عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 102
اس کے سامنے قاسم کھڑا تھا۔۔۔قاسم بن ہشام۔’’ادرنہ‘‘کا قاسم بن ہشام۔سلطان مراد خان ثانی کا شاہی سراغ رساں، ’’سکندر بیگ‘‘ جیسے ماہر شمشیر زن کو بھرے سٹیڈیم میں شکست دینے والا عرب نوجوان جو وادی حجاز کا رہنے والا تھا۔۔۔قاسم بن ہشام۔۔۔آج سے سات سال پہلے جس کی محبت نے مارسی کو مسلمان کر دیا تھا۔ وہی قاسم جو تہوار والے روز سکندر بیگ کو شکست دے کر مارسی کے دل کا راجہ بن گیا تھا۔ وہی قاسم جس کی محبت نے مارسی کی طرح طرح کے مصائب میں مبتلا کر دیا تھا۔ آج مدتوں بعد قاسم اسکے سامنے تھا۔ اس کا بچھڑا ہوا ساتھی جس کے ساتھ اس نے زندگی کے کٹھن راستے مل کر طے کرنے کے وعدے کئے تھے۔ قاسم کا سر اور چہرہ نقاب سے ڈھکا ہوا تھا۔ لیکن پھر بھی مارسی اسے پہچان گئی۔ وہ اپنے ہمدرد اور غمگسار دلربا کی خوشبو پہچانتی تھی۔ اس نے قاسم کو آنکھوں کی رنگت سے بھی پہچان لیا تھا۔ یہی آنکھیں تو تھیں جن میں جھانک کر اس نے زندگی کے ہر دکھ بانٹنے کے وعدے کئے تھے۔ مارسی کا جسم سن ہو چکا تھا اور اس کا شعور سکتے کے عالم میں تھا۔ اس کے ہونٹ کھلے تھے اور داہنا ہاتھ استعجاب بھرے انداز میں اٹھا ہوا تھا۔ مارسی کی زبان گنگ تھی۔ اور اس کی آنکھیں ایک ٹک قاسم پر جمی ہوئی تھیں۔
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 101 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
قاسم آہستہ قدموں سے کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے کمرے میں داخل ہو کر مارسی کے حجرہ خاص کا دروازہ اندر سے بند کر دیا۔ اس مقدس حجرے میں آج پہلی مرتبہ کوئی مرد داخل ہوا تھا۔ قاسم نے دروازہ اندر سے بند کر دیا۔ قاسم نے دروازہ بند کرکے اپنے چہرے کو نقاب کی قید سے آزاد کر لیا۔ مارسی ابھی تک سکتے کے عالم میں تھی۔ قاسم منتظر تھا کہ مارسی کچھ کہے لیکن ۔۔۔مارسی تھی کہ اپنی بلا خیز آنکھیں پٹپٹائے بغیر کسی سنگی مجسمے کی طرح ساکت و جامد کھڑی تھی۔ سات وسال کی جدائی اور پے در پے صدمات نے مارسی کو حالات سے سمجھوتہ کرنا سکھا دیا تھا اور وہ انہونی باتوں کی توقع کرنے باز رہتی تھی۔ لیکن آج انہونی ہوگئی تھی۔ چنانچہ مارسی حیرت سے پتھر بن گئی۔ قاسم نے مارسی کی حالت دیکھی تو دو قدم آگے بڑھا اور مارسی کے بالکل نزدیک پہنچ کر رک گیا۔ اگلے لمحے اس کے دونوں ہاتھ مارسی کے شانوں پر تھے اور وہ مارسی کو جھنجھوڑ کر کہہ رہا تھا۔
’’مارسی!۔۔۔مارسی!۔۔۔ہوش میں آؤ۔۔۔مارسی! میں قاسم ہوں۔ تمہارا قاسم۔۔۔قاسم بن ہشام۔‘‘
قاسم کے حلق سے تیز سرگوشی نکل رہی تھی۔ قاسم کی آواز سن کر مارسی کے بدن میں زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ وہ ایک جھرجھری لے کر عالم استغراق سے بیدار ہوئی ۔ اور فی الفور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ یہ وہ سیلاب تھا جس کے سامنے کئی سالوں سے حالات سے بندھ باندھ دیئے گئے تھے۔ آج تمام رکاوٹوں کو توڑ کر آنکھوں کے راستے سے پوری طرح پھوٹ پڑا تھا۔ مارسی اپنے قاسم کے چوڑے چکلے سینے سے لگ چکی تھی۔ پھوٹ پھوٹ کر رونے سے اس کا پورا بند بید مجنوں کی شاخ بن کر لرز رہا تھا۔ آج مارسی آنکھوں کے راستے سے دل کے سارے داغ دھو دینا چاہتی تھی۔ لیکن قاسم کے پاس اس جذباتی منظر سے مسرت کشید کرنے کا وقت نہ تھا۔ وہ تو مارسی کو لینے آیا تھا۔ اپنے ساتھ لے جانے کے لئے۔۔۔اس نے مارسی کے شانوں کو انگلیوں کی نرم لمس سے کسی قدر دبایا اور کہا۔
’’مارسی!۔۔۔میں آگیا ہوں۔ میں تمہیں لینے کے لیے آگیا ہوں۔ تم نے بہت دکھ سہے۔ بہت صدمے جھیلے۔ لیکن اب تمہاری تمام دعائیں قبول ہو چکی ہیں۔۔۔آؤ میرے ساتھ! اب میں تمہیں خود سے کبھی بھی جدا نہ ہونے دوں گا۔‘‘
مارسی اب بھی آنسو بہا رہی تھی۔ ابھی تک وہ زبان سے کچھ نہ بولی تھی۔ مارسی کے خوبصورت جسم میں رعشے کی سی کیفیت تھی۔ قاسم نے مناسب سمجھا کہ مارسی کو فوری طور پر اپنے ساتھ لے جانے کی بجائے کچھ دیر کے لیے اسے سنبھلنے کا موقع دیا جائے۔ وہ مارسی کو سہارا دے کر اس کے بستر تک لایا۔ لیکن اب مارسی سنبھل چکی تھی۔ اس نے مسہری پر بیٹھنے سے پہلے قاسم کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں سے تھام لئے اور پھر قاسم یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ مارسی اس کے دونوں ہاتھوں کو والہانہ انداز میں بوسے دینے لگی تھی۔ وہ قاسم کی انگلیوں کو اپنی گیلی آنکھوں کے ساتھ بار بار چھو رہی تھی۔ اب مارسی نے بولنا چاہا۔ لیکن الفاظ اس کے حلق میں اٹک گئے۔ قاسم نے مارسی کی والہانہ محبت کو محسوسکیا تو دل ہی دل میں نادم ہوا۔کیونکہ وہ تو شادی بھی کرچکا تھا اور اس کی ایک انتہائی پیاری پیاری باتیں کرنے والی بیٹی بھی تھی۔۔۔یا الٰہی!یہ کیا ماجرا تھا؟مارسی تو اسے ٹوٹ کر چاہتی تھی۔ لیکن وہ تھا کہ اپنی رفیقہ حیات کسی اور کو بنا بیٹھا تھا۔ لیکن اس میں قاسم کا بھلا کیا قصور تھا۔ اسے تو آج سے سات سال پہلے یہی خبر ملی تھی کہ مارسی شہید ہو چکی ہے۔ پھر قاسم کی ملاقات بوسنیائی شہزادی سے ہوگئی۔ سچ تو یہ تھا کہ قاسم آج تک مارسی کو اسی طرح چاہتا تھا۔
قاسم، مارسی کے پاس مسہری پر بیٹھ گیا۔ اب مارسی نے پہلی مرتبہ اپنے ہونٹوں کو حرکت دی۔’’مجھے یقین تھا کہ آپ مجھے لینے کے لیے ضرور آئیں گے۔ آپ کے انتظار میں سات سال تو کیا میں سات صدیاں بھی انتظار کر سکتی تھی۔ قاسم !۔۔۔آج آپ کو دیکھ کر نہ جانے مجھے کیا ہو رہا ہے؟۔۔۔کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔۔۔آپ کئی ماہ پہلے یہاں ’’آیا صوفیاء‘‘ میں پہنچ بھی گئے تھے۔ ہمارا آمنا سامنا بھی ہوا لیکن۔۔۔‘‘قاسم اسکی باتیں سن کر اپنے آپ میں ڈوب گیا ۔ایسی والہانہ چاہت ہی تھی جو اسے مارسی کی جانب کھینچ لاتی تھی۔(جاری ہے )