ہائیکورٹ کا جج ملزم کی طرح کٹہرے میں کھڑا ہے: جسٹس طارق محمود

کراچی(ڈیلی پاکستان آن لائن) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا ہے کہ ہائیکورٹ کا جج ملزم کی طرح کٹہرے میں کھڑا ہے۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق سندھ ہائیکورٹ کے 2 رکنی بنچ کے روبرو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس ثمن رفعت، ایڈیشنل اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل سندھ اور کراچی یونیورسٹی کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری کا بیان
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے روسٹرم پر آکر بیان دیا کہ انہوں نے اس کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کی ہے، انہیں کبھی کراچی یونیورسٹی کی جانب سے کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا ہے۔
جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیئے کہ ہم پہلے درخواست کے قابل سماعت ہونے کا معاملہ دیکھیں گے، جس پر جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ وہ اس کیس میں متاثرہ فریق ہیں۔
وکلا کے دلائل اور اعتراضات
جسٹس کے کے آغا نے استفسار کیا کہ جس نے کیس فائل کیا ہے وہ وکلاء کہاں ہیں؟ جس پر فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ متاثرہ شخص کو شامل کیے بغیر کیسے درخواست قابل سماعت ہونے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے؟ اس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ، کراچی بار و دیگر کے وکلا نے بنچ پر ہی اعتراض کر دیا۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ بنچ میں شامل جسٹس عدنان الکریم میمن نے جوڈیشل آرڈر کے ذریعے فاروق ایچ نائیک کے کیسز اپنے روبرو مقرر کرنے سے منع کیا تھا۔
سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی درخواست
سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے فوری سماعت کی درخواست دائر کی اور مؤقف اپنایا کہ اگر کوئی آرڈر جاری نہ کیا گیا تو کمیشن کی ساکھ متاثر ہوسکتی ہے تاہم فوری سماعت کی درخواست میں کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی تھی، انتظامی آرڈر کے ذریعے کیس کو آئینی بنچ 2 سے بنچ ایک میں منتقل کیا گیا۔
جسٹس عدنان الکریم میمن نے کہا کہ ان کا اس کیس میں کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے، بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ہمارا اعتراض ذاتی نہیں بلکہ قانونی ہے، جسٹس کے کے آغا نے بیرسٹر صلاح الدین کو کہا کہ ہم آپ کے اعتراضات پر آرڈر کریں گے۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ فوری سماعت کی درخواست نمٹائی جا چکی ہے، اگر فریقین کو اعتراض ہے تو اپیل دائر کریں، وکیل جامعہ کراچی طاہر احمد ایڈووکیٹ نے کہا کہ سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے عدالت کو گمراہ کیا اور یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ ان کا کوئی کردار نہیں ہے۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری کا مؤقف
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ پہلی بار ہائی کورٹ کا جج ملزم کی طرح کٹہرے میں کھڑا ہے، میرا جرم حلف سے وفاداری بنا دیا گیا ہے، میری ڈگری اصلی ہے اور میں امتحان میں بھی بیٹھا تھا۔
انہوں نے کہا کہ 34 برس بعد جعل سازی کر کے ڈگری کو متنازع بنایا گیا، میرے خلاف کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے، میں نے کسی کے کہنے پر فیصلے نہیں کیے، مجھے کم از کم سماعت کا موقع دیا جائے، پھر چاہے میرے خلاف فیصلہ دیا جائے۔
وکلا کا مؤقف اور عدالتی فیصلہ
فریقین کے وکلا نے کہا کہ پہلے ہمارے اعتراضات کا فیصلہ کیا جائے اور بعد میں درخواست قابل سماعت ہونے پر فیصلہ کیا جائے، اس کے بعد تمام درخواست گزاروں کے وکلاء کمرہ عدالت چھوڑ کر چلے گئے اور عدالت نے تمام درخواستیں عدم پیروی پر خارج کر دیں۔