پاک بھارت اَمن

معروف امریکی مصنف ڈیل کارنیگی نے مہاتما گاندھی کے بارے میں لکھا تھا کہ اس شخصیت کی قوت ایک بحری بیڑے سے بڑھ کر تھی ، مگر وہ تادم مرگ فلسفہ عدم تشدد پر نہ صرف کاربندرہے، بلکہ بوقت تقسیم وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے بھی تب تک اعلان تقسیم ہندوستان نہ کیا جب تک اس مہاتما سے خفیہ اجازت نہ لے لی، مباداکہ وہ بحری بیڑہ حرکت میں آجائے ،جبکہ کانگریسی معترضین اور مصاحبین کے لئے اسی مہاتما کا بیان تھا۔۔۔ اب تو مسلمانوں نے علیحدگی کا قانون اورآئینی حق حاصل کرلیا ہے اورمیں حقوق دلوانے والوں میں سے ہوں نہ کہ چھیننے والوں میں سے۔۔۔ پھر بوقت تقسیم ہندوستان صدیوں سے باہمی جیون گزارنے والے لاکھوں ہندوؤں، سکھوں اورمسلمانوں نے جس قدر اورجس حد تک حیوانیت گیری اورقتل وغارت گری کے مظاہرے کئے ان پر بھی مہاتما گاندھی سے زیادہ ماتم کناں اورخون کے آنسو رونے والا کوئی دوسرا ہندوستانی ہرگزنہیں تھا، لیکن پھر بھی ان کا ارادہ تھا کہ وہ لاکھوں مہاجرین ہندوؤں، سِکھوں اور مسلمانوں کو واپس لے جاکر ان کے اصل مسکنوں اور مقانات پر آباد کردیں گے۔پھر جب انڈین گورنمنٹ نے پاکستان کو مشترکہ بجٹ میں سے دس کروڑ دینے میں لیت ولعل کی تو گاندھی جی نے مرن برت رکھ کر ثابت کیا کہ وہ واقعی سب کے باپو ہیں:
یاد کرتا ہے زمانہ انہی انسانوں کو
روک لیتے ہیں جو بڑھتے ہوئے طوفانوں کو
ہرہندو تقسیم ہندوستان کے خلاف تھا،اسی وجہ سے ریاست جو ناگڑھ اورریاست حیدر آباد دکن تو بزورِ طاقت ، جبکہ ریاست کشمیر بدست مہاراجہ ہری سنگھ الحاق بحق ہندوستان ہندوستانی نقشے سے باہر نہ نکل سکیں، لیکن اکثریتی کشمیری مسلمانوں کے جذبات بحق پاکستان جب شعلے بننے لگے تو نہرو اورلیاقت تصادم کے نتیجے میں موجودہ آزاد اور مقبوضہ کشمیر وجود میں آگئے۔ مسئلہ کشمیر بدست نہرو ہی اقوام متحدہ کی میزوں پر پہنچا تھا کہ کشمیریوں سے استصواب رائے لے لی جائے ، پھر 1951ء میں منعقدہ انڈین جنرل الیکشنز کی آڑ میں کشمیر سے کانگرس کی جیت اور وزیر اعلیٰ شیخ عبداللہ کی مسلم قیادت کی فائل بحق انڈیا اقوام متحدہ پہنچا دی گئی کہ اکثریتی کشمیری آبادی نہ صرف انڈیا کے ساتھ رہنا چاہتی ہے، بلکہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اورپاکستانی قیادت آج تک قائد اعظمؒ کے الفاظ ہی دوہراتی چلی آرہی ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔بعدازاں بھی اگر کہیں ڈائیلاگ کی نوبت بنتی نظر آتی تو نہرو پھبتی کستے ہوئے کہتے کہ ڈائیلاگ کس سے ہوں ؟میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا، جتنی پاکستان میں حکومتیں بدل جاتی ہیں، پھبتی حقیقت بھی تھی، کیونکہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے جنرل ایوب خاں کے حکومت سنبھالنے تک یہاں جنرل الیکشنز کی داغ بیل تک نہیں ڈالی گئی تھی، جبکہ کہ انڈیا میں تب تک نہ صرف تین بار الیکشنز ہو چکے تھے، بلکہ آئین بھی مکمل ہو کر مستعمل ہو چکا تھا۔ بعدازاں مسئلہ کشمیر سے تو نہرو گریزاں ہی رہا ، لیکن جنرل ایوب خاں سے سندھ طاس معاہدے کی شکل وعمل میں پاکستان کی ترقی میں ان کا تعاون ضرور رہا ، پھر نہرو کے آنجہانی ہوجانے پر جنرل ایوب خاں نے جس انداز سے مسئلہ کشمیر پر ہاتھ ڈالنے کی جسارت کی،اس کے نتیجے میں پاک بھارت جنگِ1965ء وقوع پذیر ہوگئی ، جس کے نتائج میں مسئلہ کشمیر تو رہا وہیں کا وہیں، البتہ نقصانات کے انبار ضرور لگ گئے۔
مسئلہ کشمیر کے ساتھ ایک اور بھی انتہائی حساس مسئلہ ہندو فکری قیادت کا ہے کہ جس نے آج دن تک گلوبل ورلڈ میں پاکستانی وجود ہی کو تسلیم نہیں کیا ہے، بس چارو نا چار برداشت کرتے چلے آرہے ہیں۔ جیسے عرب ممالک نے اسرائیلی قیام کو تسلیم نہیں کیا ہے ، بعینہ ایک عرصے تک پاکستانی فکری قیادت بھی بنگلہ دیشی وجود کو تسلیم کرنے کی دہلیز پر نہیں پہنچ پائی تھی۔ اس سے پاکستان، اسرائیل اور بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کا عمل تو واپسی کا راستہ اختیار نہ کرسکا، البتہ جغرافیائی طور پر خطرات کے بادل موسموں کے مطابق منڈلاتے رہتے ہیں، کیونکہ یہاں وہاں فکری قیادت نمبر 2 میسر آرہی ہے جس کے پاس نہ تو مدبر قیادت موجود ہے اورنہ ہی ایسے دانشور جو مناسب فیصلے کرسکیں۔ آج کی تاریخ میں ہی عرب ممالک اسرائیلی ریاست کے قیام کو انڈیا،پاکستان کے وجود کو اورکشمیری وقت کی وقعت اور نزاکت کو تسلیم کرلیں توغروب آفتاب سے پہلے ہی خوف وخطرات کے بادل چھٹ جائیں گے اور شام ہوتے ہی امن کے ستارے روشن ہونے لگیں گے۔وقت زخموں کا مرہم بھی ہوتا ہے اورناسور اور کینسر بھی یعنی مسئلہ کشمیر ابتدائی ادوار میں ہی حل ہو جاتا تو ہوجاتا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب تو مسئلہ ایک سیاسی منڈی بن چکا ہے جس کے کچھ سیاسی آرھتیوں کو انڈین مال میسر ہے اورکچھ کو پاکستانی مال دستیاب ہے، جبکہ خالصتاً جدوجہد آزادی کا حامل تو ایک تیسرا طبقہ ہے۔ قیادتیں بے مغزاور بے مقصد ہیں، یہ اپنے اپنے ادوار میں ہونے والے داخلی و خارجی نقصانات کے ایک دو سرے پر الزامات لگائے ہوئے دردِ سر ہی بنی رہیں گی۔