خیال کا سفر یا کچھ اور!
روزانہ کی بنیاد پر اخبارات ورسائل و جرائد اور مختلف نثرو نظم کی کتب زیرِ مطالعہ آتی رہتی ہیں۔ اشعار کا معاملہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی نیا شعر پڑھتے ہوئے پہلے سے پڑھا سنا ہوا شعر صحیح شکل و صورت میں حافظے میں در آئے تو اس کو نشان زَد کر دیتا ہوں۔
ایسے نشان زدہ اشعار ایک کالم جتنا بن جانے پر نذرِ قارئین کردیتا ہوں کہ اُن سینکڑوں کتابوں، رسالوں کے حاصلِ مطالعہ میں میرے اس کالم ’’بادِ شمال‘‘ کے خوش ذوق قارئین بھی براہ راست میرے احاطہِ تحقیق میں داخل ہوسکیں۔
ایسے ہی کچھ اشعار آج کے کالم کا حاصل ہیں۔
پہلے عہد موجود کے شاعر کا شعر پھر وہ قدیم شعر جو پہلے سے پڑھا ہوا یا سنا ہوا پورے سیاق و سباق کے ساتھ تلازمہ خیال میں موجود تھا۔ انتہائی مشہور و مقبول اور معروف و غیر معروف ہر قسم کے ملتے جلتے اشعار ملاحظہ ہوں کہ دیئے سے دیا جلتا ہے اسے خیال کاسفر کہئے یا کچھ اور۔۔۔ یہ آپ کی نگاہِ دُور رَ س پر منحصر ہے۔۔۔!
میں اکیلی ہی چلی جانبِ منزل افروز!
ہمسفر ٹھہرے مرے صرف سفر کے ساتھی
محترمہ افروز رضوی
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
مجروح سلطانپوری
رہتا ہوں جس زمین پہ وہی اوڑھ لوں گا مَیں
جائے اَماں اک اور بھی ہوتی ہے گھر کے بعد!
آنس معین
رہتا نہیں انسان تو مٹ جاتے ہیں غم بھی
سوجائیں گے اک روز، زمیں اوڑھ کے ہم بھی
احسان دانش
عمر تو خستہ شکستہ سے مکاں میں کٹی
قبر پر پیاروں نے مرمر کے سجائے پتھر
سلطان سکون
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہلِ وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
احمد ندیم قاسمی
خواب کیا، خواب کی حقیقت کیا؟
نُور رکھتا ہے دشتِ ظلمت کیا؟
حامدی کاشمیری
خواب کیا خواب کی حقیقت کیا
جیسی بھی جس کے دھیان میں آئی
یاس یگانہ چنگیزی
اُسے گماں ہی نہ تھا جیسے میرے ہونے کا
مرے قریب سے یُوں بے خبر گیا کوئی
امجد اسلام امجد
وہ اپنے زعم میں تھا بے خبر رہا مجھ سے
اُسے خبر ہی نہیں مَیں نہیں رہا اُس کا
احمد فراز
برابر ہیں ظفر میرے لئے تحسین و تنقیص
مَیں اپنا کام ان سے ماورا کرتا رہوں گا
ظفر اقبال
تنقیص سے خفانہ ستائش پسند ہوں
یہ دونوں پستیاں ہیں مَیں ان سے بُلند ہوں
حیدر دہلوی
تم دکھائی دیئے تو یہ جانا
زندگی کتنی خوبصورت ہے
محمد افضال انجم
اُن کی محفل میں بیٹھ کر دیکھو
زندگی کتنی خوبصورت ہے
قاہل اجمیری
حاکمِ شہر سزا سوچ کے چپ بیٹھا ہے
پوری بستی کو وہ بستی سے نکالے کیسے؟
ادریس بابر
رہیں نہ رِند یہ واعظ کے بس کی بات نہیں
تمام شہر ہے دو چار دس کی بات نہیں
اسد ملتانی
اس واسطے عدو کو گوارا نہیں تھا میں
مارا گیا تھا، جنگ میں ہارا نہیں تھا مَیں
نصیر بلوچ
میں زندگی کی جنگ میں ہارا ضرور ہوں
لیکن کسی محاذ پہ پَسپا نہیں ہوا
شوکت واسطی
مل کے بھی بیچ میں ہے ایک جُدائی کی لکیر
جیسے تصویر لگا دے کوئی تصویر کے ساتھ
محمد حنیف
رات محفل میں تیری ہم بھی کھڑے تھے چُپکے
جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ
میر تقی میر
ضرورتیں تو کئی طرح کی رہیں درپیش
امیرِ شہر کے در پر کبھی صدا نہیں کی
سلطان سکون
حاجت بھی اگرچہ تھی، نہیں کی
دریُوزہ گری، کبھی نہیں کی
ناصر زیدی
یقیناًپک رہا ہے کوئی لاوا
اُداسی چار سُو پھیلی ہوئی ہے
ڈاکٹر ایوب ندیم
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصِر
اُداسی بال کھولے سو رہی ہے
ناصِر کاظمی
جسے تم نے محبت سے چُھوا تھا
وہ میری شاخِ دل اب تک ہری ہے
ایوب ندیم
چلی سمتِ غیب سے اک ہَوا کہ چمن سُرور کا جل گیا!
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جِسے دل کہیں سوہری رہی
سراج اورنگ آبادی
بُرائی عہدِ جوانی میں کیا برائی ہے؟
قسم خدا کی یہ توہینِ پارسائی ہے
صفدر صدیق رضی
کسی کا عہدِ جوانی میں پارسا ہونا
قسم خدا کی یہ توہین ہے جوانی کی
حضرت جوش ملیح آبادی