دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول۔۔۔قسط نمبر61
اندھیرے میں میرا سفر جاری تھا۔ باہر دور تک گہری تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ مگر اس تاریکی میں کوئی اندیشہ۔۔۔ کوئی خوف نہیں تھا۔ تاریکی کی اس تہہ پر دبیز سناٹے کی ایک اور تہہ جمی ہوئی تھی۔ مگر اس سناٹے میں بھی کوئی وحشت کوئی دہشت نہیں تھی۔ اندھیرے کی طرح یہ سناٹا بھی اپنے اندر ایک عجیب نوعیت کا سکون اور سرور لیے ہوئے تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ خاموشی میں بغیر آواز کے نغمے بکھرے ہوئے ہیں جو کانوں کے بجائے دل کے دروازوں سے وجودِ ہستی پر ہولے ہولے دستک دے رہے ہیں۔ بغیر ساز کے کچھ سُر فضا میں بکھرے ہوئے ہیں جوسماعتوں کے در و دیوار کے بجائے شعور کے دریچوں سے میکدۂ دل کی دنیا میں داخل ہوکر محوِ رقص ہیں۔
رہی تاریکی تو مجھے اس کا مقصد صرف ایک نظر آتا تھا۔ وہ یہ کہ تاریکی اُس روشنی کو خوب نمایاں کردے جو بہت دور فضا میں بلند ایک دیے کی مانند روشن تھی۔ یہ روشنی آسمان کے کسی تارے کی نہ تھی کہ اس وقت زمین کی طرح آسمان بھی تاریکی کی چادر اوڑھے ہوئے تھا۔ یہ روشنی ایک بلند پہاڑ کی چوٹی سے اٹھ رہی تھی۔ اندھیرے میں یہ روشنی بے حد حسین اور دلکش لگ رہی تھی۔۔۔ اتنی کہ اس سے نظر ہٹانے کا دل نہیں چاہتا تھا۔ پھر میں نے سوچا کہ اس اندھیرے میں دیکھنے کو اور رکھا ہی کیا ہے۔ میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ کیا ہی اچھا ہوکہ میں نیچے کا منظرروشنی میں دیکھ سکوں ۔ میں نے سبحان اللہ کہا جس کے ساتھ ہی تاریکی چھٹ گئی اور نیچے کا منظر صاف نظر آنے لگا۔
دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول۔۔۔قسط نمبر60 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
نیچے تاحد نظر وسیع و عریض پھیلا ہوا ایک سرسبز و شاداب میدان تھا جس کے عین وسط میں سنگِ مرمر کا ایک سفید پہاڑ نظر آرہا تھا۔ یہ کسی پہاڑی سلسلے کا کوئی حصہ نہیں بلکہ تنہا و یکتا سنگِ مرمر کا ایک بلند ٹیلہ تھا جو زمین کے سینے میں کسی تنہا ستون کی طرح ایستادہ تھا۔ اس پہاڑ کی چوٹی بلند ہوتے ہوتے ایک نیزے کی نوک کی طرح باریک ہوکر ختم ہورہی تھی۔ مگر یہ پہاڑ کا خاتمہ نہ تھی بلکہ یہ نوک اس عظیم الشان اور عالیشان محل کی بنیاد کا کام کررہی تھی جو عین اس کے سرے پر بنا ہوا تھا۔ مجھے یہ منظر حقیقت سے زیادہ کسی مصور کے تخیل کا شاہکار محسوس ہورہا تھا۔ اس لیے کہ میدانوں میں ایسے پہاڑ، پہاڑ کی اتنی باریک چوٹی اور چوٹی کے سہارے کھڑے ایسے محل حقیقت میں نہیں موجود ہوا کرتے۔
مگر وہ پچھلی دنیا کی باتیں تھیں۔ اب تو آزمائش اور طبعی قوانین کی وہ سابقہ دنیا ختم ہوچکی تھی۔ ایک نئی دنیا وجود میں آچکی تھی جس میں میری بادشاہی تھی اورمیں تھا ۔ میں نے سوچا کہ انسانی تاریخ ہزاروں لاکھوں برس کا سفر طے کرکے دورِ توحید میں داخل ہوچکی ہے۔۔۔ جب زمین کا انتظام خدا کے فرشتوں نے سنبھال کر ہر ناممکن کو ممکن کردیا ہے۔ اور ایک ایسی دنیا بنادی ہے جس کی تاریکی ہر خوف اور خاموشی ہر اندیشے سے پاک ہے۔ جس کا اندھیرا چراغاں کا حصہ اور خاموشی موسیقی کا سامان ہوا کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری خواہش پر ایک دفعہ پھر تاریکی چھاچکی تھی۔ تاریکی سے مجھے خیال آیا کہ کچھ اہل جہنم کا حال بھی دیکھوں۔ میں نے سبحان اللہ کہا اور اس کے ساتھ ہی میرے بائیں طرف نیچے کی سمت ایک اسکرین سی نمودار ہوگئی۔ اس پر جو منظر نمودار ہوا وہ حد درجہ دہشت ناک تھا۔ یہ جہنم کے وسطی حصے کا منظر تھا۔ خوفناک اور توانا فرشتے بھڑکتی ہوئی آگ سے چند انتہائی بدہیبت اور بدشکل انسانوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر باہر نکال رہے تھے۔ ان کے گلوں میں طوق تھے اور ہاتھ پاؤں میں بھاری اور نوکیلی زنجیریں بندھی ہوئی تھیں۔ ان کے چہرے کا گوشت آگ میں جھلس چکا تھا۔ ان کے جسم پر تارکول کا بنا ہوا لباس تھا، جس سے سلگتی آگ ان کے گوشت کو جلارہی تھی۔ وہ شدتِ تکلیف کے مارے چیخ رہے تھے۔ رو رو کر اللہ سے فریاد کررہے تھے کہ انھیں ایک دفعہ دنیا کی زندگی میں جانے کا موقع دیا جائے پھر وہ کبھی ظلم، کفر اور ناانصافی کے قریب بھی نہیں پھٹکیں گے۔ مگر وہاں چیخنا، رونا اور دانت پیسنا سب بے سود تھا۔
پھر ان جہنمیوں نے چلا چلا کر پانی مانگنا شروع کیا تو فرشتے ان کو گھسیٹتے ہوئے پانی کے کچھ چشموں تک لے گئے۔ یہاں ابلتے پانی سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔ مگر یہ جہنمی اتنے پیاسے تھے کہ اسی پانی کو پینے پر مجبور تھے۔ وہ کھولتے ہوئے پانی کو پیتے اور چیختے جارہے تھے۔ وہ اس پانی سے منہ ہٹاتے مگر کچھ ہی دیر میں اتنی شدید پیاس لگتی کہ پھر جانوروں کی طرح اسی پانی کو پینے پر خود کو مجبور پاتے۔ اس عمل کے نتیجے میں ان کے چہروں کی کھال اتر گئی اور ان کے ہونٹ نیچے تک لٹک گئے تھے۔
یہ منظر دیکھ کر میں نے بے اختیار اللہ کی پناہ مانگی اور اس کا شکر ادا کیا کہ اُس نے مجھے اِس بدترین انجام سے بچالیا۔ پھر میں اس منظر کو بھول کر اُس جاذب نظر روشنی کو دیکھنے لگا جو پہاڑ کی چوٹی پر بنے میرے محل سے اٹھ رہی تھی۔ میری سواری دھیرے دھیرے اس محل کی سمت بڑھ رہی تھی۔ میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ محل پہنچنے سے قبل ہی میں یہاں بیٹھے بیٹھے اس کو دیکھ لوں۔ حسب معمول میں نے سبحان اللہ کہا۔یکایک میرے کمرہ سینما گھر میں بدل گیا۔ مگر اس سینما کا اسکرین سامنے نہ تھا بلکہ دائیں بائیں سامنے اور اوپر کی سمت محل کا منظر کسی تھری ڈی فلم کی طرح چلنے لگا۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں خود محل کے اندر موجود ہوں اور سب کچھ دیکھ اور سن سکتا ہوں۔
آج یہاں جشن کا سماں تھا۔ بلند پہاڑ کی چوٹی پر میرا یہ شاندار محل بقعۂ نور بنا ہوا تھا۔ بغیر قمقموں کے پھوٹتی ہوئی روشنیاں اور بغیر کسی شمع کے منور ہوتے فانوس اس شاندار محل کو اندھیرے کے سمندر میں روشنی کا ایک جزیرہ بنائے ہوئے تھے۔ یہ روشنی ہر سمت اور ہر رخ سے پھوٹ رہی تھی۔ یہ روشنی سے زیادہ رنگ و نور اور قوس و قزح کی وہ برسات لگتی تھی جو نگاہوں کے رستے احساسات کی دنیا کو ہر لمحہ ایک نئی لذت سے روشناس کرارہی تھی۔ روشنی اس قدر نظر نواز بھی ہوسکتی ہے، کسی آنکھ نے کبھی اس کا مشاہدہ نہ کیا ہوگا۔ وقفے وقفے سے یہاں نغمہ و آہنگ کا ترنم چھڑتا اور دلوں کے تار چھیڑتا ہوا فضا میں بکھر جاتا۔ موسیقی اس قدر مدہوش کن بھی ہوسکتی ہے، کسی سماعت کو کبھی اس کا گمان نہ گزرا ہوگا۔ فضا میں نغمگی کی لہریں ہی موجزن نہ تھیں، بلکہ دھیمی دھیمی خوشبو کی مہک بھی فضا کو معطر بنائے ہوئے تھی۔ خوشبو اس قدر فرحت انگیز بھی ہوسکتی ہے، کسی انسان نے کبھی اس کا تصور نہ کیا ہوگا۔(جاری ہے)
دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول۔۔۔قسط نمبر62 پڑھنے کیلے یہاں کلک کریں
(ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ کئی ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں اس کتاب کے تراجم ہوچکے ہیں۔ابو یحییٰ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ آنرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہیں جبکہ ان کا ایم فل سوشل سائنسز میں ہے۔ ابویحییٰ نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ پچھلے پندرہ برسوں سے وہ قرآن مجید پر ایک تحقیقی کام کررہے ہیں جس کا مقصد قرآن مجید کے آفاقی پیغام، استدلال، مطالبات کو منظم و مرتب انداز میں پیش کرنا ہے۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)