گورنر ہاؤس گرانے کامشن پشاور سے کیوں شروع نہیں کیا جاتا ؟

گورنر ہاؤس گرانے کامشن پشاور سے کیوں شروع نہیں کیا جاتا ؟
گورنر ہاؤس گرانے کامشن پشاور سے کیوں شروع نہیں کیا جاتا ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ : قدرت اللہ چودھری

لاہور کے گورنر ہاؤس کی جانب حریص نگاہیں کب نہیں اٹھیں؟ لیکن ایسے محسوس ہوتا ہے اس تاریخی عمارت کے احاطے میں جن بزرگوں کے مزارات ہیں، ان کی کرامات کے صدقے اس عمارت کو گرانے کی خواہشات تاحال پوری نہیں ہوسکیں۔ میں یہ بات تو وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ برسراقتدار آکر اس عمارت کو گرانے یا گرانے کا دعویٰ پہلی مرتبہ کس جماعت یا لیڈر نے کیا تھا، لیکن جس نے بھی کیا، اقتدار جب اس کے پاس آیا تو اس نے سرکاری خزانے سے اخراجات کرکے عمارت کو پہلے سے بھی زیادہ چمکدار بنانے کی کوشش کی۔ البتہ برا ہو دہشت گردوں اور دہشت گردی کا، جس کی وجہ سے اس شاندار عمارت کے بعض دروازے مستقل بند کرنے پڑے ہیں اور ان کے باہر رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔ پنجاب کے گورنر ہاؤس کی عمارت تو جیسی بھی ہے، کہا جاتا ہے کہ اس کے باغ میں ایسے پودے ہیں، جو کسی اور جگہ نہیں۔ ویسے تو بعض نادر پودے گورنر ہاؤس کے سامنے والے لارنس باغ میں بھی ہیں، جو اب باغ جناح کہلاتا ہے۔ خیر بات ہو رہی تھی گورنر ہاؤس کی، جس پر تازہ کرم فرمائی عمران خان نے کی ہے، یاد نہیں پڑتا کہ انہوں نے پہلے بھی اس قسم کے کسی نیک ارادے کا اظہار کیا ہو، البتہ لیہ کے جلسے میں انہوں نے ان لوگوں کو، جس میں اکثریت شاید ان حاضرین کی تھی، جو کبھی اس کی چار دیواری کے قریب سے بھی نہیں گزرے ہوں گے۔ کہا کہ وہ برسراقتدار آکر لاہور کا گورنر ہاؤس گرا دیں گے۔ بعض اخبارات نے رپورٹ کیا ہے کہ انہوں نے اسے ہوٹل بنانے کا اعلان کیا، کوئی اگر اسے بدگمانی پر محمول نہ کرے تو ہمارا یقین ہے کہ گورنر ہاؤس کو گرانے سے زیادہ ان کی دلچسپی یہ اعلان کرنے میں تھی کہ وہ برسراقتدار آرہے ہیں، وہ آج کل جن جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں، ان میں کسی نہ کسی انداز میں اپنے سننے والوں کو یہ باور کرا رہے ہوتے ہیں کہ اب کوئی دن جاتا ہے کہ ان کی حکومت آئی کہ آئی۔ اس تاثر کو پختہ تر کرنے کے لئے وہ قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ بھی کرتے رہتے ہیں۔ وہ اگر انتخابات میں اکثریت حاصل کرکے حکومت بناتے ہیں تو یہ ان کا جمہوری حق ہے، لیکن اس راستے میں ایک مشکل یہ ہے کہ بہت سے سیاستدان ان کے مدمقابل کھڑے ہیں، جو ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہونے دے رہے یا کم از کم اس میں تاخیر کراتے چلے جا رہے ہیں۔ دھرنے کے دنوں میں وہ امپائر کی انگلی اٹھنے کا انتظار کر رہے تھے، لیکن ایسا نہ ہوسکا، وہ دھرنے سے مایوس لوٹے اور شادی کرکے غم غلط کیا، اب انہیں اتنی کامیابی تو ضرور ملی ہے کہ ان کی درخواست پر نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ آگیا ہے، لیکن ان کی حکومت کی صورت تو تب بنے گی جب الیکشن ہوں گے اور وہ جیتیں گے۔
گورنر ہاؤس کی عمارت تو اس وقت کے حکمرانوں نے غلام قوم پر اپنی قوت و ہیبت کا رعب جمانے کے لئے بنائی تھی، لیکن جب دیسی حکمرانی کا دور شروع ہوا تو نئے حکمران بھی اس عمارت میں قیام کرکے خوش ہوتے تھے۔ البتہ سیاسی ضرورتوں کی خاطر اسے گرانے کے نعرے لگانے والوں نے آج تک اپنا یہ وعدہ وفا نہیں کیا۔ دیکھیں عمران خان کو اس کی توفیق ارزانی ہوتی ہے یا نہیں، لیکن ایک تجویز ذہن میں آتی ہے جس پر فوری طور پر عملدرآمد میں بظاہر کوئی رکاوٹ بھی نہیں۔ تحریک انصاف صوبہ خیبرپختونخوا میں حکمران ہے، وہاں بھی ایک گورنر ہاؤس ہے، جو شاید لاہور جتنا پرشکوہ تو نہیں، لیکن پھر بھی یہ عالیشان عمارت ہے اور انگریزوں کی بنائی ہوئی ہے۔ وہ اگر دور غلامی کی عمارات مسمار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو پشاور سے ابتدا کرسکتے ہیں۔ وہ اگر اسے گرانا چاہتے ہیں تو گرا دیں، ہوٹل بنانا چاہتے ہیں تو بنا دیں، لیکن شاید اس عمارت کو ہوٹل کی شکل دینے کے لئے مزید کروڑوں بلکہ اربوں روپے خرچ کرنے پڑیں، کیونکہ اس میں جدید دور کے ہوٹلوں کی سہولتیں نہیں ہیں۔ ویسے تو اس عمارت کے قریب ہی پشاور کا پی سی ہوٹل ہے، جس پر دہشت گردوں نے دو بار حملہ کرکے اسے کافی نقصان پہنچایا۔ سنا تھا ہوٹل کی انتظامیہ اس سے دلبرداشتہ ہوکر اسے فروخت کرنا چاہتی تھی، لیکن بعد میں شاید ارادہ بدل لیا یا ممکن ہے کوئی ڈھنگ کا گاہک نہ ملا ہو۔ پشاور کے گورنر ہاؤس میں اس وقت جو گورنر مقیم ہیں، ان کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے۔ اس لئے انہیں اس بڑے گھر سے نکال کر تحریک انصاف کو ویسے بھی روحانی مسرت ہوگی۔ اس لئے امید رکھنی چاہئے کہ تحریک انصاف پشاور کے گورنر ہاؤس کو گرانے میں دیر نہ کرے گی، چونکہ لاہور کا معاملہ تو تحریک انصاف کی حکومت سے مشروط ہے، کیا پتہ اس کی حکومت آئے نہ آئے، اس لئے ’’نو نقد نہ تیرہ ادھار‘‘ کے محاورے پر عمل کرتے ہوئے پشاور سے اس مشن کا آغاز کر دینا چاہئے۔
پشاور میں سامراجی دور کی اور بھی بہت سی نشانیاں موجود ہیں، ہمارے خیال میں لگے ہاتھوں ان سے بھی جان چھڑا لینی چاہئے۔ موجودہ حکومتوں کی مدت چھ ماہ بعد ختم ہونے والی ہے، اس کے بعد نہ جانے اقتدار کا ناک نقشہ کیا ہو، اس لئے جتنی جلد ممکن ہو، ان کاموں کا پشاور سے آغاز کر دینا چاہئے۔ اس کا ایک فائدہ انتخابی مہم میں بھی ہوگا۔ مثلاً کسی جلسے میں عمران خان، نواز شریف عرف سلطانہ ڈاکو پر گرجنے برسنے کے بعد یہ اعلان کرسکتے ہیں کہ خواتین و حضرات ہم وعدے پورے کرتے ہیں، دیکھو ہم نے پشاور کا گورنر ہاؤس ملیامیٹ کرکے چٹیل میدان میں تبدیل کر دیا اور غلامی کے دور کی کوئی بھی علامت باقی نہیں رہنے دی۔ آپ نے اگر ہمیں پورے پاکستان کی حکومت دی تو ہم سب سے پہلے لاہور کا گورنر ہاؤس گرائیں گے، پھر کراچی اور بلوچستان کی باری بھی آجائیگی۔ وہ لوگوں کو یہ بھی باور کراسکتے ہیں کہ شہباز شریف نے جی او آر میں کثیرالمنزلہ سی ایم سیکرٹریٹ میں آئی ٹی یونیورسٹی بنانے کا وعدہ کیا تھا، لیکن وہ پنجاب کی دس سالہ حکمرانی کے بعد بھی یہ وعدہ پورا نہیں کرسکے، ہم وعدہ پورا کرنے پر یقین رکھتے ہیں، اس لئے آپ ہمیں ووٹ دے کر یہ خدمت کرنے کا موقع دیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اس طرح کی انتخابی مہم کے نتیجے میں ان کی کامیابی کے امکانات بڑھ جائیں گے، کیونکہ ووٹروں کے اپنے جتنے بھی مسائل ہوں، انہیں زیادہ خوشی اس بات سے ہوگی کہ لاہور کی مرکزی شاہراہ سے غلامی کے دور کی ایک بڑی علامت ختم ہو جائے گی۔ ویسے ایک ستم ظریف کا کہنا ہے کہ بنی گالہ میں جو سینکڑوں گھر بلڈنگ بائی لاز کی خلاف ورزی کرکے بنائے گئے ہیں اور جن کے سیوریج کا پانی راول ڈیم کو آلودہ کر رہا ہے، کیا یہ بہتر نہیں کہ اگر عمارتوں کو گرانے کا شوق پورا کرنا ہے تو اس کا آغاز بنی گالہ سے کرلیا جائے۔
گورنر ہاؤس

مزید :

تجزیہ -