عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 101
سونیا نے جب سے ہوش سنبھالا تھا اس کے سامنے صرف ہوس پرست مرد ہی آئے تھے۔ قاسم کی ملاقات اس کے لئے نیا تجربہ تھی۔ قاسم نے اس کے اندر کی نیک لڑکی کو جھنجھوڑا۔۔۔تو وہ ایک دم سے جیسے بیدار ہو گئی وہ اب تک ’’آیا صوفیاء‘‘ کے بدبودار راہبوں کا نشانہ بنی رہی تھی لیکن اب وہ قاسم کے سوا کسی اور کے لئے جینا نہیں چاہتی تھی۔ اس کی انگلی میں قاسم کی پہنائی ہوئی انگوٹھی تھی جسے ہر وقت وہ اپنے سینے سے لگائے رکھتی۔
آج اپنے خداوند کے حضور گڑگڑانے کے لئے وہ بھی آیا صوفیاء کے ہال میں داخل ہوئی۔ پورا ہال خوفزدہ شہریوں سے بھرا ہو اتھا۔ اس عقیدے کی بنا پر کہ آیا صوفیاء کے ہوتے ہوئے قسطنطنیہ کو کوئی فتح نہیں کر سکتا۔۔۔لوگ جوق در جوق یہاں عبادت کے لیے آنے لگے تھے۔ درحقیقت لوگوں میں صدیوں سے ایک بشارت مشہور چلی آرہی تھی۔ جس نے ایک راہب کو الہام کے ذریعے خداوند نے یہ بتایا تھا کہ قسطنطنیہ پر ترکوں کا حملہ ہوگا۔
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 100 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اور ترک رومیوں کا تعاقب کرتے کرتے ’’آیا صوفیاء‘‘ کے اس ستون تک پہنچ جائیں گے جسے شاہ قسطنطنین کے نام سے منسوب کیا جانا تھا۔ لیکن یہیں سے ترکوں کی واپسی اور شکست کا عمل شروع ہوگا۔ آج کل اس بشارت کی وجہ سے آیا صوفیاء میں مذہبی لوگوں کی آمد و رفت بڑھ گئی تھی۔ آج بھی چرچ عبادت گزاروں سے بھرا ہوا تھا۔ سونیا عبادت گاہ کی نشستوں میں سے ایک نشست پر سر جھکا کر بیٹھ گئی۔ اس کا دل چور چور تھا۔ اور اس کی آنکھیں رات بھر رونے کی وجہ سے سوجی ہوئی تھیں۔ سونیا نے اپنے دائیں اور بائیں بیٹھی خواتین کو ایک نظر بھی نہ دیکھا۔۔۔
چرچ کا بشپ چبوترے کے ممبر پر کھڑا بآواز بلند مناجات پڑھ رہا تھا۔ اور تمام حاضرین سر نہواڑے بشپ کی مناجات سن رہے تھے۔ ہر کوئی دل ہی دل میں عثمانی ترکوں کا قہر ٹالنے کے لئے دعائیں مانگ رہا تھا۔ لیکن سونیا کی آنکھوں سے گرنے والے آنسو صرف ایرون، ایرون پکار رہے تھے۔
قاسم کی محبت نے سونیا کی زندگی بدل دی تھی۔ اس کی کایا پلٹ گئی تھی۔ اب وہ پہلے والی سونیا نہ رہی تھی۔ لوگ سلطان محمد خان کے قہر سے بچاؤ کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ جبکہ سونیا اپنے قاسم کو دیکھنے کے لئے خداوند کے حضور رو رہی تھی۔ وہ قاسم کو ایرون کے نام سے جانتی تھی۔ اسے قاسم ایک نوجوان پادری کے روپ میں ملا تھا۔ اور مسلمانو کے روپ میں بچھڑ گیا تھا لیکن سونیا کے لیے اپنی میٹھی میٹھی یادیں چھوڑ گیا تھا ۔ ایرون قاسم کا جعلی نام تھا۔ جو اس نے ’’آیا صوفیاء‘‘ کا راہب بننے کے لئے اختیار کیا تھا۔ سونیا ایرون کی رہائی کے لئے دعائیں مانگتی رہی۔ اس کے دونوں ہاتھ سامنے کی طرف جڑے ہوئے تھے۔ اور داہنے ہاتھ کی ایک انگلی میں قاسم کی دی ہوئی انگوٹھی چمک رہی تھی۔
سونیا کے دائیں پہلو میں بیٹھی خاتون کافی دیر سے پھٹی پھٹی آنکھوں کے ساتھ سونیا کی انگلی میں پہنی انگوٹھی کو گھور رہی تھی۔ یہ ’’بریٹا‘‘ تھی۔ رومیل کی بیوی بریٹا۔ جو ہر اتوار کو عبادت کے لیے چرچ آیا کرتی تھی۔ اس نے سونیا کو پہلے بھی کئی مرتبہ دیکھا تھا۔ لیکن آج سونیا کے ہاتھ میں انگوٹھی دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ یہ تو وہی انگوٹھی تھی جو اس کے منہ بولے بھائی قاسم بن ہشام نے ’’ڈیمونان‘‘ کی دعوت کے روز اسے دی تھی۔
بریٹا کبھی انگوٹھی کو دیکھتی اور کبھی سونیا کی آنکھوں سے گرتے ٹپ ٹپ آنسوؤں کو برٹیا کا سر چکرانے لگا اور اس کا دماغ تیزی سے گھومنے لگا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کیا یہی لڑکی قاسم کی پہلی محبت تھی۔ جسے حاصل کرنے کے لیے وہ ڈیمونان کے تعاقب میں یہاں آیا تھا۔ بریٹا کے دل میں جذبات کی بڑی بڑی موجیں اٹھتی اور بیٹھی رہیں۔ سونیا بدستور عبادت میں مصروف رہی۔ لیکن بریٹا مارے تجسس کے عبادت نہ کر سکی اور جب بشپ اعظم نے دعا ختم ہونے کا اعلان کیا تو بریٹا نے انتہائی بے صبری کے ساتھ سونیا کی کلائی پکڑ لی۔
’’لڑکی۔۔۔! کیا تمہارا نام سسڑ میری ہے؟۔۔۔تم نے یہ انگوٹھی کہاں سے حاصل کی۔۔۔تم سسٹر میری نہیں ہو سکتیں۔۔۔ایک مقدس راہبہ انگوٹھیاں نہیں پہنتی لیکن یہ انگوٹھی تمہارے پاس پہنچی کس طرح؟‘‘
بریٹا نے ایک ہی سانس میں کئی سوال کر ڈالے۔ وہ ایک عام گھریلو خاتون تھی اسے گہرے راز سنبھالنے کا فن نہیں آتا تھا۔ وہ انتہائی جذباتی انداز میں سونیا کی کلائی پکڑے ہوئے تھی اور سونیا پر سوالات کی بوچھاڑ کیے جا رہی تھی لیکن سونیا۔۔۔وہاں موجود نہ تھی۔۔۔وہ تو کہیں کھو گئی تھی۔ سسٹر میری کا کیا چکر تھا اور اس انگوٹھی کا سسٹر میری کے ساتھ کیا تعلق تھا۔ اور اسے یہ بھی یاد آیا کہ سسٹر میری نے چند دن قبل سونیا سے انگوٹھی حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس کے دماغ میں آندھیاں چلنے لگیں اب اسے ایرون کی کہانی مزید پیچیدہ دکھائی دینے لگی۔ وہ بے چین تھی۔۔۔وہ جلد سے جلد جاننا چاہتی تھی۔ کہ ایرون کی دی ہوئی انگوٹھی کے پیچھے کیا راز تھا۔۔۔اور یہ عورت کون تھی۔ جس نے بھرے کلیسا میں سونیا کا ہاتھ پکڑلیا تھا۔۔۔وہ ایک لمحے کے لئے کچھ سوچنے کے بعد تیزی سے اٹھی اور برٹیا کو اپنے ساتھ لے کر۔۔۔اوپر گیلری کی جانب چل دی۔
سونیا نے اپنے کمرے میں پہنچ کر بھی برتیا پر یہ ظاہر نہ ہونے دیا تھا کہ وہ کون ہے۔ البتہ وہ خود بریٹا سے سوال کرنے لگی تھی۔
’’بہن!۔۔۔تم پہلے یہ بتاؤ کہ تم۔۔۔اس انگوٹھی۔۔۔کو کیسے جانتی ہو۔ اور اس کا سسٹر میری کے ساتھ کیا تعلق ہے؟‘‘
سونیا نے اپنی انگوٹھی سامنے کرتے ہوئے کہا۔ لیکن اب بریٹا اپنے جذبات پر قابو پا چکی تھی۔ اس نے دل کی بات چھپاتے ہوئے مختصر جواب دیا۔
’’یہ انگوٹھی سسٹر میری کی ہے۔ اس سے زیادہ مجھے کچھ معلوم نہیں۔ لیکن تم پہلے یہ بتاؤ کہ تم کون ہو؟‘‘
سونیا سمجھ چکی تھی کہ اب بریٹا اصل حقیقت نہیں بتائے گی۔ چنانچہ اس نے ایک عجیب داؤ کھیلا۔ اور بریٹاسے کہا۔
’’بہن!۔۔۔درحقیقت میں ہی سسٹرمیری ہوں۔ میں ایک راہبہ ہو کر یہ انگوٹھی اس لئے پہنتی ہوں کہ اس انگوٹھی کے ساتھ میرا بہت جذباتی تعلق ہے۔‘‘
بریٹا سونیا کے دام میں آگئی۔ اور ایک خوشی سے بھرپور چیخ نما آواز نکالتے ہوئے سونیا کو گلے سے لگا لیا۔
’’اوہ میری بہن!۔۔۔مارسی!۔۔۔تو بالآخر تمہیں اپنا بچھڑا ہوا پیار مل ہی گیا۔ میں مقدس ڈیمونان سے تمہاری ساری کہانی سن چکی ہوں۔ تم نے بہت دکھ سہے۔۔۔مورگن میرا بھائی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ وہ مسلمان ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ تم اسے بہت چاہتی ہو۔ میں تم سے ملنا چاہتی تھی۔ لیکن جب سے مورگن نے ڈیمونان کو قتل کیا۔ میں ڈر گئی۔اور چرچ میں آنا کم کر دیا شکر ہے تمہیں تمہاری محبت مل گئی۔ لیکن میں نے توسنا ہے کہ مورگن کو آیا صوفیاء سے گرفتار کر لیا گیاہے۔ وہ تمہیں کب ملا تھا؟ کچھ بتاؤ نا!‘‘
بریٹا جذباتی ہو رہی تھی۔ لیکن سونیا پتھر کی طرح سن ہو چکی تھی۔ اس کے دماغ میں ساری کھڑکیاں کھل چکی تھیں۔ وہ مورگن یا ایرون کی اصل حقیقت جان گئی تھی۔ اب اسے یہ بھی معلوم ہوگیا تھا کہ وہ مسلمان جاسوس فی الحقیقت سسٹر میری کا محبوب تھا۔ اس کا دل ٹوٹ گیا وہ دیوار کا سہارا لے کر کھڑی ہوگئی۔۔۔تو گویا اس کے ساتھ دھوکہ ہوا تھا۔ ایک ہی شخص جس نے دنیا میں اس کا دل جیتا تھا۔۔۔وہ بھی دھوکے باز نکلا۔ وہ تو مارسی کے چکر میں یہاں آیا۔ بطریق ڈیمونان کو قتل کرنے والا مسلمان جاسوس ایک سات سالہ عبادت گزار راہبہ کو حاصل کرنا چاہتا تھا۔ ایرون نے اسے استعمال کیا تھا۔ محض ایک کھلونا سمجھ کر استعمال کیا تھا۔ اسنے سونیا کو انگوٹھی اسی لئے پہنائی تھی کہ وہ یہ انگوٹھی لے جا کر سسٹر میری کو دکھائے۔ اور سسٹر میری نے بھی تو دھوکہ دیا تھا۔ سسٹرمیری نے اسے اصل حقیقت کیوں نہ بتائی؟ سونیا کا دل رنج و الم سے بھر گیا۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونا چاہتی تھی لیکن نہ جانے کیوں اس کی ہچکیاں سینے میں ہی رک گئی تھی۔ صرف آنسو تھے جو ٹپ ٹپ گرتے جا رہے تھے۔ چند روز پہلے تک یہ آنکھیں شوخ و شریر و چنچل ہوا کرتی تھیں لیکن اب ان میں صدیوں کی اداسی اتر آئی تھی۔ اس نے ابھی چند روز قبل ہی تو اپنی گناہ آلود زندگی کو ترک کرنے کا تہیہ کیا تھا۔ اور یہ تمام تر تبدیلی صرف قاسم کی بدولت وقوع پذیر ہوئی تھی۔ لیکن یہ کیا ماجرا نکلا۔۔۔وہ جس شخص کو اپنا سمجھتی رہی وہ تو کسی اور کا نکلا۔ اس نے جس کو خدا بنایا تھا۔۔۔وہ کسی اور کا پجاری تھا۔ سونیا کے لئے تمام دکھوں سے بڑھ کر یہ صدمہ تھا۔ وہ بری طرح نڈھال ہو رہی تھی۔ اور بریٹا اسکے نزدیک کھڑی اس کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی ہوئی حالت پر غور کررہی تھی۔ اسے حیرت ہو رہی تھی کہ اس لڑکی کو کیا ہونے لگا ہے حقیقت یہ تھی کہ سونیااب بھی قاسم سے متنفر نہ ہوئی تھی۔ وہ دل ہی دل میں اپنی حیثیت پر غور کرنے لگی۔ اجنبی نوجوان جو ایرون بن کر سونیا کی زندگی میں داخل ہوا تھا وہ سسٹر میری جیسی ایک پاکباز خاتون سے محبت کرتا تھا۔۔۔جبکہ سونیا، سسٹر میری کے مقابلے میں خود کوایک بازاری لڑکی سمجھتی تھی اسے اپنی کم مائیگی کا احساس ہونے لگا۔ دیر تک وہ بریٹا کے ساتھ کوئی بات نہ کر سکی۔ بالآخر بریٹا خود ہی مخاطب ہوئی۔
’’کیا بات ہے سسٹر میری! آپ تو پریشان ہونے لگی ہیں۔ آپ فکر مند نہ ہوں۔ مورگن مسلمان ہے تو کیا ہوا؟ میں یقین سے کہتی ہوں کہ وہ جب بھی قید سے رہا ہوگا تو سیدھا آپ ہی کے پاس آئے گا۔ میں جانتی ہوں مورگن آپ کے بغیر جینے کا تصور ہی نہیں کر سکتا۔ اس نے مجھے آپ کی اور اپنی مکمل کہانی سنائی ہے۔‘‘
سونیا کے لئے مزید کچھ سننا ممکن نہ تھا۔ اس کا سر زور زور سے چکرانے لگا۔ چہرے کا رنگ فق ہوگیا اور ہونٹ خشک ہونے لگے۔ وہ لڑکھڑاتی ہوئی اپنے بسترپر جا بیٹھی۔ آج اس نے اپنی زندگی کا سب سے زیادہ دکھ بھرا دن دیکھ لیا تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے تاریکی چھانے لگی۔
بریٹا تو چلی گئی۔ لیکن سونیا کے لئے ایک اندوہناک زندگی کا دروازہ کھول گئی۔ وہ جب تک نہ جانتی تھی کہ ایرون، سسٹر میری سے محبت کرتا ہے اپنے آپ کو ایرون کی محبت کا تن تنہا مالک سمجھتی تھی۔ لیکن اسے حقیقت معلوم ہوئی تو وہ کسی کانچ کے مرتبان کی طرح ٹوٹ کر بکھر گئی۔
اور پھر اسی رات ’’آیا صوفیاء‘‘ کی بالائی منزل میں مقدس راہبہ سسٹر میری کے دروازے پر ایک نقاب پوش دکھائی دیا۔ ’’آیا صوفیاء‘‘ بالائی منزل میں رات کے اس وقت سنسنانی کا پہرہ تھا۔ فرش پر سوئی گرنے کی آواز بھی سنائی دے سکتی تھی گیلری کی دیواروں میں دائیں بائیں معمول کے مطابق مشعلیں جل رہی تھیں جن کی تھرتھرتی ہوئی لوئیں’’آیا صوفیاء‘‘ کی بالائی منزل پر بنے مہیب ستونوں کو رقص کرتے ہوئے شیاطین کی صورت دکھا رہی تھیں۔ نقاب پوش، مارسی کے دروازے پر رک گیا۔ اس نے دائیں ہاتھ کی انگلی سے مارسی کا دروازہ کھٹکھٹایا اور کسی آہٹ کا انتظار کرنے لگا۔ اسے انتظار نہ کرنا پڑا۔ کیونکہ جلد ہی مارسی نے اپنے کمرے کا دروازہ کھول دیا۔ لیکن اگلے لمحے وہ ایک نقاب پوش کو دیکھ کر بے حد بوکھلا گئی۔ وہ ایک دم سہم کر دو قدم پیچھے ہٹ گئی۔وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے نقاب پوش کو دیکھ رہی تھی۔ یہ کون شخص تھا جو آدھی رات کے وقت چہرے کو نقاب سے چھپائے مارسی کے کمرے میں آن ٹپکا تھا؟۔۔۔
اور پھر اگلے لمحے ہی مارسی کے ذہن میں ایک انتہائی زوردار جھماکہ ہوا۔(جاری ہے )