المیہ

المیہ
 المیہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

منیر نیازی نے کہا تھا:
منیر اس شہر پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
پاکستان کے معروضی حالات پر یہ شعر بہت فٹ نظر آتا ہے۔ کتنے ہی ایسے لیڈر آئے اور چلے گئے جو انقلاب کے داعی تھے، بلکہ ان حضرات میں ایسے کئی فوجی آمر بھی شامل تھے جو برسرِاقتدار آکر انقلابی نعروں سے عرصہ دراز تک لوگوں کو بے وقوف بناتے رہے۔ کتنی ہی ایسی جماعتیں اٹھیں جو عوامی حقوق کے لئے بنیادی انقلابی تبدیلی کی خواہشمند تھیں،مگر پھر رفتہ رفتہ یا تو اپنے انقلابی منشور سے دست کش ہوگئیں یا خود ان کا اپنا وجود ہی معدوم ہوگیا، حتیٰ کہ ذوالفقار علی بھٹو جیسا مقبول عام اور کرشماتی شخصیت کا مالک لیڈر بھی محض انقلاب کے نعرے سے آگے نہ جاسکا۔ عرصہ دراز کے بعد تحریک انصاف کی صورت میں ایک مقبول سیاسی پارٹی نے پھر ’’سٹیٹس کو‘‘کے خلاف نعرہ بلند کیا تھا، اگرچہ تحریک انصاف کا نعرہ گزشتہ ادوار کے انقلابیوں سے تھوڑا نرم تھا۔ یہ صرف تبدیلی کی بات کرتی تھی، مگر اب لگتا ہے کہ تبدیلی کا یہ نعرہ بھی وقتی مصلحت کی دھول میں گم ہوتا جارہا ہے۔ 2013ء کے عام انتخابات کے بعد انتخابی دھاندلی کا ملک گیر شور بلند ہوا۔ اس الزام میں کسی نہ کسی حد تک صداقت کا اس امر سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ جو شکایات کنندہ بھاری رقم اور توانائی صرف کرکے ووٹوں کے تھیلے کھلوانے میں کامیاب ہوگیا، اپنے مخالف کے خلاف دھاندلی کا الزام ثابت کرسکنے کی پوزیشن میں آگیا۔ ملکی تاریخ میں کبھی کسی الیکشن کے بعد اتنے ضمنی الیکشن نہیں ہوئے ہوں گے، جتنے 2013ء کے بعد دھاندلی اور بوگس ووٹنگ کی وجہ سے الیکشن کا لعدم ہونے کی وجہ سے ہوئے ہیں۔


حیرت اس بات پر ہے کہ چاروں طرف سے دھاندلی کا قابل فہم حد تک معقول شور اٹھنے کے باوجود آئندہ انتخاب بھی انہی قوانین کے تحت ہونے جارہے ہیں، جن کی وجہ سے پچھلے چار سال سے ملک میدان جنگ بنا ہوا ہے اور تمام سیاسی پارٹیاں اور دھڑے بھرپور انداز میں آنے والے انتخابات میں حصہ لینے کی تیاریوں میں مصروف ہیں تاکہ پھر الیکشن کے بعد نئے سرے سے الزامات کی نئی بوچھاڑ شروع کرسکیں۔ جیتنے والے تو خیر جیتے ہوئے تھے، انہیں کیا پڑی تھی کہ وہ انتخابی اصطلاحات کی زحمت گوارہ کریں، مگر ہارنے والے بھی اس ضمن میں کوئی سنجیدہ کوششیں نہ کرسکے۔ آئندہ کا الیکشن کیا رنگ لائے گا یہ خدا ہی جانتا ہے:
دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے

سمجھ نہیں آتا ہمارا مسئلہ آخر ہے کیا؟کیا ہم ایسے ہی انتخاب لڑتے اور پھر آپس میں لڑنے کی روایت پر کاربند رہیں گے۔ کیا ہمارے سیاسی مستقبل کے فیصلے ہمیشہ ووٹ کی بجائے، مقتدر قوتیں اور افسر شاہی کرتے رہیں گے۔ یہ حق خالصتاً عوام کے پاس کب آئے گا کہ کس کو جتوانا ہے اور کس کو ہروانا ہے۔ اس سارے عمل میں اصل خرابی ہے کیا؟ میری دانست میں اس سارے قضے میں سب سے گھناؤنا کردار نام نہاد’’الیکٹ ایبل‘‘ کا ہے جو گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے حلقوں میں انتہائی مضبوطی سے جم گئے ہیں۔ ہر حلقہ انتخاب نسل درنسل چند خاندانوں کی جاگیر قرار دیا جاچکا ہے اور سیاسی جماعتیں بھی انہی خاندانوں کے صدقے واری جارہی ہوتی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو صرف قانونی وغیر قانونی ذرائع سے اپنے آپ کو معاشی طورپر انتہائی مضبوط بنائے بیٹھے ہیں، بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ افسر شاہی میں بھی اکثریت انہی کے بھائی بھتیجوں کی ہوگئی ہے، اس طرح یہ لوگ جھوٹے مقدمات، پیسے اور اسلحے کی نمائش کے ذریعے اپنے حلقہ انتخاب کے لوگوں کو ڈرا دھمکا کر بلیک میل کرنے کی پوزیشن میں ہیں اور اپنی اس پوزیشن کو انتہائی مکاری سے استعمال کرنے کا ہنر بھی بخوبی جانتے ہیں۔

جن افراد اور اداروں کے ذمہ لوگوں کو انصاف کی فراہمی ہے، انہیں بھی اندازہ ہے کہ ان مقتدر لوگوں سے بگاڑ فائدہ مند نہیں، لہٰذا ہر موقع پر خصوصاً انتخابات کے دوران ان لوگوں کو خوش کرنے کی حتیٰ الامکان کوشش کی جاتی ہے، کیونکہ انہی کی خوشنودی آئندہ اچھے عہدے کی ضمانت ہے، نہ کہ کارکردگی۔۔۔ ہر الیکشن میں ہم انہی نمائندہ حضرات کے انتخاب کی خاطر آپس میں دست و گریبان ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کا سر پھاڑتے ہیں اور پھر محرومیوں کا ایک اور لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اگر کہیں خوش قسمتی سے کوئی ایسا شخص بھی انتخابی کامیابی حاصل کرلیتا ہے، جو اس کلاس سے نہ ہو، بلکہ عوام کا حصہ ہو اور بطور عوامی نمائندہ ابھرے تو یہ مکڑی کا جالا اس طرح اسے گھیرتا ہے کہ سب سے پہلے وہ اپنے ہی لوگوں سے قطع تعلق کرکے خود کو اسی کلاس کا نمائندہ بنانے کی سعی میں لگ جاتا ہے۔ان حالات میں جب عوامی مایوسی جھنجھلاہٹ کی حدیں پار کرتی نظر آتی ہے، معاشرے کو تصادم سے بچانے کا واحد حل صاف شفاف انتخابی عمل کے سوا اور کوئی نہیں، اس کے لئے ضروری ہے کہ انتخابی اصلاحات کا منصفانہ اور جامع پیکیج اور طریقہ انتخاب میں ہمارے معاشرتی ومعاشی حالات کے مطابق بنیادی تبدیلی، بصورت دیگر انتشار نوشتہ دیوار نظر آتا ہے۔

مزید :

کالم -