شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ...قسط نمبر 46
بارش کے ننھے منے قطروں کے درخت کے پتوں پر گرنے کی مدھر آواز ذرا دیر کو رکی اور پھر جاری ہوگئی۔بارش سے بچنے کے لیے درختوں کی آڑ میں دبکے ہوئے چند پرندے شیر کی آواز سے پھڑ پھڑاتے ہوئے اڑ گئے۔جیسے جنگل کی روح پرواز کر گئی ہو۔
لکڑہاروں کو سارا معاملہ سمجھ لینے میں دیر نہیں لگی ۔وہ حیرت اور خوف بھری نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔پھر انھوں نے لکڑیوں کے گٹھے تو وہیں ڈال دیے اور گاؤں کی طرف بھاگے۔۔۔تینوں خوف زدہ ہو کر نہیں ،مدد لینے دوڑے تھے۔۔۔گاؤں تھا ہی کتنی دور ،چند منٹ میں وہ اتنے قریب آگئے کہ گاؤں میں ان کی چیخ وپکار سنی جاسکے لوگ باہر نکلنے لگے۔۔۔
’’ارے!دوڑو۔۔۔دِینا کو باگھ پھاڑے ڈال رہا ہے۔۔۔دوڑو۔۔۔‘‘
فوراًہی گاؤں کے منچلے کلھاڑیوں سے مسلح ہوکر ایک جمِ غفیر کی صورت میں جنگل میں گھس پڑے۔ان کے شوروغل سے جنگل کا سکون درہم برہم ہوگیا۔۔۔اس جمِ غفیر کی رہنمائی وہی تینوں لکڑہارے کر رہے تھے ،جنھوں نے دِینا کی چیخیں سنی تھیں ۔انھوں نے اپنی کلھاڑیاں اس طرح تان رکھی تھیں ،جیسے شیر کے نظر آتے ہی اس کے پر خچے اڑا دیں گے۔
شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ...قسط نمبر 45 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
وہ لوگ غار سے پچاس ساٹھ گز پرہی ہوں گے کہ غار کے عین دہانے پر دِینا کی لاش نظر آگئی ۔ایک بہت بڑا شیر اس کے کولھوں کا گوشت نوچ نوچ کر کھا رہا تھا۔ان لوگوں نے شورو غل کرکے سارا آسمان سر پر اٹھالیا۔دھپڑے پیٹ پیٹ کر پھاڑ ڈالے اور ایسی آفت برپا کی کہ شیر دم دبا کر بھاگ کھڑا ہوا۔
دِینا کو شیر نے تھپڑ مار کر ہلاک کیا تھا۔کیونکہ ایک طرف سے چہرے اور گردن کی کھال ادھڑی ہوئی تھی ۔اس کے بعد شیر نے دِینا کی گردن پکڑی تھی اور پشت اور کولھوں کو پنجوں سے زخمی کیا تھا۔یقینایہ ایک اتفاقی واردات تھی۔شیر کئی روز سے بارش ہونے کی وجہ سے غار میں بھوکا بیٹھا ہوگا کہ اچانک ہی دِینا اس کے سامنے آگیا اور صرف دفاع کے لیے اس نے دِینا پر حملہ کرکے اسے ہلاک کردیا ۔بھوک کی شدت میں خون اور گوشت کی بو اس نے سونگھی تو وہ اسے کھانے پر مجبور ہوگیا۔
جھومری کے آدم خور کی یہ پہلی واردات تھی۔۔۔۔!
دِینا کی موت کے بعد تقریباً ایک ماہ تک کوئی واقعہ نہیں ہوا۔گاؤں سے کوئی تین فرلانگ کے فاصلے پر جنگل کی گھری ہوئی ایک پایاب ندی ہے،جس میں گاؤں کی عورتیں اور مرد نہاتے اور کپڑے دھوتے ہیں۔ایک روز دوپہر کو دو عورتوں نے اپنے کپڑے دھوئے اور نیم برہنہ حالت میں کپڑوں کے خشک ہونے کا انتظار کرتی رہیں۔
انھوں نے جھاڑیوں کی آڑ لے رکھی تھی۔سامنے ذراہی دوری پر ان کے کپڑے پھیلے ہوئے تھے۔۔۔اچانک جھاڑیاں متحرک ہوئیں ۔ایک عورت نے گھوم کر دیکھا تو شیر اس سے صرف دو فٹ کے فاصلے پر تھا۔۔۔دونوں عورتوں کا خون خشک ہوگیا اور فرطِ دہشت سے وہ بے ہوش ہوگئیں۔۔۔۔کافی دیر بعد ایک عورت کو ہوش آیا تو وہ وہاں تنہا تھی۔قریب ہی اس کی سہیلی کا خون آلود کپڑا پڑا تھا۔
عورت نے دوڑ کر اپنے کپڑے اٹھائے اور افتاں و خیزاں گاؤں کی طرف بھاگی۔۔۔تھوڑی ہی دیر بعد ایک مسلح گروہ جائے واردات پر آپہنچا۔خون آلود کپڑا جھاڑیوں میں الجھا ہوا تھااور لاش کے سر کے بال بھی جابجا کانٹوں میں لٹکے نظر آرہے تھے ۔بہرحال دوتین گھنٹے کی تلاش کے بعد مقتولہ کی لاش مل گئی ،جس کا کچھ حصہ شیر نے کھالیا تھا۔
بظاہر یہ واردات ارادہ سے کی گئی ،لیکن جب مجھے اس عورت کا بیان سننے کا اتفاق ہوا،جو اپنی سہیلی کی موت کے وقت اس کے ساتھ تھی تو کچھ ایسا اندازہ ہوا جیسے شیر کے اس شکار میں بھی ارادے کا اتنا دخل نہیں تھا جتنا کہ اتفاق کا ۔۔۔۔شیر غالباًپہلے ہی اس جھاڑی میں بیٹھا ہوگا۔جب اس نے حرکت کی تو عورتوں نے گھوم کر دیکھا۔۔۔شیر نے ان کو اپنی طرف متوجہ دیکھ کر ایک تھپڑ ماردیا ہوگا۔جس سے عورت ہلاک ہوگئی ہوگی یا ممکن ہے،زخمی ہوگئی ہو اور خون نکلنے پر شیر نے وہی جانی پہچانی لذیذ بُو سونگھی ہوگی۔جس سے وہ ایک با ر لطف اندوز ہوچکا تھا۔۔۔لہٰذا شیر نے اس عورت کو اٹھالیا اور وہاں سے کچھ دور لے جاکر ایک جھاڑی میں کھانے بیٹھ گیا۔
اس واردات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شیر کو نہ صرف انسانی گوشت کا ہی مزا مل گیا،بلکہ وہ یہ بھی سمجھ گیا کہ انسان کو ہلاک کرنے کے لیے کسی طاقت یا محنت کی ضرورت نہیں۔ان وارداتوں کے بعد قطعی طور سے اس کی آدم خوری کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
اس واقعے کو ڈیڑھ دو ماہ گزرے تھے کہ ایک اور حادثہ ہوا۔گاؤں سے دو میل دور جنگل میں دس بارہ دیہاتی لکڑیاں کاٹ رہے تھے۔۔۔۔وہ سب ہی قریب قریب تھے اور زور زور سے باتیں کرتے جارہے تھے ۔لیکن ڈولا اس روز خاموش خاموش تھا۔ساتھیوں نے اس کی خاموشی کو محسوس بھی کیا،لیکن ڈولا نے زیادہ بات نہیں کی ۔لکڑیاں کاٹتے کاٹتے تھک گئے تو ایک جگہ بیٹھ کر چلم پینے لگے۔ڈولا اپنے ساتھیوں کے پاس سے اٹھ کر پندرہ بیس گز دور ایک جھاڑ ی کے پیچھے چلا گیا۔باقی لوگ چِلم پیتے اور باتیں کرتے رہے۔اس کے بعد اٹھ کر کام میں لگ گئے ۔
دیر تک کسی کو ڈولا کا خیال نہیں آیا۔ہر شخص یہی سمجھتا رہاجس طرح وہ خود کام کر رہے ہیں ،اسی طرح ڈولا بھی کر رہا ہوگا۔ان لوگوں نے ایک شخص کو نگرانی پر مامور کر رکھا تھاجو ایک درخت کی شاخ پر آرام سے لیٹا سو رہا تھا ۔سوتے سوتے اس کی آنکھ کھلی تو اس نے کام کرتے ہوئے لوگوں پر نظر ڈالی اور پھر دور پہاڑوں کی طرف دیکھنے لگا ۔بہت دور ایک مقام پر درختوں کے اوپر لنگور خووف زدہ ہو کر بھاگتے نظر آرہے تھے۔فاصلہ زیادہ تھا ۔کچھ اور تو نظر نہیں آیا،لیکن نگران کو یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ کوئی درندہ ضرور ہے اور درندے کا خیال آتے ہی شیر کا خوف طاری ہونے لگا۔۔۔۔۔
’’ادھر پہاڑی پر باگھ ہے۔۔۔‘‘وہ چیخا ۔
کام کرتے ہوئے ہاتھ رک گئے ۔۔۔سب نے گھبرا کر درخت پر بیٹھے ہوئے نگران کی طرف دیکھا۔
’’کس پہاڑی پر۔۔۔۔؟‘‘ایک نے سوال کیا۔
’’ادھر سامنے ۔۔۔۔!‘‘
ان لوگوں نے کاٹی ہوئی لکڑیاں جمع کیں اور گٹھے بنانے لگے۔۔۔وہ سب ہی خوف زدہ تھے اور جلد از جلد گاؤں لوٹ جانا چاہتے تھے ۔۔۔یکبارگی ایک شخص نے ڈولا کی عدم موجودگی محسوس کی۔۔۔۔
’’ڈولا۔۔۔۔!‘‘اس نے پکارا
اور سب ہی ڈولا کو دیکھنے لگے ۔
’’یہ ڈولا کدھر ہے۔۔۔؟‘‘دوسرا بولا۔
’’نجانے ۔۔۔‘‘تیسرے نے جواب دیا۔
’’ڈولا ۔۔۔۔!او ڈولا ۔۔۔! ‘‘ انھوں نے آوازیں دینا شروع کیں ۔
یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
درخت پر بیٹھا ہوا نگران آنکھیں پھاڑپھاڑ کر چاروں طرف دیکھ رہا تھا۔لیکن ڈولا کا کوئی پتہ نہیں تھا۔کسی کو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ جھاڑی سے نکل کر واپس آیا بھی تھا۔۔۔۔اور اچانک ہی وہ سب دہشت زدہ نظر آنے لگے۔۔۔اسے جھاڑی میں گئے ایک گھنٹے سے زائد گزر چکاتھا۔(جاری ہے )