مقبول ترین ، زندگی بدل دینے والا ناول۔۔۔ قسط نمبر 48
جمشید کو ابھی حساب کے لیے پیش نہیں کیا گیا تھا۔ دو فرشتے اس کو عرش کے قریب لے کر کھڑے ہوئے تھے اور وہ اپنی باری کا انتظار کررہا تھا۔ اس کا چہرہ ستا ہوا تھا جس پر دنیا کے پچاس ساٹھ برسوں کی دولتمندی کا تو کوئی اثر نظر نہیں آتا تھا، لیکن حشر کے ہزاروں برس کی خواری کی پوری داستان لکھی ہوئی تھی۔ اس کے قریب جانے سے قبل میں نے اپنے دل کو مضبوط بنانے کی کوشش کی ۔ قریب پہنچا تو اس کے قریب کھڑے فرشتوں نے مجھے آگے بڑھنے سے روک دیا۔ مگر صالح کی مداخلت پر انہوں نے ہمیں اجازت دے دی۔ جمشید نے مجھے دیکھ لیا تھا۔ وہ بے اختیار میرے قریب آیا اور میرے سینے سے لپٹ گیا۔ پھر وہ میری طرف دیکھ کر بولا:
’’ابو میں اتنا رویا ہوں کہ اب آنسو بھی نہیں نکل رہے۔‘‘
میں اس کی کمر تھپتھپانے کے سوا کچھ نہ کہہ سکا۔ پھر اس نے آہستگی سے کہا:
’’ابو شاید میں اتنا برا نہیں تھا۔‘‘
مقبول ترین ، زندگی بدل دینے والا ناول۔۔۔ قسط نمبر 47 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’مگر تم بروں کے ساتھ ضرور تھے بیٹا !بروں کا ساتھ کبھی اچھے نتائج تک نہیں پہنچاتا۔ تم نے شادی کی تو ایسی لڑکی سے جس کی واحد خوبی اس کا حسن اور دولت تھی۔ خدا کی نظر میں یہ کوئی خوبی نہیں ہوتی۔ تم ہم سے الگ ہوگئے اور اپنے سسر کے ایسے کاروبار میں شریک ہوگئے جس کے بارے میں تمھیں معلوم تھا کہ اس میں حرام کی آمیزش ہے۔ مگر بیوی، بچوں اور مال و دولت کے لیے تم حرام میں تعاون کے مرتکب ہوتے رہے۔ یہی چیزیں تمھیں اس مقام تک لے آئیں۔‘‘
’’آپ ٹھیک کہتے ہیں ابو، مگر میں نے نیکیاں بھی کی تھیں۔ تو کیا کوئی امید ہے؟‘‘
میں خاموش رہا۔ میری خاموشی نے اسے میرا جواب سمجھادیا۔ وہ مایوس کن لہجے میں بولا:
’’مجھے اندازہ ہوگیا ہے ابو۔ اپنے بیوی بچوں اور ساس سسر کو جہنم میں جاتا دیکھنے کے بعد مجھے اندازہ ہوچکا ہے کہ آج کسی کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔ سارا اختیار اس رب کے پاس ہے جس کے احکام کو میں بھولا رہا۔ آج جس کا عمل اسے نہیں بچاسکا اسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچاسکے گی۔ میں ہزاروں برس سے اس میدان میں پریشان پھر رہا ہوں۔ میں ان گنت لوگوں کو جہنم میں جاتا دیکھ چکا ہوں۔ مجھے اب اپنی نجات کی کوئی امید نہیں رہی ہے۔ میں نے اللہ سے بہت معافی مانگی ہے۔ مگر میں جانتا ہوں کہ آج معافی مانگنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ابو! اللہ میاں شاید مجھے معاف نہ کریں۔ مگر آپ مجھے ضرور معاف کردیجیے۔ آپ تو میرے باپ ہیں نا۔‘‘
یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ میں نے بہت کوشش کی کہ میری آنکھوں سے آنسو نہ بہیں، مگر نہ چاہتے ہوئے بھی میری آنکھیں برسنے لگیں۔ اسی اثنا میں جمشید کا نام پکارا گیا۔ فرشتوں نے فوراً اسے مجھ سے الگ کیا اور بارگاہ ربوبیت میں پیش کردیا۔
وہ ہاتھ باندھ کر اور سر جھکاکر سارے جہانوں کے پروردگار کے حضور پیش ہوگیا۔ ایک خاموشی طاری تھی۔ جمشید کھڑاتھا مگر اس سے کوئی سوال نہیں کیاجارہا تھا۔ مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ اس خاموشی کی وجہ کیا ہے۔ تھوڑی دیر میں وجہ بھی ظاہر ہوگئی۔ کچھ فرشتوں کے ساتھ ناعمہ وہاں آگئی۔ اس کے ساتھ ہی صالح نے مجھے اشارہ کیا تو میں ناعمہ کے ساتھ جاکر کھڑا ہوگیا۔ ناعمہ کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ وہ مجھ سے کچھ پوچھنا چاہ رہی تھی، مگر بارگاہ احدیت کا رعب اتنا شدید تھا کہ اس کی آواز نہیں نکل رہی تھی۔
کچھ دیر میں جمشید سے سوال ہوا:’’مجھے جانتے ہو، میں کون ہوں؟‘‘
اس آواز میں اتنا ٹھہراؤ تھا کہ میں اندازہ نہیں کرسکا کہ یہ ٹھہراؤ کسی طوفان کی آمد کا پیش خیمہ ہے یا پھر مالک دو جہاں کے حلم کا ظہور ہے۔
’’آپ میرے رب ہیں۔ سب کے رب ہیں۔ یہی میرے والد نے مجھے بتایا تھا۔‘‘
شان بے نیازی کے ساتھ پوچھا گیا:
’’کون ہے تمھارا باپ؟‘‘
جمشید نے میری طرف دیکھ کر کہا:
’’یہ کھڑے ہوئے ہیں۔‘‘
اس کے اس جملے کے ساتھ میرا دل دھک سے رہ گیا۔ مجھے اس بات کا اندازہ ہوچکا تھا کہ اب جمشید مارا گیا۔ کیونکہ میں نے اسے توحید کے علاوہ اور بھی بہت سی چیزوں کی نصیحت کی تھی جن میں اس کا ریکارڈ اچھا نہیں تھا۔ اب مجھ سے یہی پوچھا جانا تھا کہ میں نے اسے کن باتوں کی نصیحت کی تھی اور میری یہی گواہی اس کی پکڑ کا سبب بن جاتی۔ مگر میری توقع کے بالکل برخلاف اللہ تعالیٰ نے مجھے گواہی کے لیے نہیں بلایا۔ انہوں نے جمشید سے ایک بالکل مختلف سوال کیا:
’’ابھی تم اپنے باپ سے کیا کہہ رہے تھے۔۔۔ یہ کہ اللہ میاں شاید مجھے معاف نہ کریں۔ مگر آپ مجھے ضرور معاف کردیجیے۔ آپ تو میرے باپ ہیں نا۔‘‘
لمحہ بھر پہلے جو میری امید بندھی تھی وہ اس سوال کے ساتھ ہی دم توڑ گئی۔ جمشید کو بھی اندازہ ہوگیا کہ اس کی پکڑ شروع ہوچکی ہے۔ خوف کے مارے اس کا چہرہ سیاہ پڑگیا۔ اس کے ہاتھ پاؤں لرزنے لگے۔ اس کے سان و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ اللہ تعالیٰ جو دوسرے حساب کتاب میں مصروف تھے ساتھ ساتھ اس کی بات بھی سن رہے تھے۔ نہ صرف سن رہے تھے بلکہ اس کے الفاظ اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے کا سبب بن گئے تھے۔ وہ بڑی بے بسی سے بولا:
’’جی میں نے یہ بات کہی تھی لیکن میرا مطلب وہ بالکل نہیں تھا جو آپ سمجھے ہیں۔‘‘
’’تمھیں کیا معلوم میں کیا سمجھا ہوں؟‘‘
پوچھا گیا، مگر آواز میں ابھی تک وہی ٹھہراؤ تھا۔
’’نہ۔۔۔ نہیں مجھے بالکل نہیں معلوم۔۔۔ آپ کیا سمجھے۔‘‘، جمشید نے لڑکھڑاتی زبان سے جواب دیا۔
اس سے مزید کوئی بات کہنے کے بجائے ناعمہ سے پوچھا گیا:
’’میری لونڈی یہ تیرا بیٹا ہے۔ اس نے تیرے ساتھ کیا سلوک کیا۔‘‘
ناعمہ بولی:
’’پروردگار! اس نے میرے ساتھ بہت نیک سلوک کیا۔ یہ بڑھاپے تک میری خدمت کرتا رہا۔ اس نے مال سے، عمل سے اور محبت سے میرے ساتھ بہت حسن سلوک کیا ۔ اس کی بیوی اسے ٹوکتی تھی لیکن یہ میری خدمت سے باز نہیں آیا۔ اس نے اپنا مال اور اپنی جان سب بے دریغ میرے لیے وقف کردی تھی۔‘‘
ناعمہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ جمشید کے لیے اور بہت کچھ کہے، مگر اسے معلوم تھا کہ جو پوچھا گیا ہے اس سے ایک لفظ زیادہ کہنے پر اس کی اپنی پکڑ ہوجائے گی۔ اس لیے وہ مجبوراً اتنا کہہ کر خاموش ہوگئی۔
پروردگار نے فرشتے کی طرف دیکھ کر پوچھا:
’’کیا یہ عورت ٹھیک کہہ رہی ہے؟‘‘
فرشتے نے نامہ اعمال دیکھ کر کہا:
’’اس نے بالکل ٹھیک کہا ہے۔‘‘
اس کے بعد جو کچھ ہوا ا س نے میرے دل کی دھڑکن تیز کردی۔ حکم ہوا اس کے اعمال ترازو میں رکھو۔ پہلے گناہ رکھے گئے۔ جن سے الٹے ہاتھ کا پلڑا بھاری ہوتا چلا گیا۔ اس کے بعد نیکیاں رکھی گئیں۔ ہم سب کے چہرے فق تھے۔ ایک ایک کرکے نیکیاں رکھی گئیں۔ مگر وہ گناہوں کے مقابلے میں اتنی کم اور ہلکی تھیں کہ میزان میں الٹے ہاتھ کا پلڑا بدستور بھاری رہا۔ آخر میں صرف دو نیکیاں رہ گئیں۔ بظاہر فیصلہ ہوچکا تھا۔ ناعمہ نے مایوسی اور بے کسی کے ملے جلے احساس کے ساتھ آنکھیں بند کرلیں۔ جمشید اپنا سر پکڑ کے بے بسی سے زمین پر گرگیا۔
میں جس وقت سے میدان حشر میں آیا تھا میں نے ایک دفعہ بھی عرش کی طرف دیکھنے کی ہمت نہیں کی تھی۔ مگر نجانے اس وقت پہلی بار بے اختیار میری نگاہیں مالک ذوالجلال کی طرف اٹھ گئیں۔۔۔ ایک لمحے سے بھی کم عرصے کے لیے۔۔۔ اس ساعت میرے دل سے وہی صدا نکلی جو زندگی کی ہرناگہانی اور مشکل پر میرے دل سے نکلاکرتی تھی۔لاالہ الااللہ۔پھر میری نظر اور سر دونوں فوراًجھک گئے۔
فرشتے نے پہلی نیکی اٹھائی۔ یہ ناعمہ کے ساتھ کیا گیا اس کا حسن سلوک تھا۔ حیرت انگیز طور پر سیدھے ہاتھ کا پلڑا بلند ہونا شروع ہوا۔ میں نے اپنے برابر کھڑی ناعمہ کو جھنجھوڑ کر کہا :
’’ناعمہ! آنکھیں کھولو۔‘‘
میری آواز جمشید تک بھی چلی گئی۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا اور آہستہ آہستہ کھڑا ہوگیا۔اٹھتے پلڑے کے ساتھ اس کی آس بھی بن گئی۔لیکن ایک جگہ پہنچ کر سیدھے ہاتھ کا پلڑا ٹھہرگیا۔ الٹے ہاتھ کا پلڑا ابھی تک بھاری تھا۔ ہمارے دلوں میں جلنے والی امید کی شمع پھر بجھنے لگی۔ فرشتے نے آخری نیکی اٹھائی اور بلند آواز سے کہا۔ یہ توحید پر ایمان ہے۔ اس کے رکھتے ہی پلڑے کا توازن بدل گیا۔ میری زبان سے بے اختیار نکلا۔ اللہ اکبر و للہ الحمد۔
اس کے ساتھ ہی مدھم لہجے میں آواز آئی:
’’جمشید تمھارے باپ نے تمھیں میرے بارے میں یہ بھی بتایا تھا کہ میں ماں باپ سے ستر ہزار گنا زیادہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہوں۔ یہ تم تھے جس نے میری قدر نہیں کی۔ اسی لیے میدان حشر میں تمھیں اتنی سختی اٹھانی پڑی۔ میرا عدل بے لاگ ہوتا ہے۔ مگر میری رحمت ہر شے پر غالب ہے۔‘‘
فرشتے نے نجات کا فیصلہ تحریر کرکے نامۂ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دے دیا۔ جمشید کے منہ سے شدت جذبات میں ایک چیخ نکلی۔ اسے جنت کا پروانہ مل گیا تھا۔ ہزاروں سال پر مبنی اس طویل اور سخت دن کی اذیت سے اسے نجات مل گئی بلکہ ہر تکلیف سے اسے نجات مل چکی تھی۔ وہ بھاگتا ہوا آیا اور ہم دونوں سے لپٹ گیا۔ ناعمہ پر شادئ مرگ کی کیفیت طاری تھی۔ جمشید کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور میں اپنے وجود کے ہر رعشے کے ساتھ اس رب کریم کی حمد کررہا تھا جس کی رحمت کاملہ نے جمشید کو معاف کردیا تھا۔(جاری ہے)
مقبول ترین ، زندگی بدل دینے والا ناول۔۔۔ قسط نمبر 49 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ کئی ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں اس کتاب کے تراجم ہوچکے ہیں۔ابو یحییٰ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ آنرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہیں جبکہ ان کا ایم فل سوشل سائنسز میں ہے۔ ابویحییٰ نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ پچھلے پندرہ برسوں سے وہ قرآن مجید پر ایک تحقیقی کام کررہے ہیں جس کا مقصد قرآن مجید کے آفاقی پیغام، استدلال، مطالبات کو منظم و مرتب انداز میں پیش کرنا ہے۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)