لوگ کیا کہیں گے؟۔۔حقیقت یا سماجی دباؤ

ایک مثال مشہور ہے کہ میاں بیوی اپنی بیٹی کی شادی پر متوقع اخراجات پر بات کر رہے تھے۔ شوہر بیوی کو کم خرچ پر جب کہ بیوی زیادہ پر قائل کرنے کی کوشش میں تھی۔ شوہر نے آخری دلیل کے طور پر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سادگی کی مثال دے کر منانے کی کوشش کی تو بیوی نے کہا کہ وہ تو اللہ کے نبی تھے اور یہ کہ وہ کون سے جٹ تھے۔ گویا کہ ذات پات بھی ہمیں چادر سے زیادہ پاوں پھیلانے پر مجبورکر تی ہے۔ جب کہ دوسری طرف کسی کا ایک مشہور قول ہے۔"دنیا آپ کی زندگی کے بارے میں کیا سوچتی ہے، یہ آپ کی ذمہ داری نہیں۔ آپ کا کام صرف اپنے دل کی سننا ہے۔" جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ ہم اپنے دل کی نہیں بلکہ دوسروں کی سنتے ہیں اور یہ جملہ ہماری سماجی نفسیات کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے " لوگ کیا کہیں گے"؟ ہماری زندگی کا مرکز و محور "دوسرے " ہیں۔ یہ سوچ نہ صرف ہمارے فیصلوں کو محدود کرتی ہے بلکہ ہماری انفرادی صلاحیتوں کی قاتل بھی ہے۔ اس کا اثر ہماری تعلیمی، پیشہ ورانہ، اور حتیٰ کہ ذاتی زندگی تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کی جڑیں ہمارے معاشرے میں بڑی گہری ہیں۔ لیکن کیا یہ رویہ واقعی ہماری ترقی اور خوشی کے لیے مفید ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک ایسا زہرہے جس نے ہمیں اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ سب سے زیادہ ہم شادی بیاہ کے معاملات میں دکھاوے کے لئے اپنے آپ کو مشکلات میں ڈالتے ہیں۔ قرض اٹھا کر اپنے آپ کو مشکل میں ڈالتے ہیں۔اسی طرح بعض خاندانوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے کہا جاتا ہے: "زیادہ پڑھ لکھ کر کیا کریں گی، گھر ہی تو چلانا ہے کون سی نوکری کرنی ہے۔ اسی طرح، نوجوانوں کو غیر روایتی شعبوں جیسے موسیقی، آرٹ، یا ان کے دوسرے پسندیدہ شعبہ جات اپنانے سے روکا جاتا ہے، صرف اس ڈر سے کہ "خاندان کی عزت کا سوال ہوگا۔"
ہم دوسروں کی خوشنودی کے لیے جیتے ہیں، تو ہماری اپنی ذات دم توڑنے لگتی ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق یہ رویہ خود اعتمادی میں کمی کا نتیجہ ہے۔ ہماری زندگی کا اہم ترین فیصلہ شادی کا ہے،ہم تو اس میں بھی اپنی کم اور دوسروں کی پسند کو ترجیح دیتے ہیں۔ کچھ روز پہلے ایک قریبی ملنے والے سے ملاقات ہوئی۔ بتانے لگے کہ بیٹی کا رشتہ کرنا ہے، میرے بھائی کی طرف سے دباؤ ہے کہ ان کے بیٹے کو رشتہ دیا جائے۔ ہمارے گھر میں کوئی بھی نہیں چاہتا مگر سماجی دباؤ کی وجہ سے میں مجبور ہوں۔
کتنے ایسے کاروبار ہیں جو ہم صرف اس لئے نہیں کرتے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ اس سوچ سے نکلنے کی اشد ضرورت ہے۔ دنیا کا کوئی مذہب اس پر زور نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی فرد کی نیت اور عمل پر زور دیا گیا ہے۔ حدیث میں آیا ہے: "نیتوں کا دارومدار اعمال پر ہے۔" یعنی، ہمارے فیصلوں میں لوگوں کی رائے نہیں، بلکہ ہماری نیک نیتی مرکزی ہونی چاہیے۔ جب ہم اپنی سوچ کو آزاد کریں گے، تو معاشرہ بھی بدلے گا۔ اقبال کا تصور "خودی" بھی اسی بات پر زور دیتا ہے کہ انسان کو اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنا چاہیے نہ کہ دوسروں کے آسرے پر بیٹھ کر ناکامی کا انتظار کریں۔ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ دکھاوے کی زندگی گزارنے والا انسان کبھی مطمئن نہیں ہوتا۔ حقیقی خوشی اْسے ملتی ہے جو اپنے دل کی آواز سنتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس سوچ سے کیسے آزاد ہوں؟ اپنی خواہشات اور خوف کو سمجھیں۔ روزانہ 5 منٹ تک خود سے پوچھیں: "کیا میں یہ فیصلہ اپنی خوشی کے لیے کر رہا ہوں یا دوسروں کی خاطر؟" آپ کو جواب خود بخود ملے گا۔تاریخ کے کامیاب لوگوں نے "دوسروں " کو ذہن سے نکال کر ہی کامیابی حاصل کی۔ ہمیں اپنے روزمرہ کے چھوٹے فیصلوں سے اس روایت کو توڑنے کا آغاز کرنا چاہیے۔ مثلاً، پسندیدہ کپڑے پہن کر تقریب میں جانا، یا اپنی رائے کو کھل کر بیان کرنا۔
زندگی ایک انمول تحفہ ہے۔ اسے دوسروں کے بنائے ہوئے اصولوں کی نذر کرنا اپنے وجود کے ساتھ ناانصافی ہے۔ جیسے مشہور مصنفہ Paulo Coelho لکھتے ہیں: *"دنیا آپ کی زندگی کے بارے میں کیا سوچتی ہے، یہ آپ کی ذمہ داری نہیں۔ آپ کا کام صرف اپنے دل کی سننا ہے۔ لہٰذا، "لوگ کیا کہیں گے؟" کے بجائے، سوچیں: "میں اپنی زندگی کو کیسے بہتر بنا سکتا ہوں؟" — کیونکہ جب آپ اپنی خوشی کو ترجیح دیں گے تو زندگی بہتر سے بہتر تر ہوتی جائے گی۔