی پرچھائیں دکھائی دی’’ جناتی۔۔۔ بابا کہاں ہو تم‘‘ میں نے گھوم کر اسے پکارا۔۔۔ لیکن جواب میں خاموشی اور کمرے کا اندھیرا ملا۔کمرے سے ناگوار بو بھی ختم تھی۔شاید میں اسی کشمکش میں گرفتار رہتا کہ یاد آیا جناتی نے تو بابر حسین کی طرف جانا تھا اور ظاہرہے اس وقت وہ اسکے پا س ہوگا۔۔۔ لیکن پھر خیال آیا اگر وہ اسکے پا س پہنچ گیا تھا تو پھر بابر حسین کو کیا ہوگیا تھا۔اسکی حالت کیوں غیر ہوگئی تھی۔اس کا جواب تو مجھے جناتی سے ہی مل سکتا تھا ۔میرا خیال تھا کہ جناتی ابھی واپس آجائے گا لیکن بیس منٹ گزرگئے تھے اور وہ واپس نہیں آیا تو مجھے کئی طرح کے وسوسے لاحق ہونے لگا۔اس دوران مجھے ایک خیال یہ بھی آیا کہ کیوں نہ میں جناتی کی غیر حاضری میں غازی کی حاضری کا وظیفہ پڑھ لوں ۔یہ سوچ کر میں نے دوبارہ وضو کیا اور ابھی تسبیح پکڑ کر حصار میں بیٹھا ہی تھا کہ کمرے میں دھپ کی آواز کے ساتھ ہی جناتی آگیا۔اس بار وہ بری طرح ہانپ رہا تھا۔
’’مروا دیا بھاجی۔۔۔ جلدی سے پنکھا لگادو ۔۔۔‘‘ اس نے چوبدار آواز میں کہا۔
’’ اے سی نہ لگا دوں ۔۔۔‘‘میں نے اسکی حالت کا اندازہ کرتے ہوئے کہا کہ اس لمحہ مجھے بھی کمرے میں بے تحاشا گرمی کا احساس ہونے لگا۔ساتھ ہی دیواروں پر آڑھے ترچھے ہیولے بھی نظر آنے لگے۔
’’ جو بھی کرنا ہے جلدی کرو، اور مجھے لسّی بھی بنا کر پلادو‘‘ جناتی کی بات سن کر میں چونکا لیکن اس وقت میں نے سوال کرنا مناسب نہ سمجھا کیوں کہ اسکا لہجہ الجھا اور تھکا ہوا تھا۔میں نے اے سی لگایا اور ساتھ پنکھا بھی چلا دیا۔
’’ یار وہ ناں لسّی نہیں مل سکتی۔دہی نہیں ہے۔اگر بولو تو بازار سے جاکر لے آؤں ‘‘۔میں نے کہا۔
’’ نہیں تم نہ جاؤ۔میں اسکو بھیجتا ہوں یہ لے آتا ہے۔تم پیسے دو ورنہ یہ چوری کرکے لے آئے گا‘‘ میں نے جناتی کے کہنے پر سو روپیہ نکال کر دیا تو بولا ۔’’سو روپے کے دہی سے کیا بنے گا۔دوسو روپے دو۔ویسے بھی میں جو کام کرکے آیا ہوں اسکے لئے تو دعوت الگ سے بنتی ہے۔سالم بکرے کی حلیم کھاؤں گا‘‘
’’ یار ایک بکر اکیا جتنے کہو گے کھلا دوں گا۔‘‘ میں نے اسے دوسو روپے دئیے تو اس نے ایک ہیولے کو اپنی زبان میں کچھ کہا اور وہ غائب ہوگیا ۔
’’ بھاجی آپ جانتے ہو کیا ہوا۔۔۔‘‘ جناتی کی سانس اسو قت بحال ہوچکی تھی
’’ کیا ہوا۔‘‘ میں اسکے سامنے حصار میں بیٹھ گیا ۔اس نے بھی چند قدم پر آلتی ماری اور بولا’’ تم سے اتر کر جب میں بابر حسین پرسوار ہوا تو اسکی حالت بہت غیر ہوگئی تھی ۔میں اس پر ظاہر تو ہونہیں سکتا تھا ۔میرا خیال تھا کہ وہ وظیفے پڑھنے والا نمازی ہوگا اور اللہ اللہ کرتا ہوگا لہذا میرا بوجھ برداشت کرلے گا۔اللہ کریم ذاکروں کو نور سے مالا مال کردیتا ہے لہذا کوئی بھی جناتی قوت ان پر زیادہ اثر نہیں کرپاتی۔مگر بابر حسین ریاکار قسم کا عبادت گزار بندہ ہے۔یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے کہ وہ مصیبتوں میں مبتلا ہے۔اسکی کم بختی کہ میرے ساتھ میراے ہمزاد بھی اس پر سوار ہوگئے تھے۔میں اسکی حالت دیکھ کر ابھی اترنے ہی لگا تھا کہ اسکی بیوی یکدم کمرے میں آئی۔اور چلانے لگی۔آپ تو جانتے ہی ہیں کہ جس جگہ ہماری مخلوق ہوتی ہے وہاں اگر ہم چلے جائیں تو ان کے ساتھ ٹاکرا ہوجاتا ہے۔اب اس وقت تو ہمیں نہیں معلوم تھا کہ بابر حسین کے گھر میں جنات کی پکھیاں ہوں گی۔جب وہ بے ہوش ہوا تو اسکی بیوی پر اس گھر کے جنات نے قبضہ کرلیا اور وہ کچھ کلمے پڑھتے ہوئی بابر حسین پر لپکی۔اسکی دیوانگی کا ہمیں علم ہوگیا تھا۔اب یہ بڑا نازک مسئلہ ہوتا ہے کہ ہم ظاہر ہوئے بغیر انسانوں پر حملے کریں۔ کیونکہ جواباً کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ہم نے دیکھ لیا تھا کہ بابر حسین کی بیوی پر بارہ جنات قابض ہوکر ہماری جانب آئے تھے ۔ہمیں دیکھ کر وہ کتوں کی طرح بھونکنے لگے۔ان میں سے ایک دوکی شکلیں بھی عجیب تھیں ،انکے لمبے نوکیلے ہاتھوں کی ہتھیلیوں میں آنکھیں چمک رہی تھیں اور چہرے بھی زرد تھے۔یہ کس نسل کے جنات تھے ،مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی ۔باقی ہمارے جیسے ہی تھے۔
’’تم کس کی اجازت سے آئے ہو۔تمہیں جرأت کیسے ہوئی ہمارے گھر تک آنے کی اور تم نے بابر حسین کو کیوں پکڑا ہے۔‘‘
’’مجھے کیا معلوم تھا جناب کہ یہ آپ کا گھر ہے۔بات یہ ہے کہ آپ سے لڑنے نہیں آیا ،بلکہ راستہ پوچھتے ہوئے ادھر آنکلاہوں۔مجھے یہ بندہ اچھا لگااور اس سے پتہ معلوم کرنا چاہتا تھا ‘‘ بھاجی میں ان کے ساتھ ایک عامل کی مدد کے بغیر لڑ نہیں سکتا تھا ۔اگر ہم لڑپڑتے تو پوری آبادی میں بھونچال آجاتا اور اس علاقے کے حاکم اولیا اللہ تک یہ خبر پہنچ جاتی تو ہمیں بھسم کردیا جاتا۔ہم انسانی آبادیوں میں کوئی شرارت نہیں کرسکتے۔
’’کہاں سے آئے ہواورتمہیں کہاں جاناہے‘‘ ان میں سے ایک بزرگ جن نے کینہ توز نظروں سے دیکھا ۔اسکے گلے میں سندوری مالا تھی جس کا مطلب تھا کہ وہ ہندو ہیں۔
’’ میں سرکار بری امام کے مزار شریف پر حاضری دینا چاہتا تھا لیکن میں راستہ بھول گیا ،اگر آپ راستہ بتادیں تو آپ کی مہربانی ہوگی‘‘ میری التجا بھری بات سن کر انہوں نے مجھے راستہ سمجھا دیا۔
ساتویں قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں
’’ دیکھ اب راستہ بھول کر ادھر نہ آنا۔۔۔ یہ ہماری سلطنت ہے ۔‘‘میں نے دیکھا کہ بزرگ جن کے پیچھے سے نکل کر ایک لال بگولا پری ،جوان جن زادی سامنے آئی اورگھورکر مجھے سمجھانے لگی’’ باپو کو تم پر رحم آگیا ہے ورنہ مجھے تو تم جھوٹے اور مکار لگتے ہو۔۔۔‘‘اسکی بات سن کر نوکیلے یک چشمی ہاتھوں والی مخلوق غرا کر ہماری طرف لپکی تو وہ فوراً چیخی’’ نہیں ۔انہیں کچھ مت کہنا‘‘
میں اسکا چہرہ اور خون بار آنکھیں دیکھتا رہ گیا ’’ کیا حسین جن زادی تھی۔الہڑ،منہ پھٹ اور بدمعاش قسم کی ۔مجھے کسی ایسی ہی جن زادی کی تلاش تھی جو حسیں بھی ہو اور بدمعاش بھی۔۔۔ کیا بتاؤ بھاجی اس نار کی ناری کی جوانی میں کتنی تڑپ ہوتی ہے۔مین تو اسے دیکھ کر اپنا دل دے بیٹھا ہوں لیکن اس سمے وہاں ٹک نہیں سکتا تھا کیونکہ جناب نے پییچھے سے پڑھائی بھی چھوڑ دی تھی،لہذا میں نے نرم اندا زمیں کہا۔
’’ ناراض نہ ہوں اے شہزادی۔میں ایک بھولا بھٹکا مسافر ہوں ،جارہا ہوں۔قسمت ہوا تو پھر ملاقات ہوگی ‘‘ میں نے انہیں تسلی دی اور واپس آنے میں مجھے بڑی دقت کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔جانتے ہو کیوں‘‘؟
’’کیوں ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’تمہاری غلطی کی وجہ سے۔‘‘ جناتی بولا’’ عجیب آدمی ہو تم ۔تمہیں کہا تھا کہ آیت الکرسی پڑھتے رہنا تاکہ مجھے روحانی قوت حاصل رہے لیکن تم نے پڑھنا چھوڑ دیا اور جان بچا کر واپس آنا پڑا ہے۔تم نہیں جان سکتے کہ اس لاپروائی میں میری جان چلی جاتی تو تمہیں کبھی معاف نہ کرتا۔‘‘
’’مم میں کیا کرتا ۔۔۔‘‘میں سہمے انداز میں بولا’’ فون کرتے ہوئے میرے کاندھوں پر بوجھ پڑگیا تو میں پڑھنا بھول گیا تھا۔۔۔‘‘
جناتی نے قہقہہ لگایا’’ اتنا آسان نہیں ہم سے دوستی کرنا۔ہمارا بوجھ اٹھانے کی ہمت پیدا کرو۔۔۔ موکل عامل کے خون میں دوڑتا ہے ۔عامل جتنا زیادہ متقی اور پکا ہوگا اس پر بوجھ نہیں پڑتا نہ اس میں ضعف آتا ہے۔تم ہلکے سے بوجھ سے ہی گھبراگئے۔خیر تمہاری تربیت کرکے ہی تمیں اس قابل بنایا جاسکتا ہے ورنہ ہم تمہارے کسی کام نہ آسکیں گے۔‘‘ اس دوران جناتی کا ہمزاد دہی لے آیا اور میں نے ایک بڑی بالٹی میں لسّی بنا کر اسے دینا چاہی تو بولا’’ میٹھا زیادہ ڈالنا بھاجی‘‘۔۔۔ میں دھیرے سے ہنس دیااور خوب چینی دال کر جناتی کے سامنے بالٹی رکھ دی۔اس نے خود اور اپنے ہمزادوں کو بلا کر بالٹی میں ہی منہ ڈالا اور غٹا غٹ یوں پی گئے جیسے نہ جانے کب سے پیاسے تھے۔میں اس بات پر حیران ہورہا تھا کہ ہم تو ساری عمر سنتے آئے ہیں کہ جنات آگ سے بنے ہیں ٹھنڈی چیزیں انکی ہلاکت کا باعث بنتی ہیں لیکن یہ اے سی میں بیٹھ کر لسّی پیتے ہیں اور اپنے اندر کی آگ کو انسانوں کی طرح ہی ٹھنڈا کرتے ہیں۔اس میں سچائی کیا ہے؟سنا تھا یہ ہڈی اور گند کھاتے ہیں لیکن یہ تو انسانوں جیسی خوراکیں ذوق شوق سے کھاتے ہیں۔