شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ...قسط نمبر 44
یہ تو میں کسی طرح تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھا کہ شیر لاش کو لے کر کھنڈر تک آٹھ میل کا فاصلہ طے کرے گا۔۔۔لیکن جہاں تک نشانات نظر آئے ،ہم لوگ بڑھتے چلے گئے ۔اب ہم گاؤں سے دو میل نکل آئے تھے ۔یہاں جنگل گھنا تو نہیں تھا،لیکن بڑے بڑے تناور درخت ضرور تھے اور جھاڑیاں بھی کافی تھیں ۔پھر چھوٹے بڑے پتھر اوپر نیچے کچھ اس طرح پھیلے ہوئے تھے کہ ان کی آڑ میں کسی بھی جانور کا چھپنا مشکل نہیں تھا۔
جنگل کے عین درمیان ایک عمیق پہاڑی نالہ ہے جو شاید ہی کبھی جاری ہوتا ہو ۔میں نے تو ہمیشہ اسے خشک ہی پایا ۔ہم اس کے کنارے پہنچے تو ماگھ اور لاش کے گھسیٹنے کا رخ بدلا ہوا ملا۔۔۔اب یہ شیر نالے کے کنارے کنارے مشرق کو لیا تھا۔
دھوپ تیز ہوتی جا رہی تھی۔مجھے تعجب تھا کہ شیر لاش اٹھا کر آخر کہاں جارہا ہے ۔ڈوب سے یہاں تک جتنے علاقے سے ہم گزر ے تھے ،اس کے کسی حصے میں بھی شیر ٹھہر کر اطمینان سے لاش کو کھا سکتا تھا۔لیکن اب تک صرف ایک جگہ کے علاوہ اس کے ٹھہرنے کے کوئی آثار نہیں پائے گئے۔
شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ...قسط نمبر 43 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اب نشانات نالے کے اندر اتر گئے تھے اور ہم لوگ چند ہی قدم آگے چلے تھے کہ نالے کے اندر ایک خشک ٹہنی ٹوٹنے کی آواز آئی ۔ہم ٹھٹک کر کھڑے ہوگئے ۔مزید آواز سننے کی کوشش کرنے لگے ۔اس دفعہ ہڈی توڑنے اور گوشت کو بھنبھوڑنے کی آواز سنائی دی ۔شیر نالے کے اندر لاش کھا رہا تھا۔۔۔جس جگہ سے وہ نالے کے اندر اترا تھا ،وہاں نالہ خاصا عمیق تھا اور کنارے عمودی تھے ۔اگر وہ نالے سے نکلنے کی کوشش بھی کرتا تو یا میری طرف آکر اس جگہ سے نکلتا ،جہاں سے نالے کے اندر اترا تھا ،یا پھر آگے جاتا ۔اور مجھے معلوم تھا کہ آگے کم از کم چھ سو گز تک نالے کے کنارے یکساں عمودی ہیں۔
طے یہ ہوا کہ عسکری ،عتیق اور دلاور قدرے چکر کھا کرتین سو گز آگے جائیں گے اور وہاں سے خفیف آواز کریں ۔آواز سن کر شیر میری طرف آئے گا۔میں اسی جگہ دبک گیا اور وہ تینوں چکر کھا کر آگے بڑھ گئے۔
اس حالت میں گیارہ بجے ۔پھر بارہ بج گئے ۔نہ کوئی آواز آئی ، نہ شیر دکھائی دیا۔۔۔یکبارگی دلاور نمودار ہوا اور اس نے بتایا کہ شیر اور آگے بڑھ گیا ہے اور نالے کے اندر لاش کھا رہا ہے ۔عسکری نے اسے دیکھا بھی ہے،مگر فائر کا موقع نہیں ملا ہے۔میں دلاور کے ساتھ جلدی جلدی اس مقام کی طرف چلا اور برابر یہ سوچتا رہا کہ شیر کو ہماری ترکیب کا علم کس طرح ہواجو وہ لاش لے کر آگے بڑھ گیا۔
میں یہ سوچتا تیز قدموں سے ادھر جاہی رہا تھا کہ فائر کی آواز سے جنگل گونج اٹھا ۔فائر کوئی تین چار سو گز کے فاصلے سے کیا گیا تھا۔۔۔دلاور بولا’’غالباًشیر پھر اس طرف واپس آرہا ہے اور صاحب لوگوں نے تعاقب کرکے فائر کیا ہے‘‘۔۔۔یہ بات ہو رہی تھی کہ نالے کے اندر پچاس گز کے فاصلے پر ایک پتھر گرنے کی آواز آئی۔۔۔میں اور دلاور زمین پر لیٹ گئے۔
چند لمحے بعد میں کھسک کر نالے کے کنارے آیااور رائفل کی نال نالے کے اندر نکال کر نیچے کی طرف جھانکنے لگا۔میرے بالکل مقابل یعنی مخالف سمت کے عمودی کنارے کے نیچے شیر لاش کو منہ میں اٹھائے اوپر چڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔نالے کا کنارہ اس مقام پر کسی قدر ڈھلوان تھا،لیکن اتنا نہیں کہ اس پر کوئی چڑھ سکے۔
شیر نے اوپر چڑھنے کی کوشش کی ،لیکن پھسل کر واپس نیچے چلا گیا۔۔۔ایک لمحہ ٹھہر کر پھر اس نے اوپر چڑھنا شروع کیا۔۔۔میں اس کو نشانے پر لے چکا تھا ۔۔۔ابھی وہ چند ہی قدم چلا تھا کہ میں نے اس کے دو شانوں کے درمیان ریڑھ کی ہڈی اور گردن کے جوڑ سے ذرا نیچے نشانہ لیا اور آہستہ سے ٹریگر دبا دیا۔۔۔۔
فائر کی آواز نالے کے اندر اس شدت سے گونجی کہ کئی فائروں سے بھی اتنی آواز ممکن نہیں ۔شیر کے منہ سے لاش چھوٹ گئی اور ایک لمحہ وہ اس طرح ڈھلان پر کھڑا رہا کہ اگلے دونوں ہاتھ آگے بھڑھے ہوئے تھے اور دونوں پچھلے پیر جسم کو اچھالنے کے لیے قدرے خم تھے۔۔۔میں سمجھا،گولی خالی گئی اور دوسرے ٹریگر پر انگلی رکھی ہی تھی کہ شیر کا سر زمین پر ٹک گیااور وہ نیچے کی طرف پھسلتا ہوا نالے کے اندر گر گیا۔۔ ۔شیر نے پھر کوئی جنبش نہیں کی۔۔
میں دونوں نالوں میں دوبارہ نئے کارتوس لگا کر گھوڑے پر چڑھائے، اس کا نشانہ لئے بیٹھا رہا۔
اتنے عرصے میں عسکری اور عتیق بھی آگئے تھے، ہم لوگ آدھے گھنٹے تک چپ چاپ بیٹھے دیکھتے رہے۔ یہ عمل اس لئے ضروری ہے کہ اکثر شیر کچھ عرصے کے لئے بے ہوش ہوجاتاہے اور ہوش آتے ہی حملہ کربیٹھتا ہے۔ اس قسم کا ایک واقعہ میرے ایک شکاری دوست کو پیش آچکا ہے جس میں ان کا آدمی مارا گیا تھا۔
بہرحال دلاور نے دو ایک پتھر پھینک کر مزید اطمینان کیا۔ تب ہم لوگ نالے میں اتر کر شیر کے پاس گئے۔ اس نے لاش کا چوتھائی حصہ کھالیا تھا۔(جاری ہے )