مقبول ترین ، زندگی بدل دینے والا ناول۔۔۔ قسط نمبر 51

مقبول ترین ، زندگی بدل دینے والا ناول۔۔۔ قسط نمبر 51
مقبول ترین ، زندگی بدل دینے والا ناول۔۔۔ قسط نمبر 51

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

’’انبیا تو اپنی امتوں پر گواہی دے چکے۔ یہ یرمیاہ نبی کی گواہی کس چیز کی ہورہی ہے؟‘‘، میں نے صالح کی سمت دیکھتے ہوئے دریافت کیا۔
’’جن مجرموں نے ان کے ساتھ زیادتی کی تھی، انہیں بھی ان کے انجام تک پہنچنا ہے۔ یہ گواہی اس سلسلے کی ہے۔‘‘
صالح نے جواب دیا۔ پھر ہم دونوں بھی حشر کی طرف روانہ ہوگئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرش کے سامنے یرمیاہ نبی کے زمانے کے تمام یہود جمع تھے۔ ان کا زمانہ یہود کی تاریخ کا ایک اہم ترین دور تھا۔ یہود یا بنی اسرائیل حضرت ابراہیم کے چھوٹے صاحبزادے حضرت اسحاق اور ان کے بیٹے یعقوب کی اولاد میں سے تھے۔ حضرت یعقوب جن کا لقب اسرائیل تھا ان کے بارہ بیٹے تھے۔ انہی کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا گیا۔ ان بارہ بیٹوں میں سب سے نمایاں حضرت یوسف تھے۔ حضرت یعقوب اور ان کے بارہ بیٹے فلسطین میں آباد تھے۔ مگر حضرت یوسف کے زمانے میں یہ سب مصر منتقل ہوگئے۔ کئی صدیوں تک یہ مصر میں رہے اور ان کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت کے وقت فرعون نے یہود کو غلام بنارکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے ذریعے سے ان لوگوں کو فرعون کے ظلم و ستم سے نجات عطا کی اور ان لوگوں کو ایک امت بنایا۔ کتاب و شریعت ان پر نازل ہوئی۔ مگر صدیوں کی غلامی نے ان میں بزدلی، شرک اور دیگر اخلاقی عوارض پیدا کردیے تھے۔ چنانچہ ان لوگوں نے اللہ کے حکم کے باوجود فلسطین کو وہاں موجود مشرکوں سے جہاد کرکے فتح کرنے سے انکار کردیا۔ بعد میں حضرت موسیٰ کے جانشین یوشع بن نون کے زمانے میں فلسطین فتح ہوا اور یہ لوگ وہاں آباد ہوگئے۔

مقبول ترین ، زندگی بدل دینے والا ناول۔۔۔ قسط نمبر 50 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس کے بعد حضرت داؤد اور سلیمان علیھما السلام کے زمانے میں اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک زبردست حکومت عطا کی جس کا شہرہ دنیا بھر میں تھا۔ مگر اس کے بعد ان میں اخلاقی زوال آیا اور ہر طرح کی اخلاقی خرابیاں اور شرک ان میں پھیل گیا۔ انھیں پیغمبروں نے بہت سمجھایا مگر یہ باز نہیں آئے۔ نتیجتاً ان پر محکومی مسلط کردی گئی۔ اردگرد کی اقوام نے ان پر پے در پے حملے کرکے ان کی سلطنت کو بہت کمزور کردیا۔
جس وقت حضرت یرمیاہ کی بعثت ہوئی بنی اسرائیل اس دور کی عظیم سپر پاور عراق کی آشوری سلطنت اور اس کے حکمران بخت نصر کے باج گزار تھے۔ اس دور میں بنی اسرائیل کا اخلاقی زوال اپنی آخری حدوں کو چھورہا تھا۔ ان میں شرک عام تھا۔ زنا معمولی بات تھی۔ اپنے ہم مذہبوں کے ساتھ یہ لوگ بدترین ظلم و ستم کا معاملہ کرتے۔ سود خوری اور غلامی کی لعنتیں عام تھیں۔ ایک طرف اخلاقی پستی کا یہ عالم تھا اور دوسری طرف سیاسی امنگیں عروج پر تھیں۔ ہر طرف بخت نصر کے خلاف نفرت کا طوفان اٹھایا جارہا تھا۔ ان کے مذہبی اور سیاسی لیڈروں کی ساری توجہ اس بات کی طرف تھی کہ اس سیاسی محکومی سے نجات مل جائے۔ قوم کی اصلاح، اخلاقی تعمیر، ایمانی قوت جیسی چیزیں کہیں زیر بحث نہ تھیں۔ مذہب کے نام پر ظواہر کا زور تھا۔ ایمان و اخلاق اور عمل صالح کی کوئی وقعت نہ تھی۔
ایسے میں حضرت یرمیاہ اٹھے اور انھوں نے پوری قوت کے ساتھ ایمان واخلاق کی صدا بلند کی۔ انھوں نے اہل مذہب اور اہل سیاست کو ان کے رویے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کی اخلاقی کمزوریوں، شرک اور دیگر جرائم پر انہیں تنبیہ کی۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے اپنی قوم کو سختی سے اس بات پر متنبہ کیا کہ وہ بخت نصر کے خلاف بغاوت کا خیال دل سے نکال دیں۔ انھیں سمجھایا کہ جذبات میں آکر انہوں نے اگر یہ حماقت کی تو بخت نصر قہر الٰہی بن کر ان پر نازل ہوجائے گا۔ مگر ان کی قوم باز نہ آئی۔ اس نے انہیں کنویں میں الٹا لٹکادیا اور پھر جیل میں ڈال دیا۔ اس کے ساتھ انھوں نے بخت نصر کے خلاف بغاوت کی۔ جس کے نتیجے میں بخت نصر نے حملہ کیا۔ چھ لاکھ یہودیوں کو اس نے قتل کیا اور چھ لاکھ کو غلام بناکر ساتھ لے گیا۔ یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ پورا شہر خاک و خون میں بدل گیا۔ قرآن مجید نے اس واقعے کو بیان کیا اور یہ بتایا کہ حملہ آور لوگ دراصل قہر الٰہی تھے کیونکہ بنی اسرائیل نے زمین پر فساد مچارکھا تھا۔
میں اسی سوچ میں تھا کہ صالح نے غالباً میرے خیالات پڑھ کر کہا:
’’ٹھیک یہی کام تمھارے زمانے میں تمھاری قوم کررہی تھی۔ وہ علم، تعلیم، ایمان، اخلاق میں بدترین پستی کا شکار تھی، مگر اس کے نام نہاد رہنما اسے یہی سمجھاتے رہے کہ ساری خرابی وقت کی سپر پاورز اور ان کی سازشوں کی وجہ سے ہے۔ ایمان و اخلاق کی اصلاح کے بجائے سیاسی غلبہ اور اقتدار ہی ان کی منزل بن گیا۔ ملاوٹ، کرپشن، ناجائز منافع خوری، منافقت اور شرک قوم کے اصل مسائل تھے۔ ختم نبوت کے بعد ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ دنیا بھر میں اسلام کا پیغام پہنچاتے، مگر ان لوگوں نے قوم کی اصلاح اور غیر مسلموں کو اسلام کا پیغام پہنچانے کے بجائے غیرمسلموں سے نفرت کو اپنا وطیرہ بنالیا۔ ان کے خلاف جنگ و جدل کا محاذ کھول دیا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے بنی اسرائیل نے اپنی اصلاح کرنے کے بجائے بخت نصر کے خلاف محاذ کھولا تھا۔ چنانچہ بنی اسرائیل کی طرح انھوں نے بھی اس عمل کا برا نتیجہ بھگت لیا۔‘‘
اسی اثنا میں اعلان ہوا:
’’یرمیاہ کو پیش کیا جائے۔‘‘
تھوڑی دیر میں یرمیاہ علیہ السلام کچھ فرشتوں کی معیت میں تشریف لائے۔ وہ عرش کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ مگر انھوں نے کچھ کہا نہیں۔
صالح نے کہا:
’’اللہ تعالیٰ اپنے نبی کا مقدمہ خود پیش کریں گے۔‘‘
صالح نے یہ الفاظ کہے ہی تھے کہ آسمان پر ایک فلم سی چلنے لگی۔ اور تمام نگاہیں ان مناظر کو دیکھنے کے لیے اوپر کی طرف اٹھ گئیں۔(جاری ہے)

مقبول ترین ، زندگی بدل دینے والا ناول۔۔۔ قسط نمبر 52 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

(ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ کئی ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں اس کتاب کے تراجم ہوچکے ہیں۔ابو یحییٰ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ آنرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہیں جبکہ ان کا ایم فل سوشل سائنسز میں ہے۔ ابویحییٰ نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ پچھلے پندرہ برسوں سے وہ قرآن مجید پر ایک تحقیقی کام کررہے ہیں جس کا مقصد قرآن مجید کے آفاقی پیغام، استدلال، مطالبات کو منظم و مرتب انداز میں پیش کرنا ہے۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)