شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ...قسط نمبر 45
یہ 9 فٹ 6 انچ لمبا بڑھا شیر تھا اور اس کی ہلاکت کے ساتھ ہی کھنڈر کا وہ بھوت بھی فنا ہوگیا جسے خبیث روح سمجھا جاتاتھا۔
جُھومری کا آدم خور
کلیاکھیڑی سے دس میل جانب مشرق گھنے جنگلوں ،پہاڑوں اور گہری وادیوں کے کنارے سے ایک آبادی ہے،جسے جُھومری کہتے ہیں ۔یہاں چالیس پچاس کچے پکے گھر ہیں۔باشندے عام طور پر کاشت کاری اور تجارت پر گزارہ کرتے ہیں۔
دِینااِسی گاؤں کا ایک صحت مند اور محنتی نوجوان تھا۔وُہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر گاؤں میں لاتا اور اُنھیں فروخت کر کے بسر اوقات کرتا۔اس کے والدین فوت ہوچکے تھے اور ابھی اس کی شادی نہیں ہوئی تھی ۔دِینا کے گھر سے مِلا ہوا ہی باجوکا گھر تھا ۔جس کی نوجوان لڑکی کے ساتھ دِیناکی بات طے ہوچکی تھی ۔صرف فصل کٹنے کا انتطار تھا۔
شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ...قسط نمبر 44 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ساون کا مہینہ جہاں پہاڑوں اور جنگلوں میں بہارو شادابی کا پیغام لاتا ہے،وہیں گاؤں کے غریب لوگوں کے لیے پریشانیوں اور مشکلات کا سامان بھی فراہم کرتا ہے۔ایک دفعہ ساون کے دنوں میں ایسی جھڑی لگی کہ چار روز تک لگاتا ر بارش ہوتی اور سورج کی ایک کرن بھی زمین تک نہیں پہنچی۔ باجو کے گھرایندھن ختم ہوگیا اور باجو کی اس مشکل کو دینا ہی حل کرسکتا تھا۔
جھو مری کے چاروں طرف گھنا جنگل ہے ۔ان جنگلوں میں درندوں کی کثرت کے سبب لوگ دس پانچ آدمیوں کی ٹولیاں بنا کر جاتے ہیں۔تنہا جنگل میں جانا قطعی نا مناسب تھا،لیکن اپنی ہونے والی رفیقۂ حیات کو خوش کرنے کے خیال سے دینا نے کلھاڑی اٹھائی اور بارش میں بھیگتا تنِ تنہا جنگل کو روانہ ہوگیا ۔باجُو نے اسے روکنے کی کوشش بھی کی،لیکن دِینا نہ مانا ۔بولا
’’ابھی کے ابھی لکڑیاں لے کر آیا ۔۔۔ اور سوکھی لکڑیاں لاؤں گا۔۔۔۔‘‘
’’ مگر دور نہ جانا ۔۔۔‘‘ باجو نے تاکید کی ۔
’’ نہیں ،چاچا!۔۔۔بس وہ سامنے غار ہے ۔اس میں بہت سی سوکھی لکڑیاں میں نے پہلے ہی رکھ چھوڑی ہیں۔‘‘
وہ جانتا تھا کہ آگ جلائے گی ،اس کی ہونے والی رفیقۂ حیات اور اگر لکڑیاں نم ہوئیں تو اس کو تکلیف ہو۔
شاسی اور محبوبہ کے دلنواز خیال کے جوان نشے میں سر شار دِینا کلھاڑی ہاتھ میں لٹکائے ،جھومتا جھامتا جنگل کی طرف بڑھا چلا گیا۔۔۔۔اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی اور دل میں امنگیں ۔۔۔۔بارش کے مسلسل چھینٹے اس کو روکنے کی کوشش کرتے مگر وہ ان کی طرف سے لاپروابڑھا چلاجارہا تھا۔اس نے بارش شروع ہونے سے پہلے ہی لکڑی کے کئی گٹھے ایک پہاڑی غار میں صرف اس خیال سے چھپا کر ڈال دیے تھے کہ بارش کے زمانے میں خشک لکڑی مہنگے داموں فروخت ہوتی ہے۔
ابھی دِینا جنگل میں زیادہ دور نہیں گیا تھا کہ جھومری کے تین لکڑہارے جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر واپس گاؤں کی طرف جاتے ہوئے ملے ۔سب کے سب بھیگی ہوئی لکڑیاں لے جارہے تھے ۔اور ان کو دیکھ کر دِینا نے سوچا کہ اس نے کتنی عقل مندی کی کہ بارش شروع ہونے سے پہلے ہی لکڑیاں چھپاکر رکھ دیں ۔جب وہ خشک لکڑیاں بازار میں لائے گا تو لاگ منہ مانگے دام دیں گے۔
’’ارے دِینا!۔۔۔۔اکیلے ۔۔۔۔؟‘‘ ایک لکڑہارا تعجب سے بولا۔
‘‘کیا کرتا ۔۔۔تم لوگ پہلے ہی آچکے تھے ۔۔۔۔‘‘ دِینا نے جواب دیا ۔
’’کہاں چلے ہو ۔۔۔؟ دوسرے نے پوچھا۔
اور دِینا نے ساری حقیقت ان کو بتا دی۔
’’ہاں بھئی!۔۔۔اپنی دلھن کے لیے لکڑیاں لینے چلے ہو۔۔۔‘‘ایک بولا۔
دِینا نے دانت نکال دیے ۔۔۔۔اس کے جوان چہرے پر خون کی لہریں رقص کرنے لگیں ۔۔۔۔
’’جاؤ،بھئی !جاؤ۔۔۔لے آؤ لکڑیاں۔۔۔کہو تو ہم لوگ بھی ٹھہر جائیں ۔۔۔۔‘‘
’’نہیں ۔۔۔۔تم لوگ چلو ۔۔۔۔بس ،میں ابھی آیا ۔۔۔۔‘‘
’’غار کے اندر دیکھ بھال کر جائیو۔۔۔۔‘‘ ایک نے نصیحت کی۔
’’فکر نہ کرو۔۔۔‘‘ دِینا کلھاڑی ہلا کر بولا’’ذرا دیر تو ہاتھی کو بھی نہ آنے دو ں گا۔۔۔۔‘‘
لکڑہارے مسکرادیے ۔وہ دِینا کی طاقت و ہمت سے واقف تھے اور جب دِینا غار کی طرف بڑھ گیا تو وہ تینوں بھی گاؤں واپس آگئے ۔
بارش مسلسل جاری تھی۔لکڑہارے تیز تیز قدموں سے گاؤں کی طرف جا رہے تھے اور ان کا موضوعِ سخن دِینا ہی تھا۔کیونکہ وہ گاؤں کا ایک بانکا سجیلا اور ہر دل عزیز نوجوان تھا۔۔۔وہ لوگ جس مقام پر دِینا سے ملے تھے،وہاں سے ابھی تین چار سو گز دور ہی گئے ہوں گے کہ غار والی سمت سے شیر کے غرانے اور حملہ کرنے کی آواز آئی ۔۔۔ان کے اٹھتے ہوئے قدم ایک لمحے کے لیے رک گئے اور انھوں نے ایک دوسرے کی طرف خوف زدہ نظروں سے دیکھا۔۔۔اسی وقت جنگل کے سناٹے میں دِینا کی دہشت ناک چیخ گونجی۔۔۔شیر پھر دہاڑا۔۔۔چیخ پھر بلند ہوئی ۔۔۔اس کے بعد سکوت طاری ہوگیا۔(جاری ہے)